ع عشق کیا میں بن بن کھڑیاں دودھ تھیں پلیاں پلیاں
وہ مسکرا کر بولی ” ایسے مت کہو، تجھے محبت کی وادیوں تک لے جا رہی ہوں“، ”انسانوں میں بسنے والی محبت نے اپنی ناقدری کے باعث زمین سے دور اپنا ایک علیحدہ گلستان بسا رکھا ہے، جہاں پیار کے پنچھی اپنی اپنی میٹھی دھن میں نغمے گاتے ہیں، جہاں الفت کی گھنی چھاوں میں وصل اپنی شامیں بھول جاتی ہے، جہاں خوشیوں کی تتلیاں مروت کی پھولوں پر چہکتی ہیں ، جہاں نفرت کے کانٹوں کی کوئی جگہ نہیں“،
زندگی میں پہلی بار ایک ندا ئے غیبی سے شناسا ہوا تو حیرت کی انتہا نہ رہی ، دریا کنارے پانی کی چھنکار سن رہا تھا کہ اچانک ایک نسوانی آواز سنائی دی، اِدھر ادھر دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا، پھر ایک مدھر دھن جیسی کھنک محسوس ہوئی تو اچنبھے سے ہر طرف نظر دوڑائی مگر کچھ دکھائی نہ دیا۔ اس بار خوف اور حیرانی جیسے ملے جلتے تاثرات تھے، مگر میں پانی سے پاوں باہر نکال کر اٹھ کھڑا ہوا کہ دیکھوں یہ دل کے تار چھیڑنے والی آواز کہاں سے آرہی ہے، مگر لاحاصل، دور دور تک کوئی نظر نہ آیا تو سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ایسے ہی کچھ گماں ہوگا، ورنہ کوئی دکھائی تو دیتا۔
جب دوسرے روز اسی مقام پر دریا کنارے موجوں کی اٹھان دیکھ رہا تھا کہ پھر وہ سہانی آواز سنائی دی مگر اس بار خوف و حیرت کی بجائے تلاش شروع ہوئی کہ آخر یہ آواز کس کی ہے؟ یہ میٹھی اور دلربا نسوانی آواز اتنی صاف سنائی دے رہی تھی کہ جیسے کوئی بہت قریب موجود ہو مگر نظر کوئی نہیں آرہا تھا۔ آخر ہمت کرکے پوچھا کون ہو؟ تو جوب ملا “پیار” ، مگر نظر کیوں نہیں آتی” تو جوب ملا”پری زاد“ ہوں اس بے چین کر دینے والی آواز کی کھنک اب اور بھی سریلی ہو گئی تھی۔ پوچھا ، کس کا پیار ہو؟”تو جواب ملا صدیوں کی پیاسی تھی مگر تیری قربت پا کر تشنہ ہوئی اور لب آزاد ہوگئے کہ اظہار کر دوں۔“
اس ان دیکھے پیار کی صدا سے الفت بندھ گئی اور روزانہ کالج سے آتے ہی کھانا کھاتا اور دریا کنارے کی راہ باندھ لیتا اور اس غیبی آواز سے جب تک بات نہ ہوجاتی چین نہ آتا، نہ جانے اس میں کونسا جادو تھا کہ مجھے الجھا کہ رکھ دیا، رفتہ رفتہ جب شناسائی بڑھی تو اک شام کی گھنی چھاوں میں جب سورج کی کرنیں پانی پر تیرنے لگیں کہ بس اب دن ڈھل چکا تو اسے کہا کہ اب رہا نہیں جاتا ، اپنا جلوہ دکھا دو؟ تو جواب ملا ” جدا نہ کر پاو گے” ، آہ واقعی آج تک جدائی کا قلق رہتا ہے کہ وہ میری روح و قلب تک اتر چکی تھی !!!
ایک روز صبح سویرے جب دریا کنارے جو گنگ کرتے ہوئے اسی مقام سے گزرا تو لگا جیسے کوئی ساتھ ساتھ چل رہا ہے ، مگر یہ سوچ کر ہنسی آئی کہ اس وقت پربھی شام کی پر چھائیاں پڑ چکیں ، کیا سماعت کی ساتھ ساتھ بصارت پر بھی “پیار” کی مہر لگ چکی؟ اور اس روز کالج سے چھٹی کر لی، وقت تھا کہ گزر نہ رہا تھا ، بڑی مشکل سے پچھلا پہر آیا تو “پیار” کی پیاس میں دریا کنارے پہنچ گیا اور “مقامِ یار” پہ رک کر پانی کی موج مستی بھری لہروں پر نظر ٹکا دی،اک شگفتہ باد صبا محو رقص تھی جبکہ کہیں دور پرندوں کی چہچہاہٹ نے بھی نئی دھن اور موسیقی کا ساماں پیدا کر دیا تھا، مگر اس خوبصورت منظر و سماں میں اگر کمی تھی تو اس آواز کی کہ جس کی مدھر دھن سننے کو ہر کام چھوڑ کر اس “مقامِ یار” کی راہ لیتا۔ انتظار کرنا محال تھا کہ اک کھنک سنائی دی ” آج رات دیدار کی رات ہوگی….“
واقعی آج کی رات دیدار کی رات ہوگی؟ مجھے اپنی سماعت پر شک ہونے لگا اور والہانہ انداز میں پوچھا ، تو جواب میں ایک مہکتا خوشبو کا جھونکا میری سانسوں کو گرماتا ہوا اور باد صبا کی لے پر تھرکتا تھرکتا دریا کی مست موجوں کا ہمراہی ہو گیا۔ ایک ہلکی سی سرگوشی میں جواب ملا” ہاں ، آج کی رات دیدار کی رات ہوگی” ، اس مدھر آواز نے، جو ابھی کسی نام اور رشتے کی ڈوری سے نہ بندھی تھی ، مجھے چونکا دیا۔ اک انجانی خوشی کے احساس سے میرے خوابوں کا آنگن لبریز ہوگیا۔
وقت تو جیسے تھم گیا تھا اور ایک ایک پل گھنٹوں پر بھاری لگ رہا تھا، ابھی تو شام نہیں ہوئی رات کب ہوگی؟ انہی سوچوں میں مگن تھا کہ اچانک اک سرگوشی نے چونکا دیا ”کیا میرا انتظار کرو گے؟“ کیوں نہیں! اسے کیا بتلاتا کہ انتظار کی کشتی پر تو کب کا سوار ہو چکا تھا ”ضرور کروں گا۔“ پھر ایک خاموشی سی چھا گئی ایک طویل وقفے کے بعد میں گویا ہوا ”چلتا ہوں“ آج کی شام بہت بوجھل ہے ، پل پل بھاری ہو گیا ہے ، اب مجھے چلنا چاہیے ، اور اس طرح شام سے پہلے ہی گھر کی راہ لی۔
رات کے کھانے پر بے چین طبعیت نے سیر ہوکر کھانے بھی نہ دیا جبکہ نیند تو کوسوں دور بھاگ چکی تھی اور ہر آہٹ پر آنکھ کھول کر بے تاب نظریں نظارہ جاناں کیلئے تڑپ جاتیں، البتہ بے قرار قلب کو پہلی بار انتظار کی لذت کا احساس ہوا اور دھڑکن تھی کہ بے قابو ہوئی جارہی تھی۔ رات کا پہلا پہر ہوا جبکہ اس نئی کیفیت سے پہلی بار شناسائی ہوئی اور بے قراری کے عالم میں بستر چھوڑ کر کمرے کا دروازہ کھولا اور صحن میں آ گیا، گھر کے آنگن کو موتیا ، گلاب اور رات کی رانی نے مہکا یا ہوا تھا اور کھلے آسمان پر چاند اپنی پوری آب و تاب سے دمک رہا تھا۔
انتظار کی گھڑیاں طویل ہوا چاہ رہی تھیں مگر نہ کوئی صبا اور نہ کوئی سرگوشی ، یہ کیسا امتحان ہے؟ وقت پر لگا کر اڑ کیوں نہیں جاتا؟ وہ کب آئے گی؟ رات تو بیتی جارہی ہے ، دیدار کب ہوگا؟ نہ جانے کس کس طرح خدشات پانی پر کسی بلبلے کی طرح ظاہر ہوتے اور خود ہی دم توڑ جاتے ، اگر ایک طرف فضا میں چاندنی نے اک جال سا تان رکھا تھا تو دوسری طرف خشبو کے جھونکے مجھے نیند کی وادیوں کیطرف دھکیل رہے تھے۔ آخر نیند نے آ لیا اور شب کے بیتنے کا ملال ہونا شروع ہو گیا ، کیا اس نے دھوکا دیا؟ اگر نہیں آنا تھا تو مجھے کیوں کہا تھا ” آج کی رات دیدار کی رات ہے؟” ، انہی سوچوں میں گم مایوسی سے اداسی کا رخت سفر باندھا ؛
ع اے چاند ڈوب جا کہ طبعیت اداس ہے
آخر اس انتظار کی طوالت کو راہ میں چھوڑ کر نیند کے جھونکوں کی ہمراہی کی اور بستر پر دراز ہو گیا کہ ” اب وہ نہیں آئے گی”، ابھی سوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ تقریباً رات اڑھائی بجے اچانک آنکھ کھل گئی، حیرت ہوئی کہ اتنی گہری نیند بھک سے کیسے اڑ گئی؟ اندھیرے کمرے میں اک روشنی کا احساس ہوا، اور آنکھیں ملتا ہو ا بستر پر بیٹھ گیا۔اچانک جیسے اک بجلی سی کوند گئی ہو اور اک روشن ، حسن و جمال کا پیکر چہرہ آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا ، اس حسن کی تمازت نا قابل برداشت لگ رہی تھی ، ہمت کرکے پوچھا کون ہو؟ تو صرف اک مسکراہٹ نے مجھے مبہوت کر دیا، “خود ہی بلاتے ہو اور خود ہی پہچانتے نہیں؟” بے تکلف سا جواب ملا، اہ ، یہ تو ہی آواز ہے جس نے میری زندگی کو محو رقص کر رکھا ہے، اور والہانہ انداز میں گویا ہوا، ”تم وہی ہو جو ہر شام کو میرے ساتھ ہوتی ہو؟ ” ہاں ” میں ”وہی ہوں“، ”تیری شاموں کی گہنانے والی ، تیرے دل میں اترنے والے لب لہجے کی دیوانی ، تیری گہری آنکھوں کی مستی کے اس پار جانے کی تمنا رکھنے والی “، میں گم سم حیرت کے سمندر میں ڈوبا سن رہا تھا اور اس حسن کے پیکر کے سامنے قوت گویائی جیسے جواب دی گئی تھی، اس مدھر آواز کا جادو تو پہلے سے ہی مجھے غلام کر چکا تھا اور اس جلوے نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی کہ زبان گنگ سی ہو گئی۔
وصل کی ہوائیں چلنے لگیں اور الفتوں نے سارے جام انڈیل دیئے، دھڑکنیں تھمنے لگیں ، دنیا و مافیہا سے بیگانگی نے باہیں پھیلا دیں اور قربتوں کی گھٹائیں برسنے لگیں، سانسیں خوشبو سے معطر ہوگئیں ، مگر کیا ہوا؟ ہم کہاں ہیں ؟ حواس کو بحال کرکے دیکھا تو پاوں کے نیچے زمین نظر نہ آئی، نہ خواب تھا نہ خیال تھا، فضاؤں میں معلق کسی نئی دنیا کی آغوش میں محو سفر….
یہ ماجرا کیا ہو گیا؟ یہ میں کہاں آ گیا؟ نہ ہی زمیں یہ اور نہ آسماں ہے ؟ وصل کے گہرے سمند ر میں ڈوب کر اگر ایک طرف وقت گزرنے کا احساس دم توڑ چکا تھا تو دوسری طرف الفت کی وادیوں میں محو پرواز تھا ، جبکہ قربت اپنی تمام تر رعنائیاں نچھاور کر رہی تھی۔ زمیں کی گرفت سے آزاد فضاؤں میں محو پرواز ، کبھی خوف کے سائے اور کبھی حیرت کا سماں بندھ رہا تھا کہ میری سوچوں کا تسلسل اس آواز پہ ٹوٹا ” کہاں کھو گئے ہو؟“ ،”اک پری زاد کے محبوب ہو ، فضائیں اب تیرے قدموں کی دھول ہوں گی“، واقعی جس بات کا نظارہ ہو رہا تھا کہ اس میں کوئی شک والی بات نہ رہی۔
کیا مجھے اپنی طاقت دکھا رہی ہو ؟ میں نے پوچھا ، تو مسکرا کر بولی ” ایسے مت کہو، تجھے محبت کی وادیوں تک لے جا رہی ہوں“، ”انسانوں میں بسنے والی محبت نے اپنی ناقدری کے باعث زمین سے دور اپنا ایک علیحدہ گلستان بسا رکھا ہے، جہاں پیار کے پنچھی اپنی اپنی میٹھی دھن میں نغمے گاتے ہیں، جہاں الفت کی گھنی چھاوں میں وصل اپنی شامیں بھول جاتی ہے، جہاں خوشیوں کی تتلیاں مروت کی پھولوں پر چہکتی ہیں ، جہاں نفرت کے کانٹوں کی کوئی جگہ نہیں“، ”ان وادیوں کی ملکہ پاکیزگی کے جڑے موتیوں کا تاج سجائے جب لذت لاثانی کے تخت پر براجمان ہوتی ہے تو کبھی آفتاب اور کبھی مہتاب اپنی تمام رعنائیوں کو اسکے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں۔“
میں مدتوں سے ان وادیوں کی دیوانی ہوں ، پہلی بار جب ان سے شناسا ہوئی تو بسیرا کر لیا ، مگر اک روز زمین کا رخت سفر باندھا جب آکاش پر گھنگور گھٹا چھائی ہوئی تھی، رم جھم ہوا چاہتی تھی، قدرت کے لازوال نظاروں میں کھوئی ہوئی اک دریا کنارے کسی کو تن تنہا پانی میں پاوں ڈالے موج مستی کے سمندر میں غرق دیکھا تو جھٹ فضاؤں کو پھلا ندا اور وہاں جا پہنچی، دیکھا کہ اک دریا باہر بہہ رہا ہے اور ایک جھیل سی گہری آنکھوں کے پیچھے ٹھاٹھیں مار رہا ہے، اس کے پاس سے گزرتے پانی کا نغمہ تو میں نے محبت کی وادیوں میں سنا تھا ، اور یہاں کا منظر بھی وہی تھا ، حیرت ہوئی اور سکوت کیا اور جب تم اپنی محویت کی کشتی میں سوار تھے تو انتظار کیا ، چند روز کی قربت نے محبت کی وادی بھلا دی تو تیرے غلامی کے سوا چارہ نہ ہوا، بہت مجبور ہوئی تو مخاطب کیا اور اب کہ جدائی کا تصور محال ہے۔“
”آج میں محبت کے گلستاں کو تجھ سے شناسائی کرانا چاہتی ہوں کہ ابھی بھی انسانوں کی بستی میں نم ہے، اے میرے محبوب تیری قربت کے لمحات میری زندگی کا حاصل ہیں اور تیرے ساتھ گزرتے لمحے میری روح تک کو سیراب کئے ہوئے ہیں۔“
باتوں باتوں میں مجھے اس پری زاد نے محبت کی وادیوں کی سیر کروائی اور جب ”عشق“کے چشمے پر پہنچے تو دونوں نے خوب سیر ہو کر پیاس بجھائی اور اس وادی کے پاس ”شوق“ کے ٹیلے کی طرف محو پرواز ہوئے، پری زاد نے بہت کوشش کی مگر ”شوق“ کی بلندی سے عاجز ہوکر ہمت ہار دی اور واپسی کا ارادہ کیا، جب میں گھر پہنچا تو ابھی رات جواں تھی، حیرت ہوئی کہ اتنا سفر کیا مگر وقت جیسے رک گیا؟ پری زاد نے اجازت مانگی اور نظروں سے او جھل ہو گیا۔
حیرت کے سمندر میں غرق کہ یہ ہوگیا، زمین و آسمان اب دو قدم کے فاصلے پہ آ گئے اور ایک سلسلہ پھر کچھ ہوں چل پڑا کہ کبھی آدھی رات کو اور کبھی رات کے آخری پہر زمین و آسمان میں ہم اپنی قربتیں بانٹنے لگے، جبکہ معمولات زندگی میں بھی تبدیلی آنے لگی، اب کالج جانے میں اور پڑھنے میں دل نہ لگتا تھا ، دن تھا کہ گزارنا مشکل تھا ، پچھلے پہر دریا کنارے پانی کی مچلتی موجوں کا نظارہ کرنا اور دیدہ دل وا کرکے قدرت کے شہکار مناظر کی دلربائی میں کھویا رہنا،جبکہ پچھلی رات کو پیار کی رعنائیاں سمیٹنا ایک معمول بن گیا، حالانکہ معمولات میں کالج کی پڑھائی،کرکٹ کھیل کود، لائبریری، رات کو کلب میں بیڈ منٹن وغیرہ شامل تھے جو کہ اب بالکل سراب بن کر رہ گئے تھے کیونکہ زندگی کے اس نئے رنگ نے باقی سب رنگ ڈھنگ بدل کے رکھ دیئے۔
زندگی پیار کے نغموں سے لبریز ہوئی تو ہر آواز سماعت کو مہکانے لگی، درختوں پر بیٹھے پنچھی ، پتوں سے لدی شاخیں ، پانی پہ اٹھتی موجیں ، گھاس پر شبنمی موتی دلربائی کا شہکار نظر آنے لگے، آہ و قاہ مسرتوں سے شناسا ہوئے جبکہ ہر طرف بہار کا دور و دورہ تھا کہ اِک روز رات گزر گئی مگر پری زاد نہ آیا، وہ صیاد نہ آیا….
آخر کیا بات ہے ؟ نہ جانے آج کی رات “دیدارِیار”سے دوری کیوں ہوئی ، ملال بھی اور انتظار بھی، اس گوں مگوں کیفیت نے دن بھر بے چین کئے رکھا،پچھلے پہر پھر دریا کی راہ لی تو سڑک کنارے پراگندہ بال دمکتا چہرہ ایک نوجوان محو رقص نظر آیا ،میں نے اس کے رقص میں عجب محویت دیکھی وہ کسی انجانے سرور میں مگن لوگوں سے بے پرواہ اپنے ہی اندر ڈوبا ہوا جھوم رہا تھا۔میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کے پوچھا ،دیوانہ لگتا ہے؟تو وہ آنکھیں کھول کر مسکرایا اور بولا ”کیا تو اپنے محبوب کے تصور میں محو رقص نہیں؟“ اس کائنات میں کون محو رقص نہیں ہے ؟
واقعی یہ رقص و ارتعاش واقعی ہماری زندگی کی بقا ہے۔اگر زمین اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے تو چاند زمین کے گرد اور دونوں سورج کے گر د گھوم رہے ہیں، جبکہ سورج اور دیگر ستاروں کے جھرمٹ میں محو ارتعاش ہیں۔اس کائنات کا ذرہ ذرہ محو رقص ہے جبکہ ریاضی اور طبعیات کے قوانین تو قوانین حرکت ہیں ؛ ایٹم کے اندر الیکٹران نیوکلیئس کے گرد اور ان سب کو محبت کی طاقت نے باند ھ رکھا ہے۔تمام قوتیں ، اجسام اور توانائیاں جبکہ زندگی خود بھی ارتعاشی عمل کی سرگرمی اور فعالیت ہے۔یہ ارتعاشی عمل اپنے بنیادی اور انتہائی درجہ پر سیاروں ،ستاروں ،نظام شمسی ، برقی ، آسمانی و علوی، حرارتی ، صوتی اور رنگ کی دنیا میں جاری و ساری ہے جبکہ ذہن بھی اس ارتعاشی عمل سے خارج ا ز امکان نہیں جس کے باعث انسانی زندگی کا جذبات، جاذب و طلسمی ،تصوراتی پہلو کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔
انہی خیالات میں ڈوبا ہوا میں دریا کنارے پہنچا اور موج مستی میں اٹکھیلیاں کرتی پانی کی موجوں کا رقص دیکھنے لگا، ایک تو آج طبعیت اداس تھی دوسرا رات کا فراق بھی مدتوں کی دوری کی طرح ڈس رہا تھا۔ دریا کنارے گھاس کے مخملی قالین پر بیٹھا انتظار میں ڈوبا ہوا تھا مگر ابھی تک کوئی بھی صدا سنائی نہ دی ، نہ ہی فضا میں صبا کا رقص دیکھنے کا ملا، اس عالم میں دیدہ دل وا کیا اور تصورِ جاناں میں کھو گیا؛
دل کے آئینہ میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
ابھی چند ہی لمحے گزرے تھے کہ من کو چھونے والی آواز سنائی دی ” ناراض ہو کیا؟” تو جھٹ سے آنکھیں کھول دیں، وصال کے ایک جھونکے نے انگڑائی لی اور میرے لبوں سے چھوتا دریا برد ہو گیا، ”کہاں رہ گئی تھی میری راتوں کی نیند چرانے والی؟“ میں نے پوچھا ، تو جواب ملا ” تیری رات تجھے لوٹانے کی خاطر نہ آئی، مت پوچھ کہ کس کرب سے گزری ہوں اس رات ، دوری کا تو اب تصور بھی محال ہے“، ”تیری الفت کے راہ میں سب کچھ بھول چکی، زندگی کے پھول نے جب محبت کی زمین سے جنم لیا تو اسکی مہک بقا کا پیغام لیکر ہر سو پھیل گئی جبکہ کائنات کا ذرہ ذرہ نہ صرف مامور ہوا بلکہ محو رقص ہو گیا۔پھولوں میں خوشبو، پھلوں میں رس، موسم میں انگڑائی، ہواوں کی اٹکھیلیاں ،زمین میں جاری چشمے اور سبزہ، آسمانوں پہ بادل اور چہروں پہ انجان مسرت محبت کی مرہون منت ہے“، ”محبت کا ہی اعجاز ہے کہ ہر طرف سے محسور کن نظارہ محبوب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ خوابوں و خیالوں میں بسنے والا تصور کبھی فضاؤں میں نظر آتا ہے اور پھر کبھی اس کے تصور سے لذت بند جاتی ہے جبکہ اس تجربہ زندگی کا بھی عجب سماں ہے ، وصل ہو کہ فراق دونوں میں لذت آتی ہے۔“
واقعی! میں نے اسکی بات کے اثبات میں سر ہلا دیا، اور گویا ہوا” جب کوئی انسان جذبہء محبت کی لذت سرشار رہتا ہے تو یہی اسکی زندگی کا موسم بہار ہے، یہ سماں بھی کتنا دلربا ہے کہ لمحاتِ زندگی مسرتوں سے لبریز ہوجاتے ہیں اور لذت کا چشمہ قلب سے جاری ہو جاتا ہے جسکا ادراک صرف اور صرف اس تجربہ سے گزرنے والوں کو ہو سکتا ہے۔ہر آواز موسیقی کی طرح پرد ہ سماعت پر وارد ہوتی ہے،زندگی اٹھکھیلیاں کرتی نظر آتی ہے ،خوشبو کی طرح فضاؤں میں بکھر جانے کو جی چاہتا ہے جبکہ آہ و تاہ بھی لذت سے معمور ہوتے ہیں۔“
انہی باتوں میں شام نے ہمیں اپنی آغوش میں لینے کیلئے باہیں پھیلا دیں ، خورشید نے پہاڑوں کے دامن میں چھپنا شروع کر دیا، دریا میں موجوں کی اٹھان ماند پڑنے لگی ، درختوں کے سائے لمبے ہونے لگے اور پرندوں نے بھی اپنے گھونسلوں کا رخ کیا ، دریا کے پار دن کی سپیدی نے شام کے اندھیرے کا استقبال کیا، اور دن تھا ڈوبا ہی چاہتا تھا مگر ہمارے پیار کی ترنگ اپنے جوبن پرتھی جہاں ایک پل کی دوری بھی ناگن کیطرح ڈسنے لگتی تھی۔
ہر دوپہر ، شام کی گود میں اپنا سر رکھ کر رات کا انتظار کرتی اور ہر رات اپنا چہرہ میرے محبوب کے چہرے کے پیچھے چھپائے گزر جاتی ، وقت جست لگا کر ہماری قربتوں کے ہمراہ اڑنے لگا ، اگر دوپہر وصال کی چھاوں میں گزرتی تو رات قربتوں کی مہک سے لبریز ہوتی جبکہ زمین و آسماں ہمارے لئیے دو قدم کی مسافت پہ آ گئے۔ ہر رات پری زاد مجھے اپنی آغوش میں لئیے آسمانوں میں محو پرواز ہوتا ، جبکہ صبح تکان کی باعث آرام البتہ کالج و پڑھائی کا سلسلہ تقریباً منقطع ہونا شروع ہو گیا اور کھیل کود سے بھی بیزاری محسوس ہونے لگی ، ہر رات اک نئی دنیا دریافت ہوتی اور ہر صبح اک نئے انتظار سے ہمکنار ہوتا۔ محبت کے تمام رنگ جلوہ افروز ہوئے ، اگر ہوائیں شادمانی کے راگ جپتیں تو فضائیں محبت کے نغمے گاتیں اور بہتا پانی الفت کی پرچھائیوں میں مچلتا ، لہلہاتا کسی مست ناگن کیطرح جھومتا جاتا اور اس پر جھکی شاخوں کے پتے پانی کو بوسے دیتے تو بادلوں کی اوٹ سے خورشید اپنی کرنیں نچھاور کرتا۔ دریائے جہلم سے جدا ہوتی نہر
میرے گھر کے پاس سے گزرتی تھی اور اسکے کنارے گھنٹوں بیٹھے سرد اور گنگناتے پانی پہ نظر ڈالو تو مجھے صرف اپنے محبوب کی جھلک دکھائی دیتی۔ یہ نہر کچھ فاصلہ طے کر کے ایک دوسری نہر میں مدغم ہو جاتی جبکہ دونوں نہروں کا سنگم رفتہ رفتہ سفر طے کرکے ”کھڑی شریف“ میں میاں محمد بخش صاحب کی چوکھٹ پہ بوسے دیتا گزر جاتا۔
جس دل اندر عشق سمانا ہو تے اوس نی فر جانا
بڑے سونے ملن ہزاراں اساں نی او یار وٹانا
عشق کیا میں بن بن کھڑیاں دودھ تھیں پلیاں پلیاں
ماھی بابل پٹ پٹ تھکے تے واہاں مول نا چلیاں
اک رات پری زاد مجھے کہنے لگا ، “کیا تجھے معلوم ہے کہ انسان چاہے تو کسی کی مدد کے بغیر زمین و آسمان دو قدم کر سکتا ہے” ، میں نے حیرت سے پوچھا کیسے ، تو گویا ہوا ، ”اس کائنات کی تمام مخلوقات کی طاقت انسان کی قوتوں کے سامنے ہیچ ہیں ، مگر جب وہ اپنی اصلیت کو پا لیتا ہے ” ، مجھے کچھ بات سمجھ نہ آئی تو پوچھا ” کہنا کیا چاہتے ہو؟”، تو مسکرا کر گویا ہوا ” تم میرے بغیر بھی فضاؤں اور ہواؤں کی ہمراہی کر سکتے ہو ” ، وہ کیسے ، میں نے فوراً حیرت سے پوچھا ، تو کہنے لگا ” انسان جب رات کو سو جاتا ہے تو اسکی لطافت،روح اپنی کثافت،جسم کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور جاگنے پر دوبارہ پھر آ موجود ہوتی ہے“ اس بات نے مجھے حیرت کے سمندر میں گم کر دیا۔
“اب تم اپنی طاقت سے میرے ہمراہی بنو گے “، اور یہ کہہ کر اس نے مجھے اک نئے تجربے سے گزرنے پر مجبور کر دیا ، ” مگر میں کیسے یہ سب کچھ کر سکتا ہوں ؟” میں نے پوچھا تو پری زاد پھر مسکرا کر بولا ”آنکھیں بند کرکے دیدہ دل وا کرو اور مجھے تلاش کرو“ میں کسی بچے کیطرح ہر حکم مان رہا تھا ، ”جب کھلی آنکھوں تم میرے پاس ہو تو آنکھیں بند کیوں کروں؟” ، تو گویا ہوا ، جو کہا ہے اس پر عمل کرو، میں آنکھیں بند کرکے ”تصور جاناں“ میں کھو گیا ، اچانک کمر میں اک حرارت سی اٹھی اور ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ ساتھ سفر کرتی کندھوں کے درمیان گردن تک جا پہنچی اور پھر ایسے محسوس ہوا کہ ایک طوفانی شور ہے اور خوف کے مارے ماتھے پر پسینہ سا آگیا ، اچانک ایک جھٹکے سے میں اٹھ کھڑا ہوا، میں اپنے جسم سے جدا ہو چکا تھا اب مجھے سب کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ پری زاد میرے پاس کھڑے انتظار کر رہا تھا ، گویا ہوا ” آو چلیں ” مگر کیسے ، تو بولا ”صرف سوچو تو وہاں جا پہنچیں گے، اب دنیائیں تیرے اک تصور اور سوچ کے فاصلے پر آگیں ہیں” اور واقعی جہاں چاہ وہاں راہ۔ اس رات اگر نئی دنیائیں دریافت کیں تو اسی رات میرے محبوب نے اپنی اداؤں کی چادر سمیٹ لی ، مجھے نئی دنیا ئیں دکھا کر چلا گیا۔
اس موسم بہار کی رتیں اچانک بدل گیں ، پیار کا لیل و نہار نقطہ عروج پر تھا کہ وہ صیاد فراق کی سولی پر لٹکا کر اور نئی راہیں دکھا کر چلا گیا ، ہر دن کاٹنے کو دوڑتا تو رات ڈسنے کو تیار ہوتی اگر دیدہ دل وا کرتا تو ہواؤں کا ہمراہی ہوتا، کیا زمین و آسمان وسعتوں نے اسے سمیٹ لیا یا پھر مجھے بھول چکا ؟ اسکے فراق کا عالم تھا اور تنہائی تھی ، اس نے میرے من کی دنیا جو جوت جگائی تھی اسکی وسعتوں کو ماپنا ناممکن لگتا ، چاندنی کے جمال میں کھوئی موجیں اب طوفان بن کر کناروں سے سر ٹکرانے لگیں ، اور پیار کی شمع سلگتے ہوئے موتیوں کی مالائیں جپنے لگیں۔
تے پاٹی لیر پرانی وانگوں ٹنگ گیاں وچ ککراں
جناں تنا عشق سمانا ہو تے رونا کم اناں
فراق کی وادیاں اب میری قربت کی ہمراز ہوئیں اور زندگی نے موسم خزاں کی راہ تکنی شروع کردی ، آہ و واہ مسرتوں سے نا آشا ہوئے اور ہجر کی تنی دھوپ اب سائے کو ترسنے لگی ، درختوں پر پتے اب اپنا چہرہ زردی میں چھپانے لگے اور دریا کی گھاٹیا ں اب پانی کی بوندوں کو ترسنے لگیں ،موجوں کی جگہ اب ریت کے ننگے ٹیلوں نے لے لی اور ہواؤں کے دوش محو رقص ہونے لگے۔
اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے
اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے
ایک پری زاد اور ایک انسان ، کیا یہ محبت کی راہوں کے ہمراہی رہ سکتے ہیں ؟ پیار کا کشتی میں سوار کر کے عشق کی تند و تیز موجوں کے رحم و کرم پر مجھے چھوڑ کر میری راتوں کی نیند چرانے والی نہ جانے کہاں چلی گئی؟ ہجر کی ظلمتیں ، کالی گھٹاؤں کیطرح برس رہی تھیں اور پیار کے سمندر میں عشق کے مدوجزر اٹھنے لگے تو صبر نے آگے بڑھ کر تھام لیا۔جب آنکھوں نے جان و دل سے نظارہ جاناں کیا تھا وہ موتی پرونے ختم کئیے ، اب ہجر کا طوفان تھما تو معاملات معمول پر آنے لگے ، وہی معمولات اور وہی سلسلہ تعلیم مگر اب طبعیت میں ایک ٹھہراؤ سا آ چکا تھا جیسے کسی سمندر میں مدوجزر آنے کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔
سلسلہ زندگی اپنی موج میں مگن تھا کہ اک روز ” تذکرہ غوثیہ” پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک قلندر کو کسی نازنین سے الفت ہوئی تو اسکی تصویر لیکر حجرے میں ایک ہفتہ کیلئے بند ہو گئے اور آخر محبوب حاضر خدمت ہوا ، دل نے ایک تجربہ کرنا چاہا اور صرف چند ساعات کیلئے تصور میں “محبت” کو اک پیکر حسن و جمال سے تراشا اور پھر لمحوں کے آبگینے میں سمو دیا کہ ” یہ مقید لمحے خود ہی آشکار ہوں “
اس سلسلہ کے دوران مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ کوئی اور میری طرف متوجہ بھی ہے ، میں اپنے آپ میں کھویا رہتا تھا لہذا کچھ احساس نہ ہوا کہ تم ایک “خاموش محبت” بن کر میرے سامنے آئی اور مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا ، ان آنکھوں میں اپنے لئیے تیرتا پیار دیکھ کر میری سوچیں تھم گیں ، تیری گہری نیلی آنکھوں نے میرے اندر محبت کی بجھتی چنگاریوں کو سلگا دیا اور پیار کا دریا اپنی آن و شان میں پھر سے موجزن ہو گیا۔پیار اور محبت کا یہ رنگ پہلے رنگوں سے جدا تھا ، الفت کی زرد مرجھا تی پتیاں اب پھر سے ہری ہونے لگیں ، مروت کی کونپلیں پھوٹنے لگیں اور مسرت کی تتلیاں پھر سے وصل کے گلوں پر آنے لگیں اور فضائیں تیرے سانسوں کی مہک سے لبریز ہونے لگیں۔
تیری آنکھوں میں جھانکا تو محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آیا ، مروت کی سر اٹھاتی لہروں کا اک طوفان تھا اور تیرے سانسوں کی خوشبو نے سارا ماحول معطر کر رکھا تھا مگر ترے چہرے کی چمک تھی کہ آنکھیں ٹکتی نہیں ، تو ہر پل دل کے پاس رہنے لگی کہ ہواؤں میں ، فضاؤں میں میری نگاہوں کی پرچھاؤں میں تیری مہر ثبت ہوچکی،کتنی حیرت کی بات ہے کہ جب میرے من نے اک تجربہ کرنا چاہا اور تجھے تصور کے آبگینے میں طلسمی مجسم پیکر نما تراشا اور لمحوں کی نظر کر دیا اور گزرے لمحوں کے ساتھ فراموش بھی کر دیا۔ اچانک اک روز میرے در پہ دستک ہوئی اور تو موجود تھی ، مگر اندازہ نہ ہو سکا کہ یہ انہی لمحوں کی کارستانی ہے جو پیار کے آبگینوں میں سجائے جا چکے تھے۔
کائنات کی انتہا بلندیوں کا یہ راہی اچانک زمین بوس ہو گیا ، اور انتظار کا مکمل مجسمہ بن کر رہ گیا ،چند گھنٹوں کے اس ساتھ کا غلام ہو کر رہ گیا جو ترے پاس گزرتے ، گھنٹی کی سوئیاں جب دن گیارہ بجاتی تو میرے دروازے پر تیرا آنچل الجھ رہا ہوتا ، کیا میں آسکتی ہوں ؟ اور یہ نگاہیں وہ لمحات محفوظ کرتیں کہ کہیں دیر نہ ہوجائے ،سر آپ مجھے “Mady ” کہہ سکتے ہیں ، یہ کہہ کر تو خاموش ہوگئی، اس روز اچانک محسوس ہوا کہ تیری آنکھوں سے نیند جدا ہوچکی ہے ، بوجھل آنکھوں نے وہ سب کچھ بتلا دیا جو لب نہ کہہ سکے ،وقت جیسے تھم جاتا اور لمحے وصل کی ساری رعنائیاں کی منظر کشی کرتے ہوئے نہ تھکتے، اس قرب کے رنگ میرے چہرے پہ بھی عیاں ہونے لگے،چاند بھی ترے چہرے کے سامنے مانند پڑ جائے ، معصومیت بھی جہاں اپنی راہ بدل لے لگتا تھا کہ جیسے بہاریں سبز چادر اوڑھے سفید چاندنی راتوں میں نکل پڑیں ، نہ رہتے ہوئے بھی شریک حیات سے ترا تذکرہ کر دیا کہ اک تجربہ دل نے جان بلب کر دی ہے تو جواب ملا اظہار محبت کر دو ، یقیناً تو ناقابل فراموش ہے۔
زندگی کا مشکل ترین مرحلہ آیا کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہوگیا ، کھیل ہی کھیل میں یہ کیا ہو گیا ، اگر کامیابی ہوئی تو اور اگر ناکامی ہوئی تو؟ کیا تیری پھول بکھیرتی مسکراہٹ کو گنوا تو نہیں بیٹھوں گا؟ تری چند گھنٹوں کی قربت لمحوں میں تو نہیں بدل جائے گی؟ کہیں وصل کی اس موج کو کوئی اچک نہ لے اور کمر ہمت باندھی ، یقیناً تو ناقابل فراموش ہے۔الفاظ تو جیسے کوسوں دور بھاگ گئے کہ آج جرات اظہار کا ارادہ کیا مگر یہ بھی سوچ تھی کہ اگر ناکامی ہوئی تو نہ جانے کیا طوفان اٹھ کھڑے ہونگے اور زندگی میں پہلی بار کسی سے بمشکل یہ کہہ پایا ” آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں” ، جی مجھے معلوم ہے ، تو نے فوراً جواب دیا ، ” نہیں آپ مجھے بہت ہی اچھی لگتی ہیں”، یہ بھی مجھے معلوم ہے ، اور تیرے الفاظ سیسہ کی طرح میرے کانوں میں اتر گئے ” اس سے آگے میں کچھ نہیں جانتی“ اور پھر اک ایسا دور چلا کہ وصل کی برسات رک گئی ، اور پیار کی رتیں بدل گیں ، ایکدم کھڑکیاں اور دروازے بجنے لگے کہ طوفان اور کالی آندھیاں امڈ پڑیں کہ اک فون بجا ، ” طوفان بادوباراں سے لگتا ہے تجھے انکار محبت ہو چکا” ، یقیناً، اس کم سن کو محبت کی قدروں کا احساس نہ ہوا ، طوفان تھا کہ تھمتا نہ تھا ، درختوں نے ہلکان ہو کر گردنیں کٹوا نی شروع کر دیں اور سڑکوں پر گرنے لگے ، اور یہ نظر جس طرف جاتی بر بادیاں ہونے لگیں ۔
نہ اندر کا طوفان تھمتا اور نہ باہر کا، ان تڑپتی آشکار نظروں کو بہت سمیٹنا چاہا مگر لاچار ہو چکا تو سمندروں کو طوفانوں میں بدل دیا ، پانی کا ایک سیلاب کناروں کیطرف امڈ آیا مگر اندر کا طوفان پھر بھی نہ تھمتا تھا ، اس کرب کو سمیٹنا ناممکن ہو چکا کہ اب صرف اک سمجھوتا ہو سکتا تھا مگر تجھ سے وعدہ بھی تھا کہ ” اس دنیا میں میری لامحدود قوتوں کے سامنے کچھ ناممکن نہیں مگر ایک پیار پانے کی خاطر انکو نہ آزماؤں گا” ، مگر” تیرے جانے کے بعد بھی کبھی دیدہ دل وا نہ کیا کہ صرف اک تجربہ دل تھا سو ہو چکا مگر قلق تو تھا کہ وہ بھولی صورت کسطرح سے بھلا دوں ، اور مجبوراً چند لمحات تیری یاد کے نام لگا دیے، پھر اچانک تیرے جانے کے بعد کبھی کبھی آجانا اور میرے سامنے بیٹھے مجھے خاموش نگاہوں سے دیکھتے رہنا ، میرے لئے اچنبے کا باعث بنا رہا ، آنکھوں ہی آنکھوں میں بہت کچھ کہہ دینا جو لب کہہ نہیں پاتے ، میری بھولی بسری یادوں کو نئے جذبوں کی حرارت سے ہمکنار کرنا کچھ عجب لگا، مگر تیری کم سنی اور جذبہ محبت سے نا آشنائی کے باعث میں کچھ کہنے سے رک گیا، کبھی کسی بہانے کبھی کسی بہانے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا اور تو اور حیرت ناکی اس بات کی کہ تیری جرات کو داد دیتا ہوں جب گھر کی پابندیوں کو تو نے ٹھکرا دیا اور خاموش قربتوں کا سلسلہ جاری رکھا ، تیرے قرب و جوار سے، تیرے ہر ملنے والے سے جب اپنا تذکرہ سنا تو پھر دل ِ ناداں محبت کی چنگاری سے سلگنے لگا،
ع رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
نہ جانے تو نے اچانک یہ خود رو سلسلہ آپ ہی ختم کردیا اور پھر کسی مرغ بسمل کیطرح چھوڑ دیا کہ سوچا یہ تری عادت اور کم سنی کا شاخسانہ ہے ،اک روز اچانک جب کسی شناسا نے تجھے حالتِ بیماری میں ایک کلینک پر دیکھا تو ترے لبوں پر میرا نام ہے اور غشی ہے تو مجھ سے رہا نہ گیا اور تیری تلاش میں سرگرداں ہو گیا ، تو مجھے اس قدر ملال ہو کہ تو اس حالت کو پہنچی مگر لب آزاد نہ ہوئے ، تجھے کہاں سے تلاش کروں تیری صحت تجھے بیماری دل سے کیسے بچا سکے گی؟ تیرے معصومیت بھرے سوال جواب ، تیرے خاموش لبوں کے پیچھے چھپے
الفاظ کہاں سے تلاش کروں ؟ کاش کہ کبھی تصور کے آبگینے نہ سموئے ہوتے اور فصل محبت نہ کاٹنی پڑتی۔
جذبہ محبت کے ماخذ
محبت کو دو حصوں میں منقسم کروں گا ۔
ایک وہ محبت جو انسانی فطری تقاضا اور صحت مند جذبے کا عمل ہے اور غیر ارادی طور پر ہوجاتی ہے۔دوسری وہ محبت ہے جو کسی کو پسند کرنا ، چاہنا اور پھر اس کو شریک حیات بنانے کی تمنا کرنا سے متعلق ہوتی ہے۔یہ دونوں تقاضے فطری ہیں اور دونوں کے ماخذ جدا ہیں۔
پہلا عمل تو ایک روحانی جذبے سے سرشار ہے اور جب وقوع پاتا ہے تو مجاز سے حقیقت کی طرف لوٹتا ہے ، جبکہ دوسرا عمل ایک انسانی ضرورت اور بھوک ہے جو اسے جسمانی تعلق، قربت کی طرف لے جاتی ہے اور نتیجہ میں انسانی نسل کی نشو و نما واقع ہوتی ہے، لہٰذا دونوں کو مدغم نہیں کرنا چاہیے،اب اکثر ایسے بھی ہوتا ہے کہ جسے ہم محبت کا نام دیتے ہیں بعض اوقات صرف ایک جنسی جذبے کی تسکین تک اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے جبکہ جذبہ قلبی اور روحانی نشوونما کے ضمن میں محبت اپنا سفر کرتی ہے اور محبوب ِ مجازی سے حقیقی کی طرف گامزن ہو جاتی ہے ، یہاں میرا محبت کے بارے میں لکھنے کا نقطہ نظر ایک سچائی کو تسلسل میں لانا اور انسانی صحت مند جذبے کو آشکار کرنا ہے جس میں اس دنیا کے بے جان، جاندار ذرات کو بھی جکڑے ہوئے ہے,محبت کا جذبہ منازل سلوک میں ”تصور شیخ“ سے ابتدا کرتا ہے ، جبکہ غیر ارادی طور پر کسی بھی مجاز سے شروع ہو جاتا ہے اور اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے حقیقت میں کھو جاتا ہے ، یہ ایک ایسا ہی عمل ہے جیسے چشمہ ایک بار نکل پڑے پانی تو اپنا سفر شروع کر دیتا ہے اور آخر سمندر میں جا کر اپنا وجود کھو دیتا ہے، البتہ ہر فرد اس طبیعت کا نہیں کہ اس محبت سے عشق کا سفر کرے بلکہ بعض تو اسے خلل ذہنی سے بھی پکارتے ہیں ، البتہ اگر کسی شے کی حقیقت کو جاننا مقصود ہو تو اسے کر گزرو جو کہ ایسا عمل جیسے پہلی بار پانی کا نام سننا اور اسکی لذت کو مان لینا یا نہ ماننا، دوسرے مرحلے میں پانی کو دیکھ لینا اور اسکی لذت کو ماننا یا نہ ماننا اور تیسرے مرحلہ میں پانی کو پی لینا۔
بقول میاں محمد بخش صاحب:
ع عشق باہجھ محمد بخشا کیا آدم کیا کُتّے
(ماخوذ کتاب “لذتِ آشنائی” )