اپنوں کے ستم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عربی سے ترجمہ: عبدالجلیل منشی ۔ الکویت
اللہ رب شانہ ہر انسان کو دینِ فطرت پر ہی پیدا کرتا ہے پھر اسکے ماں باپ اسے ہندو، عیسائی یا جس مذہب کہ وہ پیروی کرتے ہیں اسے اس پر کاربند کر دیتے ہیں. اسی طرح ہر انسان بنیادی طور پر ایک شریف اور پرامن شہری ہوتا ہے مگر اسکی صحبت،اسکے دوست احباب،اسکے ارد گرد کا ماحول اور اسکی سوسائٹی اور اسکی تربیت اسکے کردارپر اچھے یا برے نقوش چھوڑتے ہیں. انسان اگرپاکیزہ اور صاف ستھرے ماحول میں رہے گا تو اسکے اخلاق، عادات واطوار، طور طریقے مہذبانہ اور شریفانہ ہونگے. وہ معاشرے کا ایک اچھا فرد کہلائے گا ، لوگ اس سے خوش ہونگے اور وہ معاشرے میں عزت و احترام کا حقدار قرار پائے گا اور اگر اسکا اخلاق، کردار اور لوگوں کے ساتھ رویہ اچھا نہیں ہے تو لوگ اس سے ناخوش ہونگے اور معاشرے کے لئے اذیت کا سبب بنے گا.
کچھ بچے حادثاتی طور پر غلط ماحول کا شکار ہوجاتے ہیں، کچھ والدین کی عدم توجہ اور باہمی چپقلش کے باعث گھر کے کشیدہ ماحول سے فرار حاصل کرنے کی سعی میں غلط ہاتھوں میں پہونچ جاتے ہیں اور کچھ اپنوں کی زیادتیوں اور ظلم کا شکار ہوکر ظالموں سے انتقام لینے کے چکر میں معاشرے کا ناسور بن جاتے ہیں اور اپنی نادانی اور ناسمجھی کی وجہ سے وہ جرائم کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جاتے ہیں .
زیرِ نظر کہانی بھی ہمارے معاشرے کے ایک ایسے ہی ستائے ہوئے نوجوان کی ہے جسے حالات نے جرم کی دنیا میں پہونچا دیا.راوی کہتا ہے کہ میں عمر کے آٹھویں سال میں تھا کہ میرے والد اس دنیا سے کوچ کر گئے.میرے والدہ اپنے والد (میرے نانا) کے گھر منتقل ہو گئیں جبکہ میں اپنے دادا کے گھر اپنے چچاؤں کے ساتھ رہنے لگا.اپنے خونی رشتوں کے درمیان رہتے ہوئے میں ہمیشہ عدمِ تحفظ اور خوف کا شکار رہا.نوسال سے بھی کم عمری میں جب مجھے اپنوں کی محبت، شفقت ،چاہت اور بھر پور توجہ کی شدید خواہش اور ضرورت تھی، میرے چچا مجھے نفرت سے دھتکارتے تھے، چوری اور فساد کا الزام لگایا کرتے تھے. میں حسرت اور برستی آنکھوں سے دیکھا کرتا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے اچھے کھلونے، کپڑے اور مٹھائیاں خرید کر دیتے مگر میرے سر پرکبھی کسی نے دستِ شفقت دراز نہ کیا. میرا دل اپنوں کی اس ستم ظریفی اور بے اعتنائی پر خون کے آنسوں روتا. رفتہ رفتہ یہ حسرت اور بے بسی شدید نفرت اور غصے میں بدل گئی اور میں ان سے انتقام لینے کا موقع تلاش کرنے لگاتاکہ اپنے دل کے پھپھولوں کو ٹھنڈک پہونچا سکوں.
وقت کچھوے کی چال سے آگے سرکتا رہا اور میں روتا ، سسکتا حالات کی چکی میں پستے ہوئے پندرہ سال کا ہو گیا.بغاوت کا سمندر میرے سینے میں اب ٹھاٹھیں مارنے لگا تھا اور سرپٹحتی سرکش موجیں ساحلوں کو تاراج کرنے پر کمر بستہ ہونے لگیں تھیں.میں نے گھر سے باہرزیادہ رہنا شروع کردیا تھا . گھر والوں کو میری مطلق فکر نہ تھی کہ میں سارا سارا دن کہاں اور کن کے ساتھ گزارتا ہوں جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ میں آوار ہ اور جرائم پیشہ دوستوں کی صحبت کا شکار ہو گیا. راتوں کو دیر گئے گھر آنے لگا اور سگریٹ نوشی شروع کردی. جب میرے چچا کو میرے سگریٹ نوشی کی عادت کا علم ہوا تو انہوں نے مجھے پیار و محبت سے سمجھانے کی بجائے مجھے بے تحاشہ مارنا شروع کردیا اور گھر سے نکال باہر کیا شاید وہ ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھے جسکا بہانہ بنا کر وہ اپنے گھر کے دروازے مجھ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند دیتے.
گھر سے بے گھر ہونے کے بعد میرے پاس اسکے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ میں اپنی نانی کے گھر کا رخ کروں جہاں میری ماں میری خالاؤں کے ساتھ بے حد تکلیف دہ زندگی گزار رہی تھی.میرے خالائیں جو میری ماں کی سگی بہنیں تھیں اس سے کسی خادمہ کا سا برتاؤ کرتی تھیں. میری والدہ کھاناپکاتی، کپڑے دھوتی اور سارے گھر کی صفائی ستھرائی کرتی اور خالائیں آرام کرتیں.وہ دن میں نہیں بھول سکتا جب میری سرکشی اپنے عروج پر تھی اور میں اپنی ماں کے پاس اس حالت میں پہونچا کہ وہ غم اندوہ کی تصویر بنی اپنی بے بسی پر آنسوں بہا رہی تھی.اس نے نہایت حسرت سے مجھے دیکھا اور گرفتہ دلی سے کہا کہ ائے میرے بیٹے سمجھ سے کام لو اور اپنے آپ کو سدھارو، راہ راست اختیار کرو. اپنے لئے کوئی مناسب کام ڈھونڈھو اور مجھے اس جہنم سے نکالو. مگر میں نے اس کی بات سنی ان سنی کردی تھی.
ماموؤں کے پاس رہتے ہوئے انہوں نے مجھے ڈرا دھمکا کر اور مار پیٹ کر کے کھیتی باڑی اور زراعت کا کام سکھا دیا تھا مگر میں ان سب گورکھ دھندھوں سے تنگ آگیا تھا اور اس ماحول سے فرار حاصل کرنا چاہ رہا تھا. میں نے اپنی ماں سے کچھ پیسے قرض لئے اورایک گاڑی خرید کر ایک کمپنی میں ملازمت حاصل کرلی جہاں میری نئے دوستوں کے ساتھ ملاقات ہوئی جنہوں نے مجھے منشیات اور دیگر برائیوں سے متعارف کروایا. جب میری ماں کو میری بے راہ رویوں کا علم ہوا تو شدتِ غم و صدمے سے وہ بیمار ہو گئی. اس نے میرے چچاؤں اور میرے ماموؤں سے میرے رویے کی شکایت اور کہا کہ وہ مجھے سمجھائیں اور نصیحت کریں کہ میں اپنے آپ کو مزید تباہی سے دوچار نہ کروں. مگر انہوں نے پندونصائح اور شفقت سے سمجھانے بجھانے کی بجائے مجھے مارنا پیٹنا شروع کردیا جسکا نتیجہ مزید سرکشی اور بغاوت کی شکل میں سامنے آیا.
گھر والوں کے شدت آمیز رویے کی وجہ سے میں گھر سے فرارہوگیا اور سارا وقت اپنے آوارہ اور منشیات کے عادی دوستوں کی صحبت میں گزارنے لگا. مجھ میں حرام و حلال کی تمیزختم ہو گئی تھی.اپنے ماحول سے بغاوت،نافرمانی اور شقاوتِ قلبی اپنی انتہا ء کو پہنچ چکی تھی.دل سے جذبہء ترحم، نرمی اور خوش مزاجی یکسر رخصت ہوچکی تھی اور ایسے میں ایک بار جب میں اپنے ماں کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی. بیماری کے باعث اسکا چہرہ کملایا ہوا تھا. اسکی تیمارداری اور دلجوئی کرنے کی بجائے میں نے اسے سخت برا بھلا کہا اور واپس لوٹ آیا. اب سوچتا ہوں تو سخت ندامت ہوتی ہے اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے رحم وکرم کے طفیل مجھے معاف فرمائے.ائے پیارے ماں اللہ تجھے اپنی حفظ وامان میں رکھے، تیرا کیا قصور تھا کہ میں نے تجھ سے ایساظالمانہ برتاؤ کیا.ایک جوان بیٹے کے ہوتے ہوئے بھی تم اپنی ظالم بہنوں کے رحم وکرم پر زندگی کے بدترین دن گزار رہی تھی. اغیار کی ٹھوکروں پر پل رہی تھی. اپنے بیٹے کی تمام زیادتیوں کے باوجود رات کے آخری پہر تیرے اٹھے ہوئے ہاتھوں، اشک برساتی آنکھوں اور دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی دعاؤں کا ہی ثمرتھا کہ مجھے رشد وہدایت کی دولت نصیب ہوئی.
کتنی عظیم ہوتی ہے یہ مائیں. زمانے بھر کا دکھ درد سہتی ہیں، اپنے جوانی اپنی اولاد کی پرورش اور دیکھ بھال پر صرف کردیتی ہیں، زمانے کے سرد وگرم برداشت کرتی ہیں مگر اپنی اولاد کوہر دکھ، ہر غم اور ہر تکلیف سے محفوظ رکھتی ہیں، بغیر کسی لالچ کے، بغیر کسی غرض اور اجر کے.اولاد پر ماں کے کتنے احسانات ہیں ، ہم تو اپنی ماں کے دودھ کے ایک قطرے کا احسان ادا کرنے کے لائق نہیں. ساری عمر اسکے قدموں میں اسکی خدمت کرتے گزاردیں تب بھی اسکے ایک احسان کا معمولی حق بھی ہم سے ادا نہ ہو. مگر اولاد کبھی کبھار یہ سب کچھ بھول جاتی ہے اور ماں کو ایسے غموں سے دوچار کرتی ہے کہ ان غموں کو محسوس کرکے دھرتی بھی کانپ جاتی ہے . مگر آفرین ہے اس ماں پر کہ دل اولاد کے دئے ہوئے زخموں سے چورچور ہونے کے باوجود زبان سے انکے حق میں کلمہ خیر اور خیرخواہی اور بھلائی کی دعا کے علاوہ کچھ اور نہیں نکلتا.
میری آواز بہت خوبصورت تھی اور میں عود بہت اچھا بجاتا تھا اور اس حوالے سے بھی میرے حلقہ احباب میں میری کافی شہرت تھی.اور انکی صحبت میں رنگ وطرب کی محفلیں سجا کرتی تھیں. بہرحال وقت گزرتا گیا اور میں جرائم کی دنیا میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا. میں نے کئی بار جیل کی ہوا بھی کھائی جسکی وجہ سے میں ایک پختہ کار مجرم بن گیا.نہ جانے میری تباہی اوربربادی کا یہ ہولناک سفر کب تک جاری رہتا اور کب تک میں جرائم اور معصیت کے ہولناک ریگزاروں میں بھٹکتا رہتا کہ شاید اللہ نے میری ماں کے اٹھے ہوئے ہاتھوں اور میرے حق میں اسکی دعائے نیم شب کو قبولیت عطا کی او ر مجھے غفلت کی پرہول اور پرخاروادیوں سے نکال کررشد وہدایت کے چمنستان میں پہنچانے کا سامان پیدا کیا.
ہوا یوں کہ میرا ایک بہت ہی عزیز دوست ہوا کرتا تھا جو کہ بے حد خوب رواورپرکشش شخصیت کا مالک تھا.جب کافی دنوں تک و ہ مجھے نظر نہ آیا تو میں نے کسی سے اسکے متعلق استفسار کیا تو مجھے بتایا گیا کہ کچھ دن قبل وہ ایک خوفناک حادثے کا شکار ہوکر اسپتال کے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں داخل ہے اور بے حد خستہ حالت میں ہے. یہ سنتے ہی میں بھاگم بھاگ اسپتال پہونچا. جب میں نے اسکی شکل دیکھی تو میرے جسم کے رونگٹھے کھڑے ہوگئے.میں پہلی نظرمیں اسے پہچان ہی نہ سکا. اسکا خوبصورت اور دلکش چہرہ حادثے کے باعث بگڑ کر کریہہ المنظر ہو گیا تھا. میں اس منظرکی تاب نہ لا سکا اور بے اختیار رنج و الم کی شدت سے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے
میرا وہ دوست زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چند دنوں کے بعد اس دارِفانی سے کوچ کر گیا. میں اس صدمے اور موت کے خوف سے دو روز تک روتا رہا. میرے دوست کی موت میری توبہ اور اللہ کی طرف لوٹنے کا سبب بنی اور میں نے عزمِ مصمم کر لیا کہ اس سے پہلے کہ موت میرا راستہ دیکھے میں اپنے گناہوں سے تائب ہو کر اللہ کا دامن تھام لونگا.اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں گناہوں سے نفرت پیدا کردی اور ایمان کی حلاوت اور نیکیوں سے محبت اجاگر کردی. میں نے اپنے پاس موجود تمام گانوں اور خرافات پرمبنی کیسیٹیں جمع کیں اوراسلامی بکسٹال پر جاکر انہیں دینی کیسٹوں سے بدلوا لیا.اپنی پیاری ماں سے میں نے اپنے گزشتہ رویہ کی معافی طلب کی.وہ میری اس تبدیلی پر بے حد سرشار ہوئی اور مارے خوشی کے اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اس نے مجھے راہ ہدایت عطا کرنے پر اللہ کاشکر ادا کیا.اسے یہ دن دیکھنے کی حسرت ہی تھی جسے اللہ نے اسکی زندگی میں پورا کیا.
شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے وہ کبھی نہیں چاہتا کہ اللہ کاکوئی گناہگار بندہ معصیت کا راستہ ترک کرکے نیکی کی راہ اپنائے. وہ اسے ہر حیلے بہانے سے اپنی راہ پر گامزن رکھنے کی کوشش کرتا ہے. سبز باغ دکھاتا ہے اور دنیا کو اسکے لئے انتہائی خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ وہ اسکے پرفریب حسن میں اسطرح گرفتار ہو جائے کہ کسی بھی حال میں دامن نہ چھڑا سکے.اور اگر کوئی انسان اللہ کے کرم سے راہ ہدایت پالیتاہے تو پھر وہ اس بات کی سر توڑ کوشش کرتا ہے کہ اس مردِ مومن کو پھر سے ضلالت اور گمراھی میں مبتلہ کردے.
میری توبہ کے بعد مجھے میرے ماضی کی سیاہ کاریوں سے تو نجات مل گئی تھی مگر میرے برے دوستوں سے نجات نہ مل سکی. وہ شیطان کے آلہ کار بن کر مجھے بہلانے، بہکانے اورگناہوں کی راہ پر لوٹانے کے اک تواتر کے ساتھ میرا گھیراؤ کئے رکھتے اور کہتے کہ کیا رکھا ہے اس راہ میں، کہاں گئی وہ تمہاری خوبصورت آواز وہ تمہارا عود بجا کر محفلوں کو لوٹ لینااور وہ تما م باتیںیاد دلاتے جنکے ذکر سے ہی میرا سر شرم کے مارے جھک جاتا ہے.
اسی طرح کئی ماہ بیت گئے میرے دوست مجھے اپنی محفلوں میں واپس لے جانے کیلئے مسلسل کوشاں رہے اور مسلسل مختلف طریقوں سے مجھے بہکاتے رہے تاکہ میں اللہ کا راستہ چھوڑ کر بدی کی جانب لوٹ جاؤں.یہاں تک کی ایک روز ایک دوست نے ایک محفل میں مجھے عود بجانے کی دعوت دی جسے میں نے قبو ل کرلیا اور اسکی محفل میں عود بجایا.چونکہ میں نے اللہ سے نیا نیا عہد کیاتھا اور روحانی طور پر میں اندر سے اتنا مضبوط نہ تھااس لئے بتدریج شیطان مجھ پر غلبہ پاتا گیا اور میں آہستہ آہستہ گیت سنگیت کی دنیا میں لوٹ آیا.
ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ملک الموت میرے روح قبض کرنے کی تیاری کررہا ہے. میں نے اللہ کو یاد کرنا اور کلمہ شہادت کا ورد کرنا شروع کردیا.میں نے حالتِ خواب میں اللہ سے یہ وعدہ کیا کہ اگر میں زندہ رہا تو اللہ کے حضور سچی توبہ کرونگا اور کسی بھی دوست کے بہلانے اور ورغلانے میں نہیں آؤنگا. صبح جب میری آنکھ کھلی تو مجھے اپنا وہ خواب اور اپنا اللہ سے کیا ہو ا وعدہ یاد تھا.میں نے گانوں کی تمام کیسیٹس جمع کیں اور انہیں ضائع کردیا اور دین حق پر استقامت کے ساتھ چلتے رہنے کا عزم مصمم کیا. آج الحمد للہ اس بات کو چار سال ہوگئے ہیں اور اللہ کے فضل اور اسکے احسان کے طفیل میں پوری استقامت کے ساتھ دین پر کاربند ہوں.
میری توبتہ النصوح کے بعد میرے دل کا اور میری روحانی سرشاری کا جو عالم ہے وہ میں جانتا ہوں اور میرا رب جانتا ہے. میرے چہرے کی سیاہی کو اللہ نے اپنے نور سے روشن اور منور کر دیا ہے.جو لوگ میری سیاہکاریوں اوربدمعاشیوں کے باعث مجھ سے نفرت کرتے تھے اب اللہ کے فضل وکرم سے مجھے سے محبت کرنے لگے ہیں. میرے ماں کی تمام بیماریاں الحمد للہ رخصت ہوگئیں ہیں اور وہ صحتمند اور خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں.
ایک بات یہاں قابل ذکر ہے کہ گناہوں بھری زندگی سے نجات پانے اور اللہ سے لو لگانے کے باوجود میرے دل میں ہر وقت یہ خدشہ لاحق رہتا تھا کہ کیا میرے اتنے سنگین گناہوں کی مجھے اللہ کے دربار سے معافی مل جائے گی. کیا میری چند برسوں کی راستی اورٹوٹی پھوٹی نیکیاں میری برسوں پر محیط گناہ آلود زندگی کا کفارہ بن جائیں گی.میں انہیں سوچوں میں مستغرق رہتا اور اللہ کے حضور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتا رہتا.
ایک روز ایک عالمِ دین سے میں نے اپنے ان ہی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا اللہ میرے ان تمام گناہوں کی بخشش فرمادیں گے جو مجھ سے جاہلیت کے ایام میں سرزد ہوئے. سبحان اللہ ثم سبحان اللہ ۔ انکے جواب نے مجھے خوشی اور سرشاری بخشی اور میرے تمام اندیشے اور خدشات دور ہوگئے جب انہوں نے کہا کہ اللہ سچے دل سے توبہ کرنے والے کے تمام گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے .میں اللہ جل شانہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اپنے پاس بلانے سے پہلے توبہ نصیب کی اور میں دعاگو ہوں اور آپ بھی میری لئے دعا کیجئے گاکہ اللہ مجھے تادمِ آخراپنی نیک راہ کا مسافر بنائے رکھے۔ آمین ثم آمین۔
حاصلِ مطالعہ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معززقارئین کرام! بہت ہی خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنکو اللہ مرنے سے پہلے توبتہ النصوح کی توفیق عطا کرتا ہے. ورنہ تو آج کل مرگ مفاجات اس قدر عام ہو گئیں ہیں کہ ہر وقت اللہ سے یہی دعا کرتے رہنی چاہئے کہ اللہ موت اس حالت میں واقع ہو کہ لب پہ ہو لاالہ الااللہ، محمد الرسول اللہ ۔ اور خاتمہ بالخیر ہو۔آمین. ہم سب غفلت کی زندگی جی رہے ہیں ۔الا ماشاء اللہ۔لہو ولعب،کیبل، انٹرنیٹ،فلمیں ، گانا بجانااور دیگر دنیا جہاں کی خرافات میں زندگی بسر ہو رہی ہے. نماز سے غفلت،قرآن سے دوری،حقوق العبادکی عدم ادائیگی، ماں باپ کی نافرمانی اور ایسے ہی اللہ کو ناراض کرنے والے امورمیں وقت گزر رہا ہے.اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ساری کوتاہیوں کا مطلق احساس بھی نہیں ہے.یہ سوچتے ہیں کہ ابھی تو وقت پڑا ہے بعد میں توبہ کرکے نیک لوگوں میں شامل ہو جائیں گے. مگر ہمارے پاس اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ہمیں بعد میں توبہ استغفار کی مہلت مل جائیگی. ۔سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں.
ہمیں اس وقت کی اور اس مہلت کی قدر کرنی چاہئے جو اللہ نے ہمیں دی ہے. کون جانے کہ غفلت میں یہ وقت گزر جائے اور اچانک ہی موت کا فرشتہ ہماری چوکھٹ پر آن وارد ہو. اور ہمیں پتہ ہی نہ چلے .۳۰ دسمبر ۲۰۱۰ ء کو مغرب کی نماز کے بعد ایک دوست کا فون آیااور اس نے ایک بیحد قریبی دوست کے اچانک انتقال کی خبر سنائی .یقین نہیں آیا تو اسکے اہل خانہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کردی اور بتایا کہ صبح ساڑہے آٹھ بجے وہ ڈیوٹی پر جانے کے لئے گھر سے نکلا. فلیٹ کا دروازہ لاک کیا اور ابھی سیڑھیوں کے پاس پہونچا تھا کہ دل کا دورۃپڑا اور نہ جانے کس وقت اسی حالت میں اسکی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی.صبح کاوقت لوگ باگ اپنے دفتروں کو جاچکے ہوتے ہیں اسلئے کسی کو اسکے بارے میں پتہ ہی نہ چلا. اتفاق سے ایک شخص کا گزر سیڑھیوں کے پاس سے ہوا تواس نے اسے بے حس و حرکت پڑے ہوئے دیکھا تو پولس کو فون کیا . پولس اورایمبولنس آئی تو پتہ چلا کہ وہ انتقال کر چکا ہے.
اس کے اہل خانہ نے بتایا کہ اسے کبھی پہلے دل کا دورہ نہیں پڑا تھا اور نہ ہی کبھی دل کی کسی تکلیف کا ذکر کیا تھا. اور یہ کہ رات کو اچھا خاصہ بیٹھا بات چیت اور ہنسی مزاق کر رہا تھا. اب سوچئے کہ کیا اسکے وہم وگمان میںیہ با ت ہوگی کہ آنے والی رات وہ اس دنیا کی رونقوں کودیکھنے کے لئے زندہ نہیں ہوگا.اسکی عمر بھی زیادہ نہیں تھی غالبا چالیس اکتالیس سال کا ہوگا. اس قسم کے واقعات آجکل روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں اسلئے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے کہ کون جانے کل ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہو جائے اور ہمیں توبہ کا موقع بھی نہ مل پائے. اسلئے اللہ رب شانہ کے حضور یہ دعا ہے کہ ہمیں غفلت کی نیند سے بیدار کرے اور زندگی کا ہر لمحہ اپنی فرماں برداری اور عبادت اور ذکر واذکار میں بسرکرنے والا بنا دے ، آمین ۔
مزید یہ کہ اس کہانی کے راوی کی مانند کوئی یتیم بچہ اگر کسی کی زیرِ کفالت ہو تو انہیں چاہئے کہ اسکا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھیں. اسکے ساتھ اچھا سلوک رواں رکھیں اسکی تعلیم وتربیت صحیح اسلا می خطوط پر کریں اور اسے معاشرے کا اچھا شہری بنائیں. اگر وہ بچہ یا بچی انکی اچھی تربیت کے باعث اچھے مسلمان بنے تو انکے لئے صدقہ جاریہ بنیں گے اور اگر انکے خراب روئے کی وجہ سے وہ اس کہانی کے کردار کی طرح معصیت بھری زندگی کا شکار ہوگئے تو انکے برے اعمال کی سزا انکو بھی ملے گی جو انہیں برائی کی راہ پر لانے کا سبب بنیں گے. اسلئے یتیم بچوں کی اپنے بچوں کی طرح تعلیم وتربیت کریں تاکہ اللہ کے ہاں اجر وثواب کے مستحق قرار پائیں.