گل وسوں باہر ہو گئی
گل وسوں باہر ہو گئی
تحریر :محمد الطاف گوہر
بابا جی آپ کے ڈول میں کیا ہے؟ ” میرے ڈول میں دودھ ہے، بچے کیلئے لیکر جا رہا ہوں، سوچا راستے میں تم سے مل جاؤں” ،رات کے وقت جب بابا جی تشریف لائے تو انکے ہاتھ میں ایک ڈول تھا جو کہ ایک تھالی سے ڈھکا ہوا تھا، ” یار میری صرف ایک ہی خواہش ہے، اگر میرے پاس کافی سارا سرمایہ ہو تو میں ایک مدرسہ بناؤں ، اسکے ساتھ ایک پیر خانہ جہاں تین وقت مفت کا لنگر تقسیم ہوگا، اور تمھیں میں اپنے ساتھ رکھوں گا”، مگر بابا جی میرا کیا کام ہے آپکے پیر خانے میں ؟ میں نے پوچھا ، تو بولے، ” ا یہہ تے وقت دسے گا، توں اینا گلاں نو نیں جان دا”، باتوں باتوں میں کافی وقت گزر گیا تو میں نے انہیں یاد کروایا کہ انہیں بچے کیلئے دودھ لیکر جانا ہے ، تو بابا جی نے ڈول سے تھالی اٹھائی اور دودھ کو مخاطب کرکے بولے ” اچھا مینوں دیر ہوگئی اے ، تو کھر ٹر جا”، پھر تھالی اوپر رکھ دی ، میں نے سمجھا مذاق کر رہے ہیں ، اب ڈول سے میں نے تھالی اٹھا کر دیکھا تو ڈول خالی تھا۔
دوسرے دن شام کو بابا جی پھر تشریف لائے اور فرمائش کردی کہ وہ گانا لگاؤ جس کے بول ہیں ” گل وسوں بار ہوگئی” ، فورا ٹیپ ریکارڈر آن کیا اور کیسٹ لگا دی، بابا جی جانے کہاں کھو گئے، اچانک بولے ، ” تینوں پتہ اے کہ اس گانے وچ کی خاص گل اے”، میں نے کہا نہیں ، مجھے معلوم نہیں، تو بولے ” میں اپنے گھر میں یہ گانا بغیر کسی ٹیپ ریکارڈر کے سنتا تھا “، میں نے حیرانی سے پوچھا وہ کیسے تو بولے ، ” میں اپنے گھر نیچے والے پورشن میں اکیلا رہتا تھا ، جب دل چاہتا تھا محفل سجا لیتا تھا ،
منعم بکوہ ودشت بیاباں غریب نیست
ہر جا کہ خیمہ زن بارگاہ ساخت
میرا باپ گھر کے اوپر والے پورشن سے نیچے اترتا اور دروازہ پیٹتا کہ بند کرو ، یہ کیا کنجر خانہ لگا رکھا ہے؟، مگر جب میں دروازہ کھولتا تو اسے خالی کمرے کے علاوہ کچھ بھی نہ ملتا، اور واپس چلا جاتا”، میں نے حیرانی سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہوئی ، تو بابا جی بولے، ” میں جب چاہتا تھا آنکھیں بند کرتا ، ساز و آواز کو اپنے تصور میں سجاتا اور گانا شروع، مگر اس ساز و آواز کی آواز میرے گھر کے آنگن سے باہر چلی جاتی اور کبھی میرا والد اور کبھی کوئی محلے دار دروازہ کھٹکھٹاتا تو میرا تصور ٹوٹ جاتا اور آنے والے کو بھی شرمندہ جانا پڑتا”،بابا جی کی عجیب عجیب باتیں میرے لئیے حیرت انگیز ہوتیں مگر انکے ساتھ گفتگو کرنے میں نئی نئی باتوں کا انکشاف بھی ہوتا۔
ایک دن پچھلے پہر بابا جی تشریف لائے تو آتے ہی میرے جیب پر انکی نظر پڑی ، بولے یار الطاف یہ تمہارے جیب میں گھڑی والا پین بہت اچھا لگ رہا ہے ، اب مجھے فکر ہوئی کہ میں نے آج ہی یہ ڈیجیٹل گھڑی والا پین بڑے شوق سے خریدا ہے کہیں انہوں نے مانگ لیا تو ہو سکتا ہے واپس نہ دیں ، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا تو بابا جی بولے ، ” یہ پین تو دو ، دیکھوں کیسا لکھتا ہے ؟” ، اور یہ کہہ کر انہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا ، میں سوچنے لگ گیا کہ کیا کروں؟ اچانک بابا جی بولے ، “رین دے یار ، مینوں مل گیا اے” ، اور یہ دیکھ کر میری آنکیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ انکے ہاتھ میں ایک نیا گھڑی والا پین موجود تھا۔ "بابا جی ، یہ پین کہاں سے آیا؟ ” میں نے پوچھا، تو بولے” یار مجھے لگتا تھا کہ تیرا دل نہیں کر رہا تھا پین دینے کو ، تو میں نے نظر دوڑائی اور ایک دوکان کے کاونٹر پرشو کیس میں سجا ہوا تھا اور میں نے پکڑ لیا”،انکی بات کچھ میرے پلے نہ پڑی۔
ایک رات کو کھانا کھانے کے بعد مجھے طبعیت میں گرانی محسوس ہوئی تو قے کردی ، ایک دو بار قے کرنے کے بعد طبعیت بحال ہوگئی اور نیند آگئی، صبح سویرے ابھی اٹھا ہی تھا کہ بابا جی آ گئے اور آتے ہی بولے ، ” رات کیا کھا لیا تھا؟ میں مصلے پر بیٹھا تھا کہ دیکھا تیری طبعیت خراب ہے اور دو بار تیرے دروازے پر آیا کہ دیکھوں کیا حال ہے مگر پھر واپس چلا گیا، دیکھ کر کھایا کرو”، بابا جی کی پر اسرار باتیں میرے لئیے مقامِ حیرت بنتی جارہی تھیں۔
ایک روز بابا جی فرمانے لگے، یار میں آج صبح جب گھر واپس آرہا تھا تو راستے میں ایک لیموں کا درخت دیکھا اور اس سے دو عدد لیموں توڑ لئیے ، جب گھر کے پاس پہنچا تو دو تین لوگ کھڑے ہوئے تھے ، مجھے روک کر کہنے لگے ، ” باو ! اگر آج تیرے پاس سے دو لیموں نکل آئیں تو ہم تمھیں اللہ والا مان لیں گے”، ان لوگوں میں اس بات پر شرط بھی لگی ہوئی تھی، بابا جی نے دو عدد لیموں انکے سامنے پیش کر دئے جسے دیکھ کر وہ لوگ شرمندہ بھی ہوئے اور معافی بھی مانگی، میں نے پوچھا بابا جی آپ کو کیا پتہ تھا کہ کوئی آپ سے لیموں مانگ سکتا ہے تو مسکرائے اور بولے، ” ہر بات کا پتہ ہونا ضروری نہیں”۔
بابا جی سے میری ملاقات گوجرانوالہ میں ہوئی جب میں دوران تعلیم ، گریجویشن کے وقت، اپنے ننھیال میں کچھ دنوں کیلئے ٹھہرا ہوا تھا، بابا جی دیکھنے میں ایک نازک اور خوبصورت و جوان تھے ، عمر تقریباً چالیس برس کے قریب تھی، بالوں میں مانگ بنا کر رکھتے تھے ، اپنا چہرہ اور سر ایک رومال کی بکل میں چھپا کر رکھتے ، عزت سے میں انہیں بابا جی کہتا تھا البتہ لوگ انہیں “اللہ والا” کے لقب سے پکارتے تھے ، بابا جی کہا کرتے تھے ،” اس دنیا میں اگر بچ کے رہنا ہے تو کوئی علیحدہ روپ بنا کر نہ رہو بلکہ سب کے ساتھ بالوں میں مانگ نکال کر رہو”، مگر مجھے انکی باتوں کی سمجھ نہ آتی۔
ایک روز جب میں ڈ اکٹر یوسف مغل، آج کل انہیں بابائے ہومیوپیتھی کا خطاب بھی مل چکا ہے ، انکے کلینک پر بیٹھا گپ شپ لگا رہا تھا کہ بابا جی آ گئے اور بولے یار الطاف پڑھائی کا بھی خیال رکھا کرو، میں ان دنوں ہومیوپیتھی علاج سے بہت مانوس ہو چکا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس ڈاکٹری میں بھی داخلہ لے لوں۔ ڈاکٹر یوسف مغل صاحب کے کلینک پر جب لاعلاج امراض کے مایوس لوگوں کو صحت مند ہوتے دیکھا تو اس ڈاکٹری میں قدم رکھنے کی ٹھانی ، مگر بابا جی کو یہ پسند نہیں تھا ، انکے مطابق مجھے ابھی بہت آگے پڑھنا چاہئے تھا۔لہٰذا جب بھی میں یوسف کلینک پر ہوتا ، بابا جی اکثر وہاں پہنچ جاتے۔
ایک رات اچانک چکا چوند کر دینے والی روشنی جو میری آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہوتی ہے کہ نہ خواب ہے نہ خیال ہے، اس میں دیکھا کہ ایک محفل میں لوگوں کا جم غفیر ہے اور ایک بزرگ صورت روشن چہرہ میرا ہاتھ اپنے ہا تھ میں لے لیتے ہیں اور سنائی دیتا ہے کہ آپ ” علی ہجویری” ہیں ، اور اس کے بعد میں کسی بھی مقناطیسی قوت میں جکڑے ہوئے لوہے کیطرح لاہور کھینچا چلا آتا ہوں۔
بچپن سے "من کی لگی ہوئی دوڑ "لاہور میں آکر” ختم "ہوجاتی ہے مگر مجھے “اللہ والے” بابا جی سے لگاؤ تھا لہٰذا کبھی کبھی گوجرانوالہ جانا ہوتا ، بابا جی نے قبرستان کے قریب محلے میں گھر لے لیا تھا، بابا جی کے کہنے کے مطابق انکی بیوی ان سے بھی زیادہ "اللہ والی” تھی۔ ایک دن لاہور میں میرے دفتر بابا جی آ گئے اور بولے ” ودیا کم کیتا ای تعلیم دینا اک اچھا کم اے”، اب بابا جی کی باتیں عجیب نہ لگتی تھیں بلکہ بابا جی کے تصور کے ساتھ ساتھ میری توجہ بھی سفر کرتی،بابا جی کی آنکھوں کی تیز لو کا تعاقب کرنا اب مشکل نہ لگتا ، اس روز بابا جی کی من چاہت کے پیش نظر انکی ہر فرمائش کی خریداری کی ، دوپہر کھانا کھانے کا پوچھا تو بابا جی بولے یار بھٹی تکہ والے کے پاس چلو مجھے وہاں سے کھانا کھلاؤ، بابا جی کی ہر فرمائش میرے سر آنکھوں پر، دوپہر کا کھانا کھایا اور پھر دعائیں دے کر چلے گیے۔ اچانک ایک روز اطلاع ملی کہ بابا جی اور انکی بیوی دونوں کی یکے بعد دیگرے موت ہو گئی ، پہلے ایک کی اور ساتھ ہی دوسرے کی اور انکی زندگی آج تک میرے لئیے پر اسرار بنی رہی، بابا جی کا روزگار تو کوئی خاص نہ تھا کیونکہ لوگوں کے مسلوں مسائل میں الجھے رہتے تھے مگر انکی حالت کسی کو نظر نہیں آتی تھی ، خستہ حال کرائے کا گھر، اور صرف مشکل سے گزر بسر۔
آج کبھی کبھی انکی زندگی کو تجزیہ کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ بابا جی واقعی کمال آدمی تھے اور انہوں نے اپنی زندگی لوگوں کیلئے وقف کر رکھی تھی، ایسے بے فیض لوگوں کیلئے جو کسی ناچنے والی پر تو لاکھوں روپیہ لٹا دیتے ہیں اور اپنی عیاشی کی خاطر نوٹوں کی بوریاں لٹا دیتے ہیں مگر کسی انسانیت کے غمخوار کے طرف منہ کرکے دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ انکی ایک رات کی عیاشی اکثر کسی غریب و نادار کی ساری زندگی کے حاصل سے کہیں زیادہ اخراجات پر صرف ہوتی ہے۔ کتنے ہی بچے دربدر پھرتے مزدوری کرتے نظر آتے ہیں کہ انکی کمائی پر گھر کے اخراجات چلتے ہیں مگر ان عیاش لوگوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی جن کے پالتو جانور بھی ان غریبوں سے کہیں اچھا کھاتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں اس ملک کے ایک نامور لکھاری سے ملا جبکہ اس وقت انکو پزیرائی اور تعریف کے فون موصول ہو رہے تھے ، دوران گفتگو فرمانے لگے ” یہاں لکھنے والوں کی کوئی قدر نہیں ہے ، ہم سے تو ناچنے گانے والے والے اچھے ہیں ،کم از کم انکو سراہنے کے ساتھ ساتھ نوازا تو جاتا ہے، ہمیں اگر کسی سیمینار میں عزت سے بلایا بھی جاتا ہے تو واپسی پر صرف کتابیں گفٹ کردی جاتی ہیں کہ لدے رہو اور چلتے رہو!” .
FeedBack
[email protected]