۔۔۔نالہ بے باک ۔۔۔
طارق حسین بٹ( چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم)
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نواز شریف کے اس بیان کے بعد جو انھوں نے سیفیا سے خطاب کرتے ہوئے دیا ہے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ تاریخی ریکارڈ کی درستگی کے لئے تحریکِ پاکستان کے اہم گوشوں سے نقاب اٹھا کر انھیں سپردِ قلم کیا جائے تا کہ کسی کو شک و شبہ کی مطلق کوئی گنجائش باقی نہ رہے کہ کہ مملکتِ خداداد کا قیام زمین پر لکیریں کھینچنے کا عمل نہیں تھا۔ یہ کوئی ظاہری لباس اور خوردو نوش کا مسئلہ بھی نہیں تھا۔اس میں رشتے داریوں اور دوستیوں کا بھی کوئی کردار نہیں تھا ۔اس میں علاقائی سوچ اور رسم و رواج کا بھی کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔ اس میں زبان کی یک جائی کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی اس میں تجارت اور کارو باری مفادات کا کوئی شائبہ تھا بلکہ قیامِ پاکستان ایک فکر، سوچ اور نظریے کی جنگ تھی جسے تا ئیدِ ایزدی حاصل تھی کیونکہ تائیدِ ایزدی کے بغیر تنہا اتنی بڑی جنگ کو جیتنا ناممکنات میں سے تھا۔ میاں صاحب آپ بڑے شوق سے آلو گوشت کھائیں گھیا گوشت سے لطف اندوز ہوں لیکن تحریکِ پاکستان کو مسخ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ آپ ایک سیاست دان ہیں لہذا سیاست دان ہی رہیں دانشور بننے کی کوشش نہ کریں کیونکہ دانشوری آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی خالق جماعت کے پلیٹ فارم سے ان کے حالیہ ارشادت نے محبِ وطن پاکستانیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میاں صاحب کو خبر ہونی چائیے کہ قیامِ پاکستان تاریخِ اانسانی کا سب سے منفرد واقع ہے لہذا اسے کٹ حجتیوں کی نذر نہ کیا جائے۔میں تو جب کبھی بھی برِ صغیر میں تحریکِ آزادی کے پسِ منظر میں عوام کے فلک شگاف نعروں،جذبوں ، جدو جہد اور بیش بہا قربانیوں کے بیچ آزادی کے سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں تو دم بخود رہ جاتا ہوں کہ ایک نخیف و لاغر اور دبلا پتلا سا انسان جس کے پاس مال و دولت کے انبار نہیں تھے، جس کے پاس ذات برادری کا کوئی مضبوط جتھہ نہیں تھا جس کے پاس اسلحہ کے ڈھیر اور فوجی قوت نہیں تھی اور جس کی مخالفت پر برِ صغیر پاک و ہند کے سبھی قابلِ ذکر حلقے کمر بستہ تھے کیسے قیامِ پاکستان کے معجزے کو سر انجام دے گیا؟
قائدِ اعظم کے پاس نظریے کے ساتھ ساتھ بلا کی قوتِ برداشت تھی۔ قائدِ اعظم نے مخالفین کی تراشید ہ پگڈنڈ یوں میں کھو جانے اورا نکے اٹھا ئے گئے سوالات و الزامات میں الجھنے کی بجائے اپنے حدف پر نگاہیں مرکوزرکھیں تھیں اور اپنے مخالفین کی ہرچال، اور اعتراض کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مقصد کے حصول کو اپنا زندگی کا مشن بنا لیاتھا۔اپنی فہم و فراست، عوام کی محبت اور خدا کی نصرت یہی تو اس کا کل اثاثہ تھے جسکی قوت پر اس نے تار یخِ ا نسانی میںآزادی کی خاطر ایسی پر امن جنگ لڑی کہ زمانہ عش عش کر اٹھا۔ اس نے پر تشدد سیاست کی راہ کو کبھی نہیں اپنایا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ساری سیاسی زندگی میں ایک دن کیلئے بھی جیل میں نہیں گیا۔ سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس نے یہ جنگ دنیا کے اس خطے میں لڑی جو جنگ و جدل، ا کھاڑ پچھاڑ ، توہمات، مذہبی شدت پسندی اور تقسیمِ ذات پات کی کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اور باعثِ اطمنان ہے یہ امر کہ اس نے اپنی سیاسی جدو جہد میں ان سارے عوامل کی نفی کر کے اپنے ھدف کو حاصل کیا۔ خالص سیاسی ،آئینی اور قانونی جنگ جس میں دانش اور بصیرت راہیں تراشتی چلی گئی اور عوام کو اپنے موقف پر قائل کرتی چلی گئی ۔قیامِ پاکستان انسانی دانش کا لاجواب شاہکار ہے۔ اقبال و قائد کی دانش ۔ فکر کی دانش عمل کی دانش اور اس مشترکہ دا نش سے جنم لینے والی عظیم مملکت کا نام ہے پاکستان۔۔۔
موجودہ دور جمہوری قدروں کا دور ہے جس میں اکثریت کو ہی ہر قسم کے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہو تا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مذہبی صداقت ، طاقت یا شمشیر زنی کے زور پر اقلیت اکثریت پر اپنے فیصلے مسلط کر نے کی کسی نئی جمہوری روائت کا سلسلہ شروع کر دے۔ بادشاہوں، سرداروں اور جرنیلوں کا ایک دور تھا جو لدھ چکا جس میں فیصلے تلوار کی نوک اور قوت کی بنیا دپر کئے جاتے تھے لیکن جدید دور میں جمہو ری قدرں نے اسطرح کی ہر سوچ کا قلع قمع کر کے پارلیمنٹ کو سارے فیصلوں کا حق تفویض کردیا ہے۔ آج کے دور میں عوامی ووٹ سے قائم ہونے والی پارلیمنٹ ہی قوت کا سر چشمہ ٹھہری ہے لہذا جو جماعت اور گروہ پارلیمنٹ میں اپنی عددی اکثریت رکھتا ہے فیصلے کرنے کی قوت بھی اسے ہی حاصل ہوتی ہے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ پارلیمنٹ میں کوئی جماعت اقلیت میں ہو لیکن اپنی ھٹ دھرمی کی وجہ سے اس بات پر بضد ہو کہ چونکہ وہ حق کی علمبردار اور سچائی کی نقیب ہے لہذا سارے فیصلے اسی کی ہیش کردہ سوچ اور فکر کے مطابق ہونے چائیں۔اس طرح کی غیر جمہوری سوچ کی حامل جماعتوں کو حسبِ منشا سوچنے کا حق توضرور حاصل ہوتا ہے لیکن وہ اپنی اس سوچ کو حقیقت کا جامہ نہیں پہنا سکتیں کیونکہ پارلیمنٹ میں ان کے پاس عددی اکثریت نہیں ہوتی اور فیصلے خواہشوں کے بل بوتے پر نہیں بلکہ اکثریت کی بنیادوں پر رو بعمل ہوتے ہیں ۔ اس طرح کی سطحی سوچ اور اندازِ فکر والی جماعتوں اور گروہوں کی فیصلہ سازی میں کوئی آواز اور اہمیت نہیں ہوتی لہذا ان کی ہار یقینی ہو تی ہے۔ مسلمانوں کی اقلیتی آواز کی اسی ہار کو فتح میں بدلنے کا نام پاکستان ہے جسکی خشتِ اول اقبال نے اپنی بے مثال فکر پر رکھی اور جسے قائدِ اعظم نے ا پنی فقید ا لمثال جدو جہد سے ممکن بنا دیاتھا وگرنہ آج بودیوں والے ہمیں ذلیل و خوار کر رہے ہوتے اور ہم بندے ماترم گا رہے ہوتے۔
جمہوریت کے اندر پوشیدہ فیصلہ سازی کی اس روح کو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے کمال دانشمندی ،ہوشمندی اور ذہانت سے بھانپ لیا تھا لہذا اسے نظر آنے لگا تھا کہ نئے جمہوری نظام کے تحت بر صغیر پاک وہند میں مسلم قوم اپنا تشخص کھو بیٹھے گی اور ہندو غلبے کے اندر اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور مسلمان قوم اپنی ساری توانائیاں اپنی بقا کی جنگ کی نذر کر دے گی۔مذہب پرست طبقے مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کا استحصال کریں گے اور انھیں ہمیشہ مذہبی تنازعوں میں الجھا کر اپنے مفادات حاصل کرتے رہیں گے اور عوام کے ہا تھ محرومیوں کے سوا کچھ نہیں آئے گا ۔ تاریخ اور فلسفے کے عظیم دانشور کی حیثیت سے علامہ اقبال کو علم تھا کہ بر صغیر پاک و ہند میں ہندو مت نے جو سلوک دوسرے مذاہب کے ساتھ روا رکھا تھا اور جس طرح ان مذاہب کی پہچان کو مختلف حربوں سے ختم کیا تھا اسلام کے ساتھ وہ ایسا ہی کوئی سلوک روا رکھ کر اس کی بیخ کنی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرے گا ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو علم تھا کہ موجودہ جمہوری رویوں کے پیشِ نظر بر صغیر پاک و ہند میں مسلمان کبھی بھی اقتدار کی مسند پر نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ مسلمان کل آبادی کا صرف پچیس فیصد ہیں لہذا اقلیت میں ہوتے ہوئے مکمل اقتدار ایک خواب کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ اقلیت میں ہونے کے سبب وہ ملکی معاملات اور قوانین سازی میں کوئی بھی کردار ادا کرنے سے محروم رہیں گئے۔ ہندو چونکہ کثریت میں ہیں لہذا اقتدار پر انکی گرفت ایک حقیقت ہے ۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مسلمانوں میں میر جعفر اور میر صادق تو ہمیشہ سے موجود رہے ہیں لہذا وہ قومی مفادات کا سودا کر کے کانگریس کی کاسہ لیسی اختیار کر لیں گے اور یوں مسلمان مزید اقلیت میں بدل کر کمزور تر ہو جائیں گیاور انگریز کی غلامی کے بعد ہندو کی غلامی میں چلے جائیں گے جس سے مسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہو جائے گا۔ علامہ اقبال کی یہ سوچ اس وقت سچ ثابت ہوئی جب ۱۹۴۶ کے انتخابات میں مسلم لیگ نے تاریخی کامیابی حاصل کی لیکن پنجاب میں یونینسٹ پارٹی اور سرحد میں سرخ پوش راہنما خا ن عبدالغفار خان کی جماعت نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کر کے مسلم لیگ کو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا لہذا ا س المیےِ خفت اور بے بسی اور رسوائی سے بچنے کیلئے کسی ایسی راہ کو تلاش کرنا ضروری تھا جس سے برِ صغیر کے مسلمانوں کا مقدر محفوظ ہو جائے اور اسلام کی عظمت اور حر مت بھی برقرار رہے ۔ علیحدہ اسلامی مملکت کا قیام ہی وہ راہ تھی جو مسلمانوں کے مستقبل کو محفوظ کر سکتی تھی اور یہی فکرِ اقبال کا ماحصل تھا۔
اس دور میں مہ اور ہے جام اور ہے جم اور۔ساقی نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور۔۔تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور ( ڈاکٹر علامہ محمد اقبال )
یہ تھی وہ بنیادی فکر اور سوچ جس کی بنیاد پر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ۱۹۳۰ میں الہ آباد کے مقام پر اپنا تاریخی خطبہ دیا اور اور ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا تصور پیش کر کے آنے والے وقتوں کے لئے جدوجہد کی ٹھوس بنیادیں رکھ دیں۔ اس وقت تو اس خطبے کو شاعر کی موشگافیاں اور ایک فلسفی کا دماغی خلل ہی قرار دیا گیا اور ایسا ہونا بھی چائیے تھا کیونکہ اس نے جو اچھوتا تصور پیش کیا تھا اس زمانے کے حالات و واقعات کے پیشِ نظر لوگوں کیلئے اس طرح کی سوچ کا تصور کرنا بھی محال تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب انگریز کے اقتدار کا سورج پورے نصف ا لنہار پر پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اور جس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہو تا تھا۔ مشرق و مغرب میں ہر سو اس کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا اور وہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور کی مسند پر جلوہ افروز ہو کر پوری دنیا کے فیصلے صادر کر رہا تھا ۔ان انتہائی جان لیوا حالات میں جب مسلمانوں کو ا پنی جان کے لالے پڑے ہو ئے تھے اور وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے الہ آباد کے جلسے میں ایک دانشور ببانگِ دہل علیحدہ اسلامی ریاست کا تصور پیش کر کے سب کو حیران کر دیتا ہے ۔ اسے اپنی فکر پر اتنا یقین تھا کہ وہ بر ملا کہتا ہے کہ یہ ریاست جس کا میں تصور پیش کر ہا ہوں کو ئی خواب نہیں ایک حقیقت ہے اور میں اسے قائم ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور دنیا کی کوئی طاقت اسے قائم ہونے سے روک نہیں سکتی۔افسوس صد افسوس کے آج میاں محمد نواز شریف یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہم ایک ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیاں کھینچی گئی لکیروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے حالانکہ تاریخ ہمیں بتا تی ہے کہ ہم کبھی بھی ایک نہیں تھے۔ ۔
عزیز انِ من سوچئیے کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے علیحدہ اسلامی مملکت کے تصور نے کیسے کیسے گروہوں کے مفادات پر کاری ضرب لگائی ہو گی اور ہندوستان کی وہ اکثریت اور گروہ جو ہمیں اپنا غلام بنانے کا خواب دیکھ رہے تھے انھیں کتنی تکلیف پہنچی ہو گی لہذا ان سب گروہوں کا ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو مجذوب کہنا اور اس کے تصور کی مخالفت کرنا سمجھ میں آتا ہے۔ شکار ہاتھ سے نکل جائے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے اور یہاں تو پوری مسلمان قوم ہاتھ سے نکل رہی تھی لہذا ہندو تلملا رہا تھا ۔لیکن کتنا باجرات تھا تصورِ پاکستان کا خالق جو ساری مخالفت کے باوجود اپنی دھن میں اس تصور کو اپنی شاعری کے ذریعے نکھارتاچلا گیااور قوم کو اس مملکت کے لئے ذہنی طور پر تیار کرتا چلا گیا۔ وہ انھیں باور کراتا رہا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں کوئی خواب نہیں ہے بلکہ حقیقتت ہے۔ خدا کے لئے خوابِ غفلت میں سونے والو آنکھیں کھولو اور ہوش میں آؤ کیونکہ تمھارا مستقبل اسی پیش کردہ علیحدہ اسلامی ریاست میں ہی محفوظ ہے لہذا اس تصور کو اپنا مقصدِ حیات بنا ڈالو نہیں تو سب کچھ طو فا نوں کی نذر ہو جائے گا اور تمھاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں (جاری ہے)
حادثہ وہ جو ابھی پردہِٗ افلاک میں ہے۔۔ عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے
نے ستارے میں نے گردشِ افلاک میں ہے۔۔ تیری یقدیر میرے نالہِ بے باک میں ہے ( ڈاکٹر علامہ محمد اقبال )