اکیسویں صدی کا طلسم ہوش ربا
اکیسویں صدی کا طلسم ہوش ربا
زمانے کی رنگینی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے, آزادی و لذت کے وہ سارے سامان میسر ہیں جو ہر آج کو رنگین بنا رہے ہیں اور ہر کل سے بے خوف کر رہے ہیں۔
تحریر و تحقیق: محمد الطاف گوہر
جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ،آج تک آپ اس طرح کی معرکہ آراءباتیں قصے کہانیوں میں سنتے آئے ہیں ، مگر یہ ہوشربا مناظر اب آپ کو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔اس حقیقت سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا کہ میڈیا کا جادو سر چڑہ کر بول رہا ہے اور اسکے فوائدیا نقصانات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگر اسکا روزمرہ زندگی میں عمل دخل دیکھا جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ اسکے بغیر گھریلو زندگی کا تصور نامکمل سا لگتا ہے ۔
آج کے دور میں ٹیلی ویژن نہ صرف گھریلو تفریح کا اچھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کی حیثیت گھر کے ایک فرد جیسی ہو چکی ہے جس کے بغیر گھر نامکمل سا لگتا ہے۔ ایک طرف اگر دنیا جہاں کی معلومات گھر بیٹے ملتی ہیں تو دوسری طرف اس کے تفریحی پروگرام کسی طرح بھی طلسم ہوش ربا سے کم نہیں۔ خاص طور پر مختلف چینلز کے کبھی نہ ختم ہونے والے طلسمی جال نے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کو جکڑ رکھا ہے۔ گھریلو خواتین کیلئے ان کی اہمیت ایک وقت کا کھانا تیار کرنے کے مترادف ہے۔ ان ڈراموں کے موضوعات زیادہ تر گھریلو مسائل، رشتوں کے اقدار، محبت و نفرت کی جنگ اور خواہشوں کے نت نئے انداز کے اردگرد گھومتے ہیں۔ ان کہانیوںمیں روایتی ہیرو، ہیروئن کے انجام سے ہٹ کر ایک نئی روش اختیار کر گئی ہے کہ ڈرامہ کی کہانی تمام کرداروں کا باری باری طواف کرتی ہیں اور اس طرح سے ایک لامتناہی سلسلہ سالہا سال سے چلتا آ رہا ہے۔ روز مرہ کے عام موضوعات سے لے کر کٹھن مراحل زندگی کو سلجھانے کی کوشش اور نت نئے موضوعات کی دلفریبی نے ناظرین کو اُلجھا کر رکھ دیا ہے اور اس طرح اس طلسم ہوش ربا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ پروگرام بچوں کے ہوں یا بڑوں کے زمانے کی رنگینی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آزادی و لذت کے وہ سارے سامان میسر ہیں جو ہر آج کو رنگین بنا رہے ہیں اور ہر کل سے بے خوف کر رہے ہیں۔
اگر اس سراب نظر سے توجہ ہٹائی جائے تو کچھ اہم باتیں توجہ طلب ہیں جہاں یہ ڈرامے اعلیٰ تفریح اور سبق آموز کہانیوں کا مسکن سمجھے جاتے ہیں وہیں ہندوانہ مذہبی شعائر کے اعلیٰ تربیتی مراکز بھی ہیں۔ ان میں نہ صرف ہندومت کے نظریات کو خوبصوررت انداز میں پیش کیا گیا ہے بلکہ گھر بیٹھے لوگوں کو مفت ہندوانہ مذہبی رسومات کی تربیت دی جا رہی ہے۔ ان ڈراموں کے طلسم میں جکڑے ہوئے لوگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر نئی قسط میں ایک نیا مذہبی سبق (Course)حاصل کرتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سبق کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اس تربیتی پروگرام کو کبھی نہ بھولنے والے خوبصورت مناظر میں قلم بند کیا جاتا ہے۔ ایک بچے کے پیدا ہونے سے لےکر مرنے کے بعد تک کی تمام ہندو مذہبی رسومات کو اعلیٰ ڈرامائی شکل دے کر جو اسباق مرتب کئے گئے ہیں ان کے شاندار نتائج سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی۔ اب اگر ایک مسلمان بچے کی تربیت ایسے ماحول میں کی جائے جہاں کا اوڑھنا بچھونا ہندوانہ ہو تو اس سے کس مستقبل کی اُمید کی جا سکتی ہے؟ ایجادات اور تفریح کے اس دور میں کہیں ہم اپنا وجود تو نہیں کھو چکے؟ آج احساس نام کی کوئی چیز میسر آ جائے تو غنیمت جانئے اور صرف ایک بار تفریح کی عینک اُتار کر حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ کیبل و انٹرنیٹ کے اس جدید دور میں ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ من پسند زندگی گزارے۔ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ رسل و رسائل کے ذرائع کو کسی معیار کا پابند بنایا جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ افراد کی تربیت اس طرح سے کی جائے کہ وہ حقیقت سے شناسا ہوں۔ آج اگر ایک ناپختہ ذہن بچہ ہندوانہ مذہبی رسومات کو معمولات زندگی سمجھ کر سیکھ رہا ہے تو کل کو وہ کس کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اپنا ”اسلامی تشخص“ تلاش کرے گا؟
ہم جس بھی رنگ میں رنگے جا رہے ہیں اس کا تو اب احساس بھی ختم ہوتا جا رہا ہے روزمرہ معاملات اب اس تربیت کے باعث ہمیں مختلف دکھائی دیتے ہیں ہمارے رسم و رواج کے اندر جو کچھ ملاوٹ ہو چکی ہے شاید اس کا خمیازہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اس نئے دور کی نئی تہذیب کے جو ثمرات ہمیں مل رہے ہیں اس کا Credit اس ذہن کو دینا چاہیے جس نے کامیابی کے ساتھ اپنا رنگ ہمارے اوپر رنگ دیا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلنے دیا۔ اُمید یہ ہے کہ ہم ، جو کہ اس دلدل میں بُری طرح پھنس چکے ہیں اور بچنے کیلئے ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں، اگلے مرحلے (Stage)پہ اپنا وجود کھو چکے ہوں گے۔
جہاںہمارے پاس دوسروں کی بُرائیاں کرنے کیلئے بہت وقت ہے وہاں ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرات نہیں کرتے۔ اپنے آپ کواحساس (Realize) دلانے کا وقت بھی نہیں یہ سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا تو نامعلوم کتنی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا آج اگر ہم کم از کم اتنی ہمت کر لیں کہ اپنی آنکھوں کی پٹی اُتار کر غیر جانبدار ہو کر اپنے ارد گرد بدلتے ہوئے زندگی کے رنگوں کو اپنی ”ذاتی“ آنکھوں سے دیکھ کر فیصلہ کریں کہ آیا ہم سب کچھ صحیح کر رہے ہیں یا کچھ غلط بھی ہو رہا ہے؟ آیا ہم اتنے لاپرواہ ہیں اور کیا ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں؟ ہم کب تک معاملات سے پہلوتہی کرتے رہیں گے۔
آج ہماری قوم کے نوجوان بچے جس رنگ کو اپنا رہے ہیں کیا وہ ہمارا اپنا رنگ ہے؟ کیا ہمارا یہی ورثہ ہے کہ اگر ایک طرف ہم امپورٹڈ (Imported) اشیائے صرف پسند کرتے ہیں تو کیا دوسری طرف امپورٹڈ لائف اسٹائل کو بھی اپنا لیں جو چاہے ہماری تہذیب کی کمر میں چھرا ہی گھونپ رہا ہو؟ میری گزارش ہے کہ جو کچھ بھی آپ نے اِن تحریروں میں پڑھیں اپنی روز مرہ کی گپ شپ میں کم از کم دو تین دن تو ضرور اس کو شامل کریں، ہو سکتا ہے کسی کا بھلا ہو جائے اور آپ اپنے حصے کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکیں۔