حقیقت یا افسانہ
تحریر :بابرسلیم بھٹی نایاب
بس بہت ہو گیا اب میں تمہا را کوئی بھی جھوٹ نہیں سنوں گا،بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ، دن بھر آوارہ گردی کر کے رات کو یہاں ہوٹل سمجھ کر آتے ہو ،پروفیسر عباس نے اپنے جوان بیٹے فیصل پر گرجتے ہوئے کہا،پروفیسر عباس آج بہت جلال میں تھا کیونکہ روز ہی فیصل رات کو دیر سے گھر آ تا تھا اور آج بھی ہمیشہ کی طرح فیصل نے معصوم سا چہرہ بنا کر کہا،ابو جی سچی آ ج ایک دوست کی پارٹی تھی میں توبہ کرتا ہوں آیندہ کبھی آپ کو شکایت کا موقعہ نہیں دوں گا ۔دیکھو میں دن بھر سٹوڈنٹس کو پڑھاتا ہوں انھیں ہر ایک بات سمجھاتا ہوں اور یہ میرے لےے کتنے شرم کی بات ہو گئی کہ خود دوسروں کو نصیحت کرنے والے کا بیٹا اپنے باپ کے اصولوں کو ہر روز توڑتا ہے میں ڈرتا ہوں جس رفتار سے تم بھاگ رہے ہو کہیں یہ رفتا ر ہم سب کے لےے عذاب نہ بن جائے ، دیکھو زندگی کی اور وقت کی قدر کرنا سیکھوں وقت بہت بے رحم ہے جو اس کی قدر نہیں کرتا یہ اُسے مسل کر رکھ دیتا ہے کب سے تم نے ایم ۔ایس ۔سی کی ہوئی ہے کوئی جاب یا میری طرح ٹیچنگ کیوں نہیں کرتے ۔
ابو جی مناسب وقت پر کر لوں گا آپ فکر مند مت ہوں میں کبھی آپ کی اُمیدوں کو مایوسی میں نہیں بدلوں گا ،فیصل نے مضبوط لہجے میں اپنے باپ پروفیسر عباس سے کہا ۔فیصل تم ا ٓ گئے کب سے تمہاری راہ تک رہی تھی فیصل کی امی مسز تبسم عباس ہاتھ میں تسبیح لےے لان میں داخل ہوئیں ۔ہاں صاحبزا دے کو فرصت مل گئی ہے گھر آنے کی ، اسے سمجھاﺅں میں تو چلتا ہوں سونے کے لےے اس کے لےے جاگ رہا تھا ، پروفیسر عباس نے کہا اور واپس اپنے کمرے کی طرف چل دئےے ۔باپ کے جاتے ہی فیصل جو سر جھکائے کھڑا تھا اچانک سر کو اُٹھا یا اور اپنی امی سے کہا ، افوہ امی آپ بھی نا کمال کرتی ہیں ابھی تک سوئی نہیں دیکھو اب ابو کی طرح کو ئی نصیحت مت کرنا مجھے سخت نیند ا ٓ رہی ہے ۔بیٹا تمہار ے اور تمہاری بہن کنول کے علاوہ میر ا اس دنیامیں کون ہے بس تم دونوں کی فکر لگی رہتی ہے اور ہمیشہ خدا سے تم دونو ں کی سلامتی کی دعائیں مانگتی رہتی ہوں تم تو اب بڑے ہو گئے ہو کہاں ہماری نصیحت کو مانو گئے بس بیٹا جلدی گھر آ جایا کروں تمہیں نہیں پتا ماںکا انتظار کیسا ہوتا ہے میں تمہیں دیکھے بنا سو بھی کیسے سکتی ہوں ،فیصل کو اپنی امی کے لفظ لفظ سے ممتا کی وہ خشبو محسوس ہو رہی تھی جس کا دنیا میں کو ئی نعم البدل نہیں ہاں سچ تو یہی ہے ممتا کی گھنی چھاﺅں میں دنیا کی تمام مشکلات مصیبتیں نظر نہیں آتی بلکہ پیار کی وہ ندی وہ چشمہ نظر آتا ہے جو اپنے خلوص اور اُنسیت کے ساتھ اپنی اولاد کی روح تک کو سیراب کر دیتا ہے ۔ فیصل نے اپنی امی کے تسبیح والے ہاتھ کو تھام کر اُسے چوما اور کہا ، اب کبھی آپ کو انتظار کی کیفیت سے نہیں گزرنا پڑے گا ، بس یہ سننا تھا کہ مسز تبسم نے اپنے لاڈلے فیصل کو اپنے کلیجے سے لگا لیا ۔
فیصل کے ابو پروفیسر عباس ایک گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ اپنی شرافت اور امانداری اور اپنے سچے اُصولوں کی وجہ سے بہت مشہور تھے ۔پروفیسر عباس نے اپنی زندگی میں نیک نامی اور شرافت کے سوا کچھ نہیں کمایا تھا زندگی کی یہی کل جمع پونجی تھی جس پر اُنھیں ہمیشہ فخر رہتا تھا ۔فیصل اور کنول دو ہی بہن بھائی تھے اور دونوں کی آ پس میں خوب نوک جھونک ہوتی رہتی تھی اور مسز تبسم عباس تو اپنی اُولاد کو ٹوٹ کر چاہتی تھیں ،پروفیسر عباس اپنے بیٹے فیصل کی وجہ سے کافی فکر مند تھا وہ چاہتا تھا کہ جلد فیصل کو اچھی سے جاب ڈھونڈ لے تاکہ اُس کی شادی کی جا سکے اور وہ ایک ذمہ دار انسان بن جائے مگر فیصل کی عادات اور بے فکری انھیں کبھی کبھی بہت فکر مند کر دیتی تھی ۔ فیصل اپنی زندگی میں بہت خوش تھا مگر ایک ایسا حادثہ ہوا جس نے فیصل کے خاندان کی زندگی بدل کر رکھ دی ۔
فیصل اپنے آبائی گاﺅں سے واپس لوٹ رہا تھا اور تیزی سے موٹر ساےئکل چلا رہا تھا تا کہ رات ہو نے سے پہلے گھر پہنچ جائے ایک ویران رستے پر اُسے ایک نوجوان لڑکی نظر آئی جس کے ہاتھ میں ایک سفری بیگ تھا جس کو وہ اپنے کاندھے سے لٹکائے پیدل تیزی سے چل رہی تھی ،پہلے تو فیصل اُسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ گیا مگر پھر خیال آیا کہ یہاں سے تو کسی بس نے نہیں گزرنا اور شہر کا راستہ بھی کافی ہے یہ بیچاری کیسے اتنا فاصلہ طے کرے گئی ۔
فیصل نے اپنے موٹر سائیکل کو بریک لگائی اور نیچے اُتر کر اُ س لڑکی کو دیکھا جس نے اپنے چہرے کو نقاب سے ڈھانپ رکھا تھا اور اُس کا لباس بالکل عام سا تھا لگتا تھا جیسے وہ کسی گاﺅں کی باسی ہے ،لڑکی بھی فیصل کو یوں رکتے ہوئے دیکھ کر رک گئی ۔محترمہ آپ کو کہاں جانا ہے یہاں سے کوئی بس نہیں گزرتی اور شہر کا راستہ بھی کافی ہے اگر آپ کو مناسب لگے تو میری یہ پھٹیچر سی بائیک آپ کو آپ کی منزل تک پہنچا سکتی ہے ،فیصل نے لڑکی کومخاطب ہوتے ہوئے کہا۔میری کوئی منزل نہیں اور میں کسی اجنبی کے ساتھ کبھی نہیں بیٹھی آپ کی ہمدردی کا شکریہ ،اُس لڑکی نے انتہائی تلخی سے فیصل کو جواب دیا ،منزل اُن کی نہیں ہوتی جو زندگی کو بوجھ سمجھ کر خیر آباد کہ دیتے ہیں ،آپ کے لےے رکنا میرا اخلاقی تقاضا تھا اور اسی انسانی اور اخلاقی بُنا پر آپ کو یہ پیشکش کی تھی وگرنہ میں تو اپنے راستے پر جا رہا تھا ویسے بھی شام ڈھل رہی ہے اور یہاں دور دور تک کوئی سواری نہیں آنے والی اگر مناسب لگے تو آجائےں ورنہ میں تو چلتا ہوں ،فیصل نے اپنی موٹر سائیکل سٹارٹ کر لی ۔
لڑکی کچھ پل سوچنے کے بعد فیصل کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی ،راستے بھر لڑکی خاموش رہی ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی بہت گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی ہے اسی خاموش اور اجنبی سفر کے بعد جب فیصل شہر میں داخل ہوا تو پھر اُس پراسرار لڑکی سے پوچھا ،اب کہاں جانا ہے لڑکی نے کوئی جواب نہیں دیا ،فیصل نے اپنے سوال کو دوبارہ دہرایا مگر پھر بھی خاموشی ،فیصل نے بریک لگائی اور پھر مڑ کر اُس کو دیکھا تو اُس لڑکی کے آنکھوں سے زار قطار برسنے والے آنسوﺅں کو دیکھ کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ فیصل نے انتہائی تیزی سے کہا، ارے آپ کو کیا ہوا کیوں رو رہی ہیں خدا کے لےے رونا بند کیجئے رونے سے آپ کی پریشانی یا اُلجھنوں کا خاتمہ نہیں ہونے والا ہاں اگر آپ مجھے اپنے بار ے میں کچھ بتائےں گئی تو ہو سکتا ہے میں آپ کے کچھ کام ا ٓسکوں ، لڑکی نے رونا بند کر دیا مگر پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا ،فیصل اتنا تو سمجھ گیا کہ یہ لڑکی بہت بڑی مصیبت میں ہے پہلے تو فیصل کو خوف محسوس ہوا کہ اگر ابو کو پتا چل گیا کہ میں ایک لڑکی کے ساتھ گھومتا پھرتا ان کو نظر آگیا تو پھر میرا خدا ہی حافظ ہے مگر پھر دوسری طرف یہ خیال بھی آیا کسی کے کام آنا کوئی جرم اور کوئی گناہ نہیں ،دیکھئے لگتا ہے آپ کو چائے کی طلب ہو رہی ہے فیصل نے یہ کہتے ہوئے موٹر بائیک ایک ہوٹل کی طرف موڑ لی ۔
چائے پینے کے لےے جب اُس لڑکی نے اپنے نقاب کو اُتارا تو فیصل اُسے دیکھ کر دم بخود رہ گیا ،سامنے ایک مکمل حسن کا شاہکار تھا بڑی بڑی آنکھیں جن میں دنیا کی خوبصورتی اپنی مچلتی آرزﺅں کے ساتھ سمٹ کرا ٓگئی ہو ،مصنوئی بناوٹ سے پاک چہرہ جس پر زندگی کی تلخیوں کو اُجاگر کرتی ایک گہری سنجیدگی تھی ،لڑکی نے انتہاہی ٹھہرے لہجے میں فیصل کو بتانا شروع کیا، میری زندگی روز اول سے ہی طوفان حوادث کے تھپیڑوں میں ہچکولے کھاتی رہی ہے خوشی کا لفظ میرے لےے بالکل ایک اجنبی سا ہے پیدا ہونے کے کچھ عرصے بعد میرے ماں باپ ایک روڈ ایکسیڈینٹ میں جاں بحق ہو گئے دور کے ایک بوڈھے چاچا جس نے مجھے پالا پوسا ،میں نے بمشکل ایف اے کیا ہی تھا کہ میرے چچا کا بھی انتقال ہو گیا کرایہ کا مکان تھا جس میں چچا اور میں رہتے تھے ،گھر کا کرایہ ادا کرنے کے لےے اور اس پیٹ کے دوزخ کو بُجھانے کے لےے کسی طرح ایک جاب ڈھونڈ لی ،مگر مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ دنیا ایک کمزور ،دُکھوں کے آنگن میں رہنے والی ایک اکیلی اور تنہا لڑکی کو نہیں جینے دے گئی گھر سے نکلتی تو گلی بھر کے آوارہ لڑکے میرے پیچھے ہوتے قدم قدم پر بھوکی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہاں مجھے لگتا تھا وہ سب گدھ ہیں جو مجھے نوچنا کھسوٹنا چاہتے ہیں جب میں نے دامن بچانا چاہا تو میرے کردار پر اُنگلیاں اُٹھنی شروع ہو گئیں ،میں بدنامی کی آگ پر دکھوں کی روٹیاں پکانے والی وہ لڑکی ہوں جو اس جنگلی زندگی سے عاجز آچکی ہوں اب سب کچھ چھوڈ چھاڈ کر گھر سے نکلی تھی،کتنے ہی ہمدرد ملے جو بڑھاپے کی منزل پر رواں دواں تھے مگر اندر اُن کے بھیڑئے بیٹھے تھے ہاں میں سب سے لڑتے لڑتے تھک چکی ہوں مر بھی نہیں سکتی کیونکہ خودکشی حرام ہے سر پر کسی کا سایہ نہیں اپنی انجان منزل پر جا رہی تھی کہ آپ مل گئے اور مجھے پہلی بار کسی کے لہجے میں انسانیت کی جھلک نظر آئی تو اعتبار کر کے آپ کے ساتھ چل پڑی یہ ہے میری زندگی کی داستان یہ کہتے ہوئی لڑکی چپ کر گئی اور حوا کی بیٹی کا شرم و حیا والے چہرے پر آنسوﺅں کی لڑیا ں شروع ہو گئیں ۔فیصل جو محویت کے ساتھ اُس کی باتیں سن رہا تھا اُس کے چپ ہونے پر بولا،کسی کا کوئی بھی نہ ہو تو ایک ہستی ضرور ہوتی ہے وہ خدا کی ہستی ہے جس نے آپ کی عزت کی حفاظت کی ہے اور آپ کو ایک ایسے انسان سے ملا دیا ہے جو آپ کے دکھوں پر مرہم ضرور رکھے گا چلو میرے ساتھ میرے گھر یہ کہتے ہوئے فیصل اُٹھ پڑا ،فیصل کو اُس کے لہجے اور اُس کی باتوں سے پکا یقین ہو گیا یہ لڑکی جو کہ رہی ہے وہ سب سچ ہے ۔
آپ کا نام تو پوچھنا ہی بھول گیا راستے میں فیصل نے اُس سے پوچھا،میرا نام شبنم ہے مگر میں نام کی طرح شبنم نہیں ہوں ،شبنم نے جواب دیا،فیصل نے اُس کا نام سنا تو اُسے فلم سٹار شبنم کی یاد آگئی چاہے یہ شبنم فلم سٹار نہیں مگر اس کا قدرتی حسن کسی فلم سٹار سے کم بھی نہیں ،فیصل کو زندگی میں پہلی بار کسی کے لےے کچھ میٹھا سا پیار محسوس ہوا ہاں پیاروہ احساس جو بہت مقدس ہے مگر اس احساس اس لفظ کو بدنام کر دیا گیا اس لفظ پر لوگوں نے اپنے خود غرضی اور بدنامی کے کھیلوں کو کھیلا کسی نے اس نام کی اس احساس کی لاج نہیں رکھی یہی سوچتے سوچتے فیصل کا گھر ا ٓگیا فیصل شبنم کو لے کر گھر داخل ہوا ،شبنم ججھکتے ہوئے فیصل کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی ،مسز تبسم اور کنول لان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ،امی جی دیکھیں تو سہی کون آیا ہے فیصل کے ساتھ ،کنول نے مسز تبسم سے کہا ،فیصل کی امی نے فیصل کے ساتھ ایک نوجوان اور انجان لڑکی کو دیکھ کر فیصل کی طرف سوالیہ نشان سے دیکھا۔
امی جی یہ شبنم ہے یہ اس کا نام ہے اور اب یہ یہاں رہے گئی ،فیصل نے اپنی امی کی نظروں کا جواب دیا ،مسز تبسم نے کچھ نا سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا ،کنول جاﺅ اس کے ساتھ اور اس کو کمر ے میں لے جاﺅ یہ بہت تھکی ہوئی ہے ،فیصل نے اپنی بہن کنول کو کہا،کنول نے اپنے بھائی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے شبنم کو لے کر اند ر کمرے کی طرف چلی گئی ۔
ہاں اب بتاﺅیہ کون ہے اور اسے یہاں کیوں لے کر آئے ہو ،مسز تبسم نے فیصل سے پوچھا ،فیصل نے مختصر لفظوں میں اپنی امی کو شبنم کے بار ے میں سب بتا دیا ،یہ سن کر مسز تبسم کے چہرے پر فکر مندی کے تاثرات اُبھر آئے ،پر بیٹا اسے یہاں ہم مستقل کیسے رکھیں گئے کیا تمہیں یقین ہے کہ اس نے تم سے کچھ کہا وہ سچ ہے ،مسز تبسم نے فیصل سے پوچھا،ہاں امی جس طرح مجھے یقین ہے کہ آپ میری ماں ہیں اسی طرح مجھے اس شبنم کے ہر لفظ پر یقین ہے ،مسز تبسم جانتی تھی کہ فیصل بہت سچ بولتا ہے اُس نے کبھی جھوٹ کا سہا را نہیں لیا چاہے سچ کے لےے اُس کتنے ہی نقصان کیوں نا اُٹھانا پڑ جائے ،اور جہاں تک اس کے یہاں پر مستقل رہنے کا سوال ہے اُس کا جواب میں آپ کو کل دوں گا ،فیصل نے اپنی امی کو جواب دیا ،مگر بیٹا تمہارے ابو کا مجھے خطرہ ہے وہ اس انجان لڑکی کے یہاں رہنے پرکبھی راضی نہیں ہوں گئے ،امی جی اُنھیں راضی ہونا پڑے گا میں نے کوئی جرم یا کوئی گناہ نہیں کیا ایک انسانی ناطے اس کو پناہ دی ہے اور باقی باتیں کل ہوں گئی مجھے بہت سخت نیند آئی ہے ،فیصل اپنی امی کو سوچوں میں چھوڈ کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا ۔
بستر پر لیٹتے ہی خیالوں اور گہری سوچوں نے فیصل کو گھیرے میں لے لیا ،فیصل کو انتہای جلدی میں کوئی فیصلہ کرنا تھا آخر ایک طویل سوچ کی کشمکش میں فیصل نے ایک فیصلہ کر لیا اور پھر ایک پُرسکون نیند فیصل پر مہربان ہو گئی ۔
صبح فیصل کی آنکھ زرا دیر سے کھلی تب تک فیصل کے ابو کالج جا چکے تھے ،مسز تبسم آج بہت خوشگوار موڈ میں تھی بیٹا ناشتہ بناﺅں کیا،مسز تبسم نے ایک پیار بھر ی نظر فیصل پر ڈالتے ہوئے کہا،ہاں امی بنائیں اور وہ شبنم نے ناشتہ کر لیا کیا،ہاں بیٹے اُس نے ناشتہ بھی کر لیا اور میں نے اُس سے کافی ڈھیر ساری باتیں بھی کر لیں ۔ہاں تم سچ کہتے ہو وہ بہت دُکھی لڑکی ہے تم نے ایک بہت نیک کام کیا ہے جو اسے یہاں لے آئے اﷲ تمہیں اس کا اجر ضرور دے گا ۔ اب کنول اُس سے باتیں کر رہی ہے اور ہاں تمہارے ابو کو میں نے بتا دیا ہے مگر انھوں نے کو ئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ کالج چلے گئے ہیں بس اتنا مجھ سے کہا ہے کہ فیصل کی آنکھ کھلے تو اُسے کہنا وہ گھر میں رہے واپس ا ٓ کر اُ س سے بات کرنی ہے ،اچھا امی جی میں کہیں نہیں جا رہا آج ،فیصل نے جواب دیا۔
پروفیسر عباس اپنے وقت مقررہ پر گھر لوٹے اور آتے ہی فیصل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ،فیصل زرا میرے کمرے میں آﺅ فیصل اپنے ابو کے حکم کی تعمیل کرتا ہوااُن کے ساتھ کمرے میں چل پڑا ،یہ لڑکی کون ہے اور کیوں اسے یہاں لے کر آئے ہو ،پروفیسر عباس نے ایک گہری نظر فیصل پر ڈالتے ہوئے پوچھا ،فیصل نے جواب میں شبنم کے بار ے میں سب بتا دیا ،پوری بات سن کر اورپھر کچھ پل سوچنے کے بعد پروفیسر عباس نے فیصل کو کہا،چلو ٹھیک ہے مان لیتا ہوں تم میں انسانی جذبہ بہت زیادہ ہے مگر میں زندگی کی جھلساتی ہوئی آگ کے تجربوں سے نکلا ہوا ہوں اور میں تمہاری نظروں میں صرف انسانی ہمدردی ہی نہیں دیکھ رہا بلکہ مجھے کچھ اور بھی نظر آ رہا ہے ،جی ابو آپ نے ٹھیک پہچانا میں اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور اس کی محرومیوں اور دکھوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں شادی میں نے کل بھی کرنی ہے تو کیوں نہ آج کر لوں شادی بھی ہو جائے گئی اور کسی کو اُلجھے راستوں میں اس کی منزل بھی مل جائے گئی ،فیصل نے بے خوف ہو کر اپنے ابو سے کہا
اتنا سننا ہی تھا کہ پروفیسر عباس کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے ،تمہار ا دماغ خراب ہو گیا ہے جس کا تمہیں کو ئی اتا پتا نہیں تم اُس سے شادی کرنا چاہتے ہو مجھے پہلے ہی لگتا تھا تم میرے نام کو ضرور ڈبوﺅ گئے جو ہم نے تمہارے لےے اچھاخاندان کی لڑکی دیکھی ہے اُس کا کیا ہو گا ،دیکھوں فیصل یہ باتیں یہ سوچیں کتابوں میں الفا ظوں کی صورت میں اچھی لگتی ہےں ان کا زندگی کی حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ،ابو جی آپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں مگر انتہائی احترام سے میں آ پ سے یہ عرض کرتا ہوں پھر ان کتابوں کا جلا دیں جو ہمیں انسانیت کا درس دیتی ہیں جو ہمیں انسا ن کے کام آنے کا درس دیتی ہیں جب ان علم کی کتابوں کا ہماری زندگی کی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تو پھر کیا فائدہ ان کتابوں کو پڑھنے کا اور پڑھانے کا ،ابو جی میرا دل مطئین ہے کہ میں ایک نیک کام کار رہا ہوں اور یہ نیک کام کرتے ہوئے میں اپنے ماں باپ کا دل بھی نہیں دکھانا چاہتا ،خدارا مجھے اس نیک کام کرنے میں نہ روکیں آپ اپنی عزت اور رسوائی کا کوئی خوف نہ رکھیں یاد رکھیں عزت اور ذ لت اﷲکے ہاتھ میں ہے انسان کے اختیار میں نہیں ،اگر میں اس حوا کی بیٹی کو نہیں اپناﺅں گا تو پھر مجھے ڈر ہے یہ دنیا کی بے حسی اور ظلم کا شکار بن جائے گئی اور پھر میں اپنے ضمیر کو معا ف نہیں کر سکوں گا ،ابو جی آپ ہی تو مجھے انسانیت کا درس دیتے تھے آپ ہی تو کہتے تھے کہ بیٹا مصیبت زدہ کی مدد کروں چاہے اُس کے لےے تمیں کتنی بھی سختی کیوں نا جھیلنی پڑے ،اور آج جب میں اپنی خوشی اور مسرت سے یہ کام سر انجام دے رہا ہوں تو آپ ہی مجھے روک رہے ہیں تو پھر اب میں کیا سمجھوں ،فیصل نے یہ سب باتیں آنکھیں جھکا کر اپنے ابو سے کہیں،پروفیسر عباس اپنے بیٹے کی یہ سب باتیں سن کر ایکدم سناٹے میں ا ٓ گیا پروفیسر عباس کو لگا کہ کل کا بچہ فیصل آج کتنا بڑا ہو گیا ہے ہاں علم تو وہ ہے جو عمل کی تمنا کا طالب ہے آج پروفیسر عباس کو زندگی میں پہلی بار اپنا اندر کوکھلا نظر آیا آج پروفیسر عباس کو اپنے آپ میں تضاد نظرآیا ،کتناغلط سمجھتے تھے وہ اپنے بیٹے فیصل کو آج وہی فیصل اُنھیں علم کے سمندر میں غوطہ زن نظر آیا،
بیٹا مُجھے معاف کر دوں میں تمہارے اچھے کام میں رُکاوٹ ڈال رہا تھا سچ تویہی ہے جو تم کہ رہے ہو بیٹا مجھے آج پہلی بار تم پر فخر ہو رہا ہے اور میری دعا ہے کہ ہر باپ کا ایسا ہی بیٹا ہو جو لوگوں کی بھلائی اور غم بانٹنا جانتا ہو۔ہاں بیٹا آج ہماری باتیں ہماری نصیحتیں صرف دوسروں کے لےے ہی رہ گئی ہیں پر بیٹا تم نے آج ا ن باتوں کوعمل میں کر ڈالا ہے ،پروفیسرنے بھرائی ہوئی آواز میں اپنے جگر کے ٹکڑے فیصل کو کہا،فیصل نے جلدی سے اپنے ابو کو گلے سے لگا لیا اور کہا ،ابو خدارا مجھ سے معافی مانگ کر مجھے شرمندہ مت کریں آپ کا حکم اور آپ کی فرمابرداری مجھے ہر ایک چیز سے زیادہ عزیر ہے ۔
فیصل کے گھر میں شبنم کے آتے ہی جیسے خوشیاں نے قدم رکھ لیا گھر کا سماں بدل گیا ،شبنم کو ایسا لگا جیسے وہ جنگل سے نکل کر ایک ایسی انسانی دنیا میں ا ٓگئی ہو جس میں پیار اور محبت کی سچی رعنائیاں ہیں ،اب تو شبنم کے سنجیدہ چہرہ فیصل اور کنول کی باتیں سن کر کھل اُٹھتا تھا ،مسز تبسم کو بھی پتا چل گیا کہ فیصل شبنم کو اپنانا چاہتا ہے اور اس کی اجازت تو پروفیسر عباس نے بھی بخوشی دے دی ہے تو پھر مسز تبسم کیوں اجازت نہ دیتی ۔
شبنم جی میں کسی بھی تمہید کو باندھے بغیر آپ سے اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ایک ہینڈسم ،پڑھا لکھا ذہین نوجوان فیصل آپ کو اپنانا چاہے تو آپ کا جواب کیا ہو گا،فیصل نے انتہاہی شوخی سے شبنم کو کہا،شبنم کی آنکھیں حیا کی خوبصورتی میں جُھک گئیں اورشبنم کی ہلکی سی سرگوشی اُبھری ،یہ میرے لےے اعزاز کی بات ہو گئی مگر ناجانے مجھے لگتا ہے ابھی تک میں کسی افسانوی دنیا میں مقید ہوں ،نہیں شبنم یہ افسانوی نہیں حقیقت کی دنیا ہے وہی دنیا جس نے تمیں غموں کے بے رحم موسموں سے آشنا کروایا اور آج اسی دنیا میں تم میری محبتوں کی وادی میں داخل ہو رہی ہو ،فیصل نے یہ کہا تو شبنم نے اپنی آنکھیں بند کر کے ایک ٹھندا سانس لیا اور اس سانس میں شبنم اپنے غموں کوماضی میں چھوڈ آئی کیونکہ نوزائیدہ خوشیاں شبنم کا انتظار کر رہی تھیں ۔دور کہیں ایک پرانہ گیت فیصل اور شبنم کو سنائی دینے لگا۔
کسی کی مسکراہٹوں پہ ہو نثار
کسی کا غم مل سکے تو لیں اُدھار
کسی کے واسطے ہو تیرے دل میں پیار
جینا اسی کا نام ہے