غموں کا دیس
غموں کا دیس
روزنامہ جنگ مڈویک میگزین 12 مئی 2010
تحریر: بابرسلیم بھٹی نایاب
آج تیزی سے گھر کی طرف جاتے عروج ےہی سوچ کر خوشی محسوس کر رہی تھی کہ آج اُ س نے امی کے لیئے وہ دوائیں خرید لی جو بہت مہنگی ہونے کی وجہ سے کافی عرصے سے خرید نہیں پا رہی تھی مگر آج اپنی تنخواہ لیتے ہی پہلی فرصت میں امی کیلئے دوائیں خرید لیں ۔بس سٹاپ پر لگی بھیڑکو دیکھ کر عروج کو احساس ہوا آج مشکل سے ہی بس میں جگہ ملے گی، مگر خود کو حوصلہ دیتی بس کا انتظار کرنے لگ گئی ہمیشہ کی طرح دھکے کھاتے اُسے جگہ مل ہی گئی اور بس چل پڑی ۔لوگوں کی ہوس بھری نظریں عروج کو اپنے جسم میں پیوست ہوتی محسوس ہوئی مگر یہ تو روز کا معمول تھا اور اب تو عروج ایسی نگاہوں کی عادی ہو چکی تھی ۔شدید گرمی میں بس کا سفر کرنا گویا کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا، بس میں گرم ہوا کے تھپیڑے مسلل آ رہے تھے مگر لوگ اس گرمی سے بے نیاز ہو کر اپنی سوچوں اور خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔کو ئی کرایہ پر چیخ چیخ کر جھگڑا کررہا تھا ۔ایک عورت کا بچہ اس کی گود میں بےٹھا کب سے چیخے جا رہا تھا اوپر سے ڈرائیور نے اپنے مزاج کے مطابق دیسی قسم کا گانا لگا رکھا تھا جس کی آواز نے ماحول میں ہلچل مچائی ہوئی تھی ۔ ان تمام پل صراطوں سے گزرنا عروج کی لازوال ہمت تھی اور اس ہمت کے پیچھے اس کی چارپائی پر پڑی امی اور بہنوں کی پڑھائی اور گھر کے ہو شربا اخراجات پوشیدہ تھے ۔
پانچ بہنوں میں سب سے بڑی لاڈلی عروج اور معاشرتی بے حسی سے انجان عروج کو کیا معلوم تھاکہ و ہ بھی کبھی گھر کے نظام کو چلانے اور پیٹ کے دوزخ کو بجھانے کیلئے جاب کرے گئی جب طوفان آتا ہے تو کبھی دستک نہیں دیتا بلکہ چپکے سے آتا ہے اور پھر غم دے کر چلا جاتا ہے ۔ عروج کے ابو کے گزر جانے کے بعد جب فاقوں نے گھر میں ڈیرے جما لیے تو مجبورا عروج کو اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنا پڑا ۔ عروج کے ابو ایک سرکاری ملازم تھے جو سب بیٹیوں میں سے عروج کو بہت پیا ر کرتے تھے بس اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور سب کو چھوڑ کر چلے گئے ۔عفت ،مریم ۔نیلم اور نگہت سب چھوٹے تھے۔ جس کی وجہ سے عروج کو ہمت کرنا پڑی اور جاب کیلئے جگہ جگہ رُسوا ہونے کے بعد ایک پرائیویٹ کمپنی میں کمپیوٹر آپریٹر کی جاب مل گئی ۔ امی کافی عرصے سے بیمار رہتی تھی اور اُن کے لیے مہنگی مہنگی دوائیں لینا پڑتی تھی ۔اتنی طوفانی مہنگائی میں ایک چھوٹی سی جاب پر گزر بسر کرنا عروج کے لئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں تھا ۔عروج کا سٹاپ ا ٓ گےابس سے اُتر کر عروج اپنے گھر کی طرف چل پڑی اپنی گلی کے موڑ پر پہنچی تو دیکھا آج پھر آوارہ لڑکے کھڑے عروج کا انتظار کر رہے تھے ۔ان آوارے لڑکوں کو پتا تھا عروج کا کوئی بھا ئی نہیں ہے لہذا ایک عورت کی بے بسی اور کمزروی سے فا ئدہ اُٹھانے کا یہ نادر موقعہ یہ آوارہ لڑکے کیوں جانے دیتے ۔کہا ں رہی ہو ہمیں بھی ٹا ئیم دے دیا کرو قریب سے گزرتے ایک لڑکے نے یہ فقرہ کسا ،عروج کو لگا جیسے اُ س کا وجود غم و غصے کا لاوا بن گیا ہو مگر اپنی فطری شرافت کو اپنی شخصیت میں سمو ئے عروج اُ ن آوارہ لڑکوں کے گندگی سے بھرپورفقروں پر بھی خاموشی سے نظریں جھکائے ان کے پاس سے گزر کر گھر پہنچی تو ایک لمبا سانس لیا اور عروج کو محسوس ہوا وہ کسی آگ کے دریا کو عبور کر کے کسی پرسکون جگہ پر پہنچی ہے ۔ارے کیا ٹرین چھوٹے جا رہی تھی جو اتنی تیزی سے آئی ہو سب سے چھوٹی نگہت نے عروج کو آتے ہی مزاق سے کہا ۔نہیں تو بس گرمی کافی تھی نا تو اس وجہ سے قدم تیز ہو جاتے ہیں عروج نے جواب دیا اور ہاں امی کےسی ہیں اب ؟عروج نے پوچھا ۔ابھی تو ٹھیک ہیں بس صبح ہی طبعیت خراب تھی ۔نگہت نے جواب دیا ۔عروج امی کے کمرے کی طرف گئی باقی سب بہنیں امی کے کمرے میں ہی تھی ۔ امی جی کیسی ہو آپ ؟عر وج نے امی سے پوچھا او ر آج میں آپ کیلئے ڈاکٹر کی تجویز کردہ اچھی دوائی لی آئی ہوں بس اب آپ جلدی سے اب صحت یاب ہو جائیں گی ۔میں اب ٹھیک ہوں تو کیوں اتنی مہنگی دوائیں میرے لیے خریدتی ہو ،انہی پیسوں سے اپنے لئے بھی کچھ لے لیا کرو ،دن رات صرف تجھے میری اور اپنی بہنوں کی فکر ہوتی ہے ،کاش تمہارا کوئی بھائی ہوتا تو تجھے یوں اپنی جان کو ہلکان نہ کرنا پڑتا تجھے دن رات مشین کی طرح کام کرتا دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے امی کی آواز یہ کہتے کہتے بھرا گئی ۔میری زندگی کا مقصد اس آشیانہ کیلئے تگ و دو کرنا ہے ۔میری روح تک خوشی سے سرشار ہو جاتی ہے جب میری وجہ سے میری بہنوں کے ہونٹوں پہ مسکان اور آپ کے دل کو راحت پہنچتی ہے ۔عروج نے بڑے سنجےدہ لہجے میں کہا۔آپی آپ کیا آفس میں فلاسفی کی کلاس پڑھ کر آئی ہو ۔مریم نے ہنستے ہوئے کہا بس پھر چھوٹی نگہت کیوں رکتی اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے عروج کو کہا ۔آپی آپ جلدی سے شادی کر لو ورنہ ہم سب کو افلاطون بنا کر چھوڈوگئی ۔عروج کی امی سب بہنوں کی آپس میں نوک جھونک دیکھ کر کافی دیر تک محظوظ ہوتی رہی ۔پھر عروج کی امی سوچنے لگی کہ عروج کے ابو کی وفات کے بعد گھر میں کتنی اُداسی چھا گئی تھی اور زندگی کتنی کسمپرسی سے گزرنے لگی تھی ۔اگر عروج ہمت کر کے گھر سے باہر نہ نکلتی تو پتا نہیں کیا بنتا ۔عروج سب بہنوں میں سے کافی دلکش تھی جس کی وجہ سے عروج کا کئی بار رشتہ آچکا تھا ۔مگر عروج اپنی ضد کی پکی ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی امی کے شادی کے اصرار پر یہی کہتی تھی کہ پہلے اپنی بہنوں کی شادی کروں گئی اُس کے بعد اپنی کروں گئی۔اب عروج کی امی کیسے سمجھاتی کہ آجکل اچھے رشتے کہاں ملتے ہیں ۔رشتہ دار دو چار دن تعزیت کے بعد سب کو بے یارومددگار چھوڑ گئے پھر سگے رشتوں نے بھی خبر تک نہ لی ۔عورت جب گھر کے نظام کو چلانے اور پیٹ کے دوزخ کو بجھانے کے لےے گھر سے باہرنکلتی ہے تو قدم قدم پر معنی خیز جملے ،لوگوں اور رشتہ داروں کے طعنے اور لوگوں کی جن نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ عروج سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔کافی دیر بہنوں سے گپ شپ لگانے کے بعد عروج اپنے کمرے آرام کرنے چلی گئی ۔سونے کی کوشش کے باوجود نےند نہےں آئی تو عروج اپنے ابو کے بارے مےں سوچنے لگی کہ ابو کتنے خوش اخلاق اور کتنے رحمدل تھے ۔کسی کی پریشانی کو دیکھ کر افسردہ ہو جاتے تھے ۔اپنے رشتہ داروں کی ہر خوشی و غم میں بھرپور ساتھ دیا تھا مگر جب ابو گزر گئے تو کسی نے پوچھا تک نہیں ۔عروج نے اپنے گھر کی ڈگمگاتی کشتی کو طوفان کی لہروں سے تو بچا لیا تھا مگر مستقبل کے اندیشے ہر وقت عروج کے ذہن پر طاری رہتے تھے ۔چار بہنوں کی شادی جیسی ذمہ داری بھی تو عروج کے ناتواں کندھوں پر تھی ۔مگر جب لگن سچی ہو اور ارادے میں پختگی ہوتو مشکل سے مشکل کام بھی تکمیل کی سرحدوں کو چھو لیتا ہے ۔عروج نے پارٹ ٹائم ایک اور جاب کر لی دن رات محنت کرنے لگی عروج کی امی نے عروج کو کہا خدارا اپنے بارے میں بھی سوچوں اسطرح کام کرنے سے تمہاری صحت خراب ہو جائے گئی مگر عروج نے جوعزم بنا رکھا تھا وہ اتنی جلدی ہمت ہارنے والا نہیں تھا ۔ایک دن عروج کے چچا آئے تو امی نے خاطر مدارت میں کوئی کسر نہ چھوڈی انھوں نے جب گھر کی حالت دےکھی تو اپنی سنگین
غلطی کا احساس ہوا کہ انھوں نے اپنے بھائی کے گھر کو اکیلا چھوڈ دیا اپنی غلطی کے ازالے کے لئے انھوں نے اپنے بیٹے فرقان کے لئے عفت کا رشتہ مانگ لیا امی کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور انھوں نے فورا ہامی بھر لی ۔عفت کی شادی بہت خوش اسلوبی سے ہو گئی تمام رشتہ داروں کو دعوت دی گئی اور گھر میں پہلی بار کسی خوشی نے قدم رکھا عروج تو خوشی سے نہال تھی کچھ ہی عرصے بعد مریم،نیلم اور نگہت کی بھی شادی قریبی عزیزوں میں ہو گئی اب گھر میں صرف عروج اور امی رہ گئی ۔عروج نے طویل عرصے بعد اپنے سراپے کو آئینے میں دیکھا تو وہ شوخ ،چنچل اور خوبصورت عروج کی بجائے ایک عمر رسیدہ خاتون کو دیکھا جس کی خوبصورت گھنی زلفوں میں غموں اور پریشانیوں سے نبرد آزما ہوتے ہوتے سفیدی آ گئی تھی ۔عروج نے اپنی تمام تر خوشیوں اور خاہشوں کو اپنے خوبصورت دل میں دبا کر قربانی کی عظیم داستان رقم کی تھی ۔امی نے عروج کو کہا کہ اب تو شادی کر لے اب تو تم ذمہ داریوں سے آزاد ہو گئی ہو مگر عروج اب امی کو کیسے سمجھاتی کہ اب تو جوانی ڈھل چکی ہے اب تو خوبصورت ازواجی زندگی کی بہار ماضی کے دھندلکوں میں ایک حسین خواب بن کر کھو گئی ہے ۔مگر ایک اطمینان بخش مسکراہٹ عروج کے ہونٹوں پر نما یا ں تھی ۔اپنی بہنو ں کی زندگی بنا کر عروج کو جو سکون ملا تھا اُ س کا تصور بھی ممکن نہیں تھا اب عروج اسی سکون کے سائے تلے اپنی باقی ماندہ زندگی گزارنے کا عزم کرنے لگی ۔۔