گوگل کی روبوٹ کاریں امریکی سڑکوں پر
گوگل کی روبوٹ کاریں امریکی سڑکوں پر
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق آج کل کیلی فورنیا کی سڑکوں پر آزمائشی بنیادوں پر روبوٹ تکنیک سے چلنے والی سات کاریں محوِ سفر ہیں۔ یہ کاریں گزشتہ ایک برس کے دوران دو لاکھ پچیس ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکی ہیں۔
انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل کے اِس منصوبے کا مقصد ایسی کاریں تیار کرنا ہے، جو کسی انسانی مداخلت کے بغیر خود بخود ڈرائیو کر سکیں۔ یہ کاریں تیار کرنے والے ماہرین کے خیال میں انسانوں کی ڈرائیو کی ہوئی کاروں کے انسانوں پر چڑھ دوڑنے کا امکان تو زیادہ ہو سکتا ہے تاہم یہ روبوٹ کاریں پیدل چلنے والے انسانوں کے لئے کہیں کم خطرناک ثابت ہو رہی ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ ان تجربات کے لئے چھ عدد ٹویوٹا پریئس کاروں کو بھی کیمروں، ریڈار سینسرز اور ماپنے کی تکنیک سے آراستہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے یہ کاریں معمول کی ٹریفک میں بھی بھیجی جا رہی ہیں۔ اب تک یہ کاریں سوا دو لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکی ہیں۔ اِس دوران ایسا کم ہی ہوا کہ کار کے اندر حفظ ماتقدم بیٹھے ہوئے ڈرائیور کو مداخلت کرنے کی ضرورت پڑی ہو۔ رپورٹ کے مطابق اِن کاروں نے سان فرانسسکو کی لومبارڈ سٹریٹ جیسی خطرناک اور بہت زیادہ موڑ رکھنے والی شاہراہ کو بھی بغیر کسی مشکل یا ناخوشگوار واقعے کے عبور کیا ہے۔
اِس آزمائشی منصوبے میں شریک سائنسدانوں کے مطابق کمپیوٹر تکنیک سے چلنے والی گاڑیوں کے بے شمار فوائد ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انسانی ڈرائیوروں کے مقابلے میں کمپیوٹر پروگراموں سے آراستہ روبوٹ کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں مصنوعی ذہانت کے شعبے کے ماہر جرمن پروفیسر سیباستیان تھرون بتاتے ہیں کہ یہ روبوٹ 360 ڈگری تک یعنی چاروں طرف کی ٹریفک پر نظر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ انسانوں کے برعکس روبوٹ کبھی بھی ایسی حالت میں سڑکوں پر نہیں آئیں گے کہ وہ تھکے ہوئے ہوں، اُن کی توجہ بٹی ہوئی ہویا اُنہوں نے نشہ کر رکھا ہو۔
بغیر ڈرائیور والی یہ کاریں ماحول دوست بھی ہوں گی۔ چونکہ اُن کے کسی حادثے میں ملوث ہونے کا امکان کم ہو گا، اِس لئے اُنہیں ہلکے مٹیریل سے تیار کیا جا سکے گا اور یوں وہ کم ایندھن استعمال کریں گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ سڑکوں کی گنجائش دوگنا ہو جائے گی کیونکہ جلد رد عمل ظاہر کرنے والے کمپیوٹر پروگراموں کی وجہ سے اگلی اور پچھلی گاڑی کے درمیان زیادہ حفاظتی فاصلہ رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
اگرچہ اِن گاڑیوں کے تجربات بہت کامیاب جا رہے ہیں تاہم بہت جلد بھی ہوا تو کہیں آٹھ سال تک یہ گاڑیاں اِس قابل ہو سکیں گی کہ اِنہیں زیادہ بڑی تعداد میں تیار کیا جا سکے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو ڈی