URDUSKY || NETWORK

صرف پاکستان میں نہیں….دنیابھرمیں ایک ارب افراد صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں م

203

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم

چلو!ملک میں صحت عامہ کے مسلے سے حکمرانوں کی جان توچھوٹی جودنیاکو دکھاو ¿ے کے لئے ہی صحیح مگر اِن کے لئے کسی حد تک ضرور دردِ سر بناہواتھا اور مجھے یہاں کہنے دیجئے !کہ اَب ہمارے حکمرانوں کو اپنے عوام کے لئے صحت عامہ کی سہولیات باہم پہنچانے کے لئے کسی قسم کی فکر میں مبتلاہونے کی کوئی خاص ضرورت نہیں بلکہ اَب تو اِنہیںاپنے سینے چوڑے کر کے یہ کہناچاہئے کہ صحت عامہ کا مسلہ صرف پاکستان اور پاکستانی عوام ہی کا نہیں ہے بلکہ یہ مسلہ تواَب عالمی شکل اختیار کرگیاہے اِس لحاظ سے ہمارے حکمرانوں کو یہ حوالہ بھی ضرور دنیاچاہئے کہ ایک تازہ ترین خبر ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ اُو)کے ڈائریکٹر برائے ہیلتھ سسٹم ڈیوڈایوین نے ڈبلیو ایچ اُو کی فنانشل ہیلتھ سسٹم پر اپنی ایک عالمی رپورٹ جاری کی ہے جس میں اِن کا واضح اور برملا کہناہے کہ کم آمدنی والے ممالک سے وابستہ لگ بھگ 35فیصد افراد کی آمدنی انتہائی قلیل(کم)اورعوام غریب ہے جو کسی بھی لحاظ سے مہنگے ہی کیا ….بلکہ سستے ترین بھی طبی اخراجات قطعاََبرداشت نہیںکرسکتے یااُن ممالک کا ہیلتھ بجٹ اپنے دیگر ضروری اخراجات کے مقابلے میں انتہائی محدود ہے اِسی وجہ سے دنیاکے میں تقریباایک ارب افرادبنیادی طبی سہولیات سے محروم ہیںاِن کا کہناہے کہ دنیابھر کے ایسے ممالک کے نادار مریضوں کو فوری طور پر بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے عالمی سطح پر نہ صرف فنڈزریزنگ کرناہوگی بلکہ اِس سلسلہ میں حائل مالیاتی تمام رکاوٹوں کے خاتمے کے لئے بھی ترجیحی بنیادوںپر اقدامات کرنے بھی ناگزیر ہیںاِس طرح ہم دنیابھر کے مریضوں کو بروقت طبی امداد اور ہیلتھ سروس مہیاکرسکیں گے یہاں میں یہ سمجھتاہوں کہ اِن ساری باتوں کے علاوہ عالمی اداردہ صحت (ڈبلیو ایچ اُو) کے ڈائر یکٹر برائے ہیلتھ سسٹم ڈیوڈ ایوین کا اپنی اِس رپورٹ میںیہ کہنا انتہائی حیران کُن اور تعجب انگیز تھا کہ”دنیابھر میں چاہے امیر ممالک ہوں یا غریب اِن میں مقیم تقریباایک ارب یا اِس سے زائد افرادایسے ضرورموجودہیںجو غربت کے باعث صحت کے حوالے سے آنے والے سستے اخراجات کو بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیںاور اِنہوں نے اپنی رپورٹ میں عالمی برادری کو خبردار کرتے ہوئے کہاکہ دنیا میںاتنی بڑی تعداد میں مریضوں کو بہتر اور سستی ترین طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے ٹھوس طبی اقدامات کا کیاجانابہت ضروری ہے اِس کے علاوہ ہم اِن مریضوں کو موت کے منہ میں جانے اور قبر کی آغوش میں سونے سے نہیں روک سکتے اور اُنہوں نے اپنی اِس رپورٹ میں پاکستان سمیت دنیا بھرکے دوسرے غریب اور ترقی پزیرممالک کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ ممالک اپنے دیگر اخراجات کو کم کرکے اپنے عوام کے لئے بہتر اور سستے ترین طبی سہولیات کے لئے اپنے صحت کے بجٹ میں اضافہ کریں تو ممکن ہے کہ دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں موجود اِن صحت کی سہولتوں سے محروم مریضوں کی تعداد کسی حدتک کم ہوسکے ۔
اَب اِس خبر کے بعد ہم آتے ہیں اپنے ملک پاکستان کی طرف جہاں کے عوام اپنے دیگر بنیادی حقوق سے محروم ہیں تو وہیں ہمارے عوام صحت و معالجہ کی بنیادی سہولتوں سے بھی کنگال نظر آتے ہیںاوراِس میں کوئی شک نہیںکہ پاکستان میں عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم کرنے اور رکھنے کا یہ عمل کوئی نیانہیں ہے بلکہ اگر یوں کہاجائے کہ گزشتہ 62یا63سالوں کے دوران ہر دورِحکومت میں حکمرانوںنے دانستہ طور پر اپنے عوام کو صحت، تعلیم، خوراک اور توانائی سمیت دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم رکھ کر ،ناصرف اپنے عوام کو ہی دھوکہ دیاہے بلکہ ہر دورِ میں آنے والے ایک سے ایک تونگر حکمران نے عالمی برادری کو بھی اپنے عوام کے بنیادی حقوق دینے کے خاطر اِس سے اربوںاور کھربوںکی امداد اور قرضے مانگ کر اِسے بھی خُوب بیوقوف بنایااور اِسے دھوکہ دیاہے توکوئی غلط نہ ہوگااور اِس کے ساتھ ہی مجھے یہاںیہ بھی کہنے دیجئے کہ یہ سلسلہ ابھی یہیںختم نہیںہوگیاہے بلکہ ہنوزجاری ہے اور اِتفاق سے آج کے حکمرانوں نے بھی عالمی برادری کو اِس حوالے سے چکمہ دینے اور اِنہیں بے وقوف بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور آج یہی وجہ ہے کہ ملکِ خداداد ِ پاکستان کے غریب اور محنت کش سترہ کروڑعوام اپنے حکمرانوں کی ہیراپھیری اور سازشی ذہانت کی وجہ سے اپنی صحت،تعلیم،خوراک اور توانائی سمیت بہت سی بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔اور اِن حالات میںآج جب پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں سے یہ سوال کرتی ہے کہ آخر کب تک ہم کسمپرسی اور اپنے حقوق کے بغیراپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور رہیں گے….؟اور کب ہمیں ہمارے بنیادی حقوق دیئے جائیں گے ….؟تو حکمرانوں کے پاس اِس کا نہ تو کوئی مناسب جواب ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ٹائم فریم کہ وہ اِس سے اپنے اِن مجبور اور بےکس و مفلوک الحال عوام کو کسی بھی طرح سے مطمئن کرسکتے ہیںاور نہ اِن کے پاس اَب تک کوئی ایسا منصوبہ ہے کہ جس سے یہ اپنے عوام میں ذراسی اُمیدکی کوئی کرن پیداکرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں ۔
اگر چہ دوسری طرف یہ بھی ایک کُھلی حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں اِس سارے عرصے کے دوران اِتفاق سے کوئی بہتر حکومت اپنے اچھے( عوامی فلاح وبہبود اور عوام کے بنیادی حقوق صحت ،تعلیم ، خوراک اور توانائی سمیت )اور بہت سے دوسرے منصوبوں کے ساتھ کبھی آبھی گئی تھی تو اِسے بھی سیاسی اور ذاتی چپقلش کی وجہ سے اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اِس کی مثال یہ ہے کہ کبھی کسی طاقتور آمرنے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث اِس حکومت کی دُکان جلد سمیٹ دی تو کبھی اِسے خُود اپنی ہی اپوزیشن اوراپنے اردگرد منڈلاتے سازشی سیاستدانوں کی سازشوں کی نذرہوناپڑا اوریوں وہ اپنے تمام منصوبوں کو بغل میں دباکررفوچکرہوگئی۔
جس پر یہ شعر صادق آتاہے کہ
خُود نہ ہو جب تک حکومت تندُرست  تندُرستی قوم کی دشوارہے
ہم سے بیماروں کی کیاہو گی شِفا ؟   شُعبہ صحت ہی خُود بیمارہے
بہرحال ! پاکستان میں تو روز او ¿ل ہی سے ہر دورِ حکومت میں شُعبہ صحت بیمار رہاہے تو یہ اپنے عوام کی صحت و تندُرستی کا کیا خیال رکھتااور موجودہ حکومت میں اِس شعبے کے حالات بھی کچھ اچھے دکھائی نہیںدے رہے ہیں تو یہ شُعبہ اپنے عوام کے لئے کیاخدمات انجام دے گا۔سِوائے اِس کے کہ اَب ہمارے حکمران بھی اِس خوش فہمی میںمبتلا ہوجائیں کہ صحت عامہ کا مسلہ صرف پاکستان ہی کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا ایک عظیم مسلہ بن چکاہے اورہم اپنے عوام کے لئے اِس حوالے سے کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔