NDM-1 دنیا کے لئے ایک نیا خطرہ
NDM-1 دنیا کے لئے ایک نیا خطرہ
طبی ماہرین کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق ایسے افراد جنہوں نے جنوبی ایشیا سے پلاسٹک سرجری کروائی وہ ایک انتہائی خطرناک ‘نیودہلی میٹالوبِیٹا لیکٹامیز1’ نامی جین کے حامل بیکٹیریا کو دنیا بھر میں پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
‘نیودہلی میٹالوبیٹا لیکٹامیز1’ یا NDM-1 نامی جین کو دراصل گزشتہ برس پہلی مرتبہ کارڈف یونیورسٹی کے محقق ٹموتھی والش نے دریافت کیا تھا۔ یہ جین دو طرح کے بیکٹیریا،کلیبسیالا نمونیا (Klebsiella pneumoniae) اور ایشریکیا کولائی (Escherichia coli) میں پایا گیا۔ یہ بیکٹیریا سویڈن کے ایک ایسے باشندے میں دریافت ہوا تھا جو بھارت کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج رہا تھا۔
خطرناک بات یہ ہے کہ NDM-1 کے حامل بیکٹیریا پرایسی اینٹی بایوٹیک ادویات کا ایک گروپ کارباپینیمز(carbapenems) بھی اثرنہیں کرتا جو عام طور پرایسی بیماریوں کے علاج کے طور پر ایمرجنسی صورتحال میں استعمال کیا جاتا ہے، جن پر دیگرادویات کارگر نہ ہوں۔
تازہ تحقیق کارڈف یونیورسٹی کے محقق ٹموتھی والش اور مدراس یونیورسٹی کے محقق کارتھیکیان کماراسامی کی مشترکہ کاوش ہے۔ محققین نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ بھارت اور برطانیہ میں NDM-1 کے حامل بیکٹیریا کس قدرعام ہیں۔
ہریانہ میں جن افراد کے ٹیسٹ کئے گئے ان کے ڈیڑھ فیصد میںNDM-1 بیکٹیریا پائے گئے.
دوران تحقیق انہوں نے مختلف ہسپتالوں میں ایسے افراد کے ٹیسٹ کئے جن میں اس طرح کی علامات موجود تھیں۔ ہریانہ میں جن افراد کے ٹیسٹ کئے گئے ان کے ڈیڑھ فیصد میں یہ بیکٹیریا پائے گئے اور ان کی تعدد 44 بنتی تھی جبکہ چنئی میں NDM-1 بیکٹیریا کے حامل 26 ایسے مریض ملے جو کہ کل ٹیسٹ شدہ مریضوں کا آٹھ فیصد بنتے تھے۔ اسی طرح برطانیہ میں بھی 37 افراد میں یہ بیکٹیریا پایا گیا۔ یہ وہ افراد تھے جنہوں نے حال ہی میں بھارت یا پاکستان سے کاسمیٹک سرجری کروائی تھی۔
ایک برطانوی تحقیقی جریدے ‘The Lancet’ میں چھپنے والی اس تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت یورپی اور امریکی باشندوں کو کاسمیٹک سرجری کی سہولیات مہیا کرتا ہے، اس لئے NDM-1 کے پوری دنیا میں پھیل جانے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، "خطرناک بات یہ ہے کہ NDM-1 دراصل ڈی این اے کے ایک ایسے ڈھانچوں پر پایا گیا ہے جسے پلاسمِڈز کہا جاتا ہے اور یہ آسانی سے ایک قسم کے بیکٹیریا سے دوسری قسم کے بیکٹیریا میں منتقل ہوسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کے پھیلاؤ کے امکانات بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔”
محققین کے اس خدشے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصوں میں روزانہ لاکھوں افراد کے فضائی سفر کے دوران کسی قسم کی بیماری کی کوئی جانچ یا ٹیسٹ نہیں کئے جاتے لہذا NDM-1 کا تیزی سے ایک ملک سے دوسرے اور ایک براعظم سے دوسرے میں منتقلی نہایت آسان ہے۔
کینیڈا کی کیلگری یونیورسٹی کے محقق یوہان ِپٹ آؤٹ کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جو بھارت میں کسی قسم کا بھی علاج کروائیں ان کی اپنے ملکوں میں واپسی پر اس طرح کے بیکٹیریا کی موجودگی جاننے کے لئے مکمل ٹیسٹ کئے جانے چاھییں۔
بشکریہ DW