URDUSKY || NETWORK

پاکستان کا فلڈ وارننگ سسٹم

97

پاکستان کا فلڈ وارننگ سسٹم

پاکستان میں ایک طرف گزشتہ قریب ایک صدی کے بدترین سیلاب سے نمٹنے اور بین الاقوامی امداد کے حصول کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری جانب اس تباہی سے بچنے کے لئے وارننگ سسٹم کی عدم موجودگی پر گرما گرم بحث بھی جاری ہے۔
محکمہء موسمیات کے حکام کے مطابق ان کے پاس موسمیاتی پیشین گوئیا‌ں کرنے اور دریائی سیلابوں سے قبل از وقت خبردار کرنے کا نظام تو موجود ہے۔ تاہم ان حکام کے مطابق انہیں مقامی سطح پر نہروں اور ندی نالوں میں آنے والے تیز رفتار سیلابوں کی قبل از وقت اطلاع دے سکنے کا نظام انتہائی محدود پیمانے پر میسر ہے۔
پاکستانی محکمہء موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل قمرالزمان چوہدری کے مطابق مقامی سطح پر سیلاب کی آمد کی قبل از وقت اطلاع دینے کا نظام حکومت جاپان کی معاونت سے پورے پاکستان میں صرف راولپنڈی میں نالہ لئی کے مقام پر نصب کیا گیا ہے، جو بقول ان کے بہت اچھی طرح کام کر رہا ہے۔
قمرالزمان چوہدری نے کہا: ’’’ملک کے اور بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں تیز رفتار سیلاب آتے ہیں۔ ان علاقوں میں مردان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، سوات، چترال اور بلوچستان کے کئی علاقے شامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ راولپنڈی میں نصب کیا گیا نظام ان علاقوں تک بھی پہنچایا جائے۔‘‘
دوسری جانب تجزیہ نگار مقامی سطح پر سیلاب سے خبردار کرنے کے نظام کی عدم تنصیب کو حکومت کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت قرار دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق پاکستان کا بجٹ بنانے والوں کی ترجیح کبھی بھی ایسے امور نہیں رہے، جو کسی قدرتی آفت سے نمٹنے کی پیشگی اطلاع کے نظام سے متعلق ہوں۔
ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا: ’’ایک مہینے میں وزیراعظم کے بیرونی دوروں پر دس کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ لیکن قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے قائم کردہ قومی ادارے NDMA کا سالانہ بجٹ بھی صرف دس کروڑ روپے ہے۔ اگر اس کا موازنہ ایوان صدر کے اخراجات سے کیا جائے تو NDMA کو روزانہ تین لاکھ روپے ملتے ہیں جبکہ ایوان صدر پر یومیہ10 لاکھ روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔‘‘
ایک اور تجزیہ نگار کامران شفیع سیلاب سے نمٹنے کے لئے وفاقی اور صوبائی محکموں کے درمیان رابطوں کے فقدان کو بھی معاملات کی خرابی کی ایک بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔
بشکریہ DW