URDUSKY || NETWORK

بڈھا

102

دوادب | افسانے | احمد نديم قاسميahmed_nadeem_qasmi300[1]

بڈھا

جب منڈيروں پر پھد کتي ہوئي چڑياں ايک دم بھرر سے فضا ميں ابھرا جاتيں اور کھرليوں کے قريب گٹھڑياں بنے ہوئے بچھڑۓ اپنے لمبے لمبے کانوں کے آخري سرے ملا کر محرابيں سي بناليتے تو جھکي ہوئي ديواروں کے سائے ميں بيٹھے ہوئے کسان مسکراتے اور خشک تمباکو کو ہتھيليوں سے ملتے ہوئے ياکھيس کے دھاگوں ميں بل ڈالتے ہوئے کہتے، بابا عمرو کھانسا ہے۔ بابا عمرو کي کھانسي بہت گونجيلي تھي، يوں معلوم ہوتا تھا جيسے تانبے سے بنے ہوئے کنوئيں ميں يکبار چند پتھر گر پڑے ہيں۔۔۔۔۔وہ اپنے جھونپڑے کي چوکھٹ پر بيٹھا بکريوں کے بال بٹتا رہتا اور جب کھانستا تو پسليوں کو دنوں ہاتھوں سے جکڑ ليتا، اس زور سے تھوکتا کہ اس کي مونچھوں کے جيھکے ہوئے بال لوہے کے تنے ہوئے تار بن جاتے، خربوزے کے مرجھائے ہوئے چھلکوں کے گالوں پر چھريوں کا جال سا تنا جاتا، اور جھکي ہوئي بھوسلي بھووں کے نيچے سے ندي کنارے کے گول کنکروں کي سي آنکھوں پرپاني کي پتلي سي لہر تير جاتي، پڑوسن کے بچے تالياں بجاتے اور چلاتے، بابا عمرو کھانسا ہے۔۔۔۔۔۔بابا عمرو کے کانوں ميں ان چيخوں کي بھنک پڑجاتي تو بکريوں کے گولے پر بے تابانہ انگلياں پھيرتا، رسي ميں اتنے بل ڈالتا کہ وہ تن کہ ٹيڑھي ہوجاتي اور پھر پاس ہي بيٹھي ہوئي بلي کو گردن سے پکڑ کر اپني جھولي ميں بٹھا ليتا اور کہتا بابا عمرو کيا کھانسا، مداري نے پٹارے سے ڈھکنا ہٹا ديا، چھچھوندر کہيں کے ديکھوں گا ميري عمر کو پہنچ کر کيسے نہيں کھانستے، ميں بھي تو جب جواني ميں کھانستا تھا تو ايسا لگتا تھا جيسا کوئي طبلہ بجا رہا ہے۔

ipaki