قدرتی گیس، آبی ذخائر اور آلودگی
عبدالجلیل منشی ۔ کویت
سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی جہاں انسانوں کے لئے بے پناہ آسائشیں اور سہولیا ت کا سامان فراہم کر رہی ہیں تو وہیں انسانوں کے لئے نئے مسائل اور نت نئی بیماریوں کو پیدا کرنے کا بھی سبب بن رہی ہےگزشتہ دہائیوں میں ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک نے زیر سمندر اور زیر زمین جو ایٹمی تجربات کئے ہیں انکے نتیجے میں زمین کی سطح کے نیچے واقع ٹیکٹونک فالٹس میں شدید ٹوٹ پھوٹ واقع ہوئی ہے اور مسلسل ہورہی ہے جسکے نتیجے میں آج کے دور میں شاید ہی ایسا کوئی دن جاتا ہو جب ہمیںدینا کے کسی نہ کسی ملک میں آنے والے زلزلے کی خبر نہ ملتی ہوروزانہ ہی دنیا کی کسی نہ کسی گوشے سے مختلف درجوں کے زلزلوں کی آمد کی اطلاعات اک تسلسل سے موصول ہورہی ہیں
دفاعی لیبارٹریوں میں تیار کی جانے والی بےشمار حیاتیاتی گیسوں اور ہتھیاروں کے سبب بھی ایسی بےشمار بیماریاں عالم وجود میں آکر بنی نوع انسان کی تکلیف اور تباہی کا سبب بن رہی ہیں جن کے بارے میں ماضی میں کبھی سنا بھی نہ تھازرعی شعبوںمیں کیمیائی کھاد کے استعمال سے فصلیں جلد تیار ہوجاتی ہیں اور اناج ،سبزیوں اور پھلوںکی پیداوار پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے مگر کھاد میں موجود کیمیائی اجزاءکے زریعے غیر فطری طریقہ سے زیادہ پیداوار کے حصول کے لالچ نے غذا میںموجودانسانی جسم کو قوت دینے والے قدرتی اجزاءمیں کمی پیدا کردی ہے جسکے باعث آج کے انسان میں قوت مدافعت کی کمی واقع ہورہی ہے اور وہ نت نئی بیماریوں کابآسانی شکار بن رہا ہے
اسی طرح دودھ دینے والے جانوروں کو ایسے انجکشن لگائے جارہے ہیں جن کی وجہ سے انکے جسم میں دودھ کی پیدائش میں غیر فطری اضافہ ہورہا ہے اور وہ زیادہ دودھ دینے لگے ہیں مگر کیمیائی اجزاءسے مرکب یہ دودھ انسان کو طاقت و صحت عطاکرنے کی بجائے نقصان کا سبب بن رہا ہے علاوہ ازیں ایسے انجکشن بھی جانوروں کو لگائے جارہے ہیں جن کے باعث انکے جسم میں گوشت کی مقدار بھی غیر فطری انداز میں بڑھ جاتی ہے جانوروں کے تاجروں کو اس طریقے سے زیادہ پیسے مل جاتے ہیں مگر اس قسم کا گوشت استعمال کرنے والے نت نئی بیماریوں کا شکار ہوکردائمی مریض بن جاتے ہیں
پانی روئے زمیں پر انسانی، حیوانی اور نباتاتی حیات کی بقاءاور تسلسل کے لئے ایک بنیادی اور لازمی عنصر مانا جاتا ہے جن کے زخائر میں موجودہ دور میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے اور کہا جارہاہے کہ مستقبل میں دنیا میں جنگوں کا سبب پانی ہوگا اور وہی قوم خوشحال اور طاقتور سمجھی جائے گی جسکے پاس پانی کے وافر زخائر موجود ہونگےپاکستان اور ھندوستان کے درمیان کشمیر کا دیرینہ مسئلہ تو چل ہی رہا ہے مگرپانی کے تعلق سے موجودہ بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اب دونو ں ممالک کے درمیان پانی کے لے کر ایک نیامسئلہ پیدا ہوگیا ہے جسے حل کرنے کے لئے دونوںممالک کے درمیان مسلسل بات چیت کا عمل جاری ہے اوروہ مسئلہ بھارت کااپنی سرزمیں سے نکلنے والے ان دریاوں پر بندباندھ کر پاکستان کو اس پانی سے محروم کرنےکی مذموم سازش کے باعث پیدا ہواہے اور اگر بین الاقوامی تعاون سے یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو خدشہ ہے کہ یہ تنازع آئندہ پاک بھارت جنگ کا سبب نہ بن جائے اور دونوں ممالک اپنی اگلی جنگ کشمیر یا ممبئی جیسے دہشت گردی کے واقع کے سبب نہ لڑیں بلکہ بھارت کی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے نتیجے میں پاکستان میں متوقع پانی کے زخائر میں قلت دونوں ممالک کی افواج کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کر سکتی ہے
جہاں دنیا آنے والے دنوں میں پانی کی قلت کے خدشات کو لے کر پریشان ہے وہاں امریکہ میں زیر زمیں قدرتی گیس کی تلاش کرنے والی کمپنیوں نے زمیں کی تہہ میں موجود بچے کچے آبی زخائر کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے اور ان میں خطرناک گیسوں کی ملاوٹ کے باعث وہ انسانی استعمال کے لئے انتہائی ناموزوں اور خطرناک حد تک زہریلا ہوتاجارہا ہے اس سلسلے میں حال ہی میں سامنے آنے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں پہلی بار سائنسی بنیادوں پرایسے شواہد پیش کئے گئے ہیں جن سے پتہ لگا ہے کہ قدرتی گیس کے حصول کے لئے کی جانے والی ڈرلنگ کا موجودہ متنازع طریقہ کار زیر زمیں آبی زخائر کی آلودگی کا سبب بن سکتا ہے
گزشتہ پیر کو امریکہ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق شمال مشرقی پیننسلوانیا میں ان مقامات کے قریب جہاں گیس کی تلاش کے سلسلے میں ڈرلنگ ہورہی ہے واقع پانی کے کنوو¿ں سے لئے گئے نمونوں میں خطرناک حد تک میتھن گیس کی مقدار پائی گئی ہے جبکہ مرکزی نیو یارک سے لئے گئے نمونوں میں ایسا کوئی نشا ن نہیں ملا جہا ں نسبتا کم ڈرلنگ ہو رہی ہے
مگر غیر متوقع طور پر ڈیوک یونیورسٹی کے سائنسدانوں پر مشتمل ایک ٹیم کو پیننسلوانیا اور نیو یارک کی اوٹسیگو کاونٹی کے۸۶ (اڑسٹھ) کنووں سے لئے گئے نمونوں میں میتھن گیس کے علاوہ ایسی کسی دوسری گیس کا سراغ نہیں ملا جو زیر زمیں چٹانوں کو ہائیڈرولک نظام کے زریعے توڑنے کے عمل میں استعمال کی جاتی ہیں
اس عمل میں پانی، مٹی اور مختلف کیمیلز زیر زمیں داخل کئے جاتے ہیںتاکہ وہاں موجود سخت چٹانوں کو توڑ کر گیس حاصل کی جاسکے اس ٹیکنیک کی مخالفت کرنے والے ناقدین ان کیمیلز کی وجہ سے سخت تشویش مبتلہ ہیں جو اس عمل میں استعمال کی جاتی ہیں اور جنکے اجزائے ترکیبی سے متعلقہ کمپنیوں نے عوام الناس کو تاریکی میں رکھا ہوا ہے جن میں سے کچھ سخت زہریلے اثرات کے حامل ہوسکتے ہیں
نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے تحت شائع ہونےوالی اس رپورٹ کے مطابق وہ کنویں جو ڈرلنگ کے مقام سے ایک کیلومیٹرسے کم مسافت پر واقع ہیں ان میں میتھن گیس کی مقدار ان کنووں کے مقابلے میں ۷۱ (سترہ) گنا زیادہ پائی گئی ہے جو کھدائی کے مقام سے نسبتا زیادہ دوری پر واقع ہیں واضح رہے کہ میتھن زہریلی گیس کے طور پر نہیںجانی جاتی مگربیرونی طور پر اس کی زیادہ مقدار دہماکہ خیز ہوتی ہے اور انسانی جسم میں اسکی زیادہ مقدار پہنچنے سے متاثرہ شخص بےہوش ہوسکتا ہے اور اسکی موت بھی واقع ہوسکتی ہے
تمام۸۶ کنووں سے لئے گئے پانی کے نمونوں میں سے چودہ نمونوں میں میتھن گیس کی مقدارکوئلے کی کانوں کے زریعے پھیلنے والی ماحولیاتی آلودگی کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے کے قائم کردہ خطر ے کی حدکے اندر یا اس سے بڑھی ہوئی پائی گئی جن میں سے ایک نمونہ گیس کے کنوے کے قریب سے لیا گیا تھامگر اس تحقیق سے یہ بات ابتک واضح نہیں ہوسکی ہے کہ پانی میں پائی گئی میتھن گیس کی خطرناک مقدار ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی بن سکتی ہے یا نہیں
قدرتی طور پر میتھن گیس بیکٹیریا میں حیاتیاتی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میںخارج ہوتی ہے مگر تحقیق کاروں کے تجزئے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جس قسم کی میتھن گیس پانی کے کنووں میں بڑی مقدار میں پائی گئی ہے وہ زمین کی گہرائیوں میں ان مقامات سے پانی میں شامل ہورہی ہے جہاں گیس کی تلاش کرنے والی کمپنیوں نے ڈرلنگ کی تھی
میتھن گیس کی پانی میں موجودگی کا بدترین واقعہ پیننسلوانیاکی براڈفورڈکاونٹی میں واقع ایک گھر میں پیش آیا جسکی مالکہ نے اپنی جائیداد کا کچھ حصہ گیس کمپنی کو لیز پر دیا تھا اسکے گھر کے نلکوں سے آنے والے پانی میں اتنی زیادہ مقدار میں میتھن گیس شامل تھی کہ وہ اس پانی میں آگ لگا سکتی تھیقدرتی گیس کا کنواں اسکے گھر سے صرف ۰۰۸ (آٹھ سو) فٹ کی دوری پر واقع ہے
ڈیوک یونیورسٹی کے بین الاقوامی ماحولیاتی تبدیلی کے مرکز کے ایک ماہر اسٹیفن اوسبورن کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہیںہے کہ گیس کے کنووں سے ایک کیلومیٹر کے دائرے میں واقع ہر گھر کے نلکوں سے میتھن گیس کی بڑی مقدار پانی میں شامل ہوجائے ہاں اگرآپ کا گھر گیس کے کنووں یا گیس کی تلاش کے سلسلے میں ہونے والی ڈرلنگ کے مقام کے ایک کیلومیٹر کے دائرے میں واقع ہے اور اگر ہماری تحقیق کے مطابق آپ کے گھروں میں آنے والے پانی میں میتھن گیس کی بڑی مقدار برآمد ہورہی ہے تو پھر یہ امر یقینا کسی نہ کسی حد تک باعث تشویش ہوگا
میتھن گیس کی پانی میں موجودگی کے بارے میں کی گئی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات کلیتاواضح نہیں ہوسکی ہے کہ پانی کے وسائل میں میتھن گیس کس طرح داخل ہورہی ہے اور ڈرلنگ کا کونسا مرحلہ اس عمل میں معاون ثابت ہورہا ہے جبکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وہ کنویں یا پانی ذخائر جو ڈرلنگ کے مقام یا گیس کے کنووں کے قریب تر ہیں ان میں اس خطرناک گیس کی وافر مقدار منکشف ہوئی ہے اور بعض کنووں میں ۵۸ (پچاسی )فیصد سے بھی تجاوز کر گئی ہے
دوسری جانب گیس اور تیل کی تلاش کے شعبوں سے وابستہ صنعتوں کے گروپس نے اپنے دفاع میں اس تحقیق کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس تحقیق سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ ڈرلنگ کا عمل بذات خود پانی میں میتھن گیس کی موجودگی کا بنیادی طو ر پر ذمے دار ہے نہ ہی تحقیق کاروں نے ڈرلنگ کے عمل سے قبل یا بعد میں ایسے کوئی ٹیسٹ کئے ہیں جن سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچتی ہو کہ پانی میں میتھن گیس کی شمولیت ڈرلنگ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی ہے گروپس نے کہا ہے کہ تحقیق کار خود بھی اس شک میں مبتلہ ہیں کہ آیا میتھن گیس قدرتی گیس کے کنووں کے کناروں سے خارج ہورہی ہے یا پھر زمین کی گہرائیوں میں ڈرلنگ کے نتیجے میںبننے والے راستوں کے زریعے پانی میں شامل ہورہی ہے
” انرجی ان ڈیپتھ” جو کہ قدرتی گیس کی پیداوار کی صنعت سے وابستہ کمپنوں کا ایک اتحاد ہے اسکے ترجمان کرس ٹیوکرنے کہا ہے کہ تحقیق کار بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی ایسی بنیادی معلومات نہیں ہیں جسکی روشنی میں وہ اس بات کا تعین کرسکیں کہ پانی کے ان کنووں میں میتھین گیس کی موجودگی کا پتہ لگنے سے پہلے انکی کیا حالت زارتھی
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں میں پیننسلوانیا اور ان امریکی ریاستوں میں قدرتی گیس کی تلاش کا کام وسیع پیمانے پر کیا جانے لگا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہاںزیر زمین چٹانوں کے نیچے گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں ۔
جیسے جیسے گیس کی تلاش میں استعمال ہونے والی موجودہ ڈرلنگ ٹیکنیک اپنا دائرہ کار وسیع کر رہی ہے ویسے ویسے اس کے نتیجے میں زیر زمیں پانی کے زخائر میں ہونے والی خطرناک آلودگی نے گیس کے کنووں یا ڈرلنگ کے مقامات کے قریب رہائش پذیر شہریوں،ریاستی اور وفاقی اداروں کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے اس ضمن میں دو وفاقی اداروں نے اپنے طور پر تحقیقات کروائی ہیں جبکہ ریاست پیننسلوانیا کے کئی باشندے گیس ڈرلنگ کمپنیوں کے خلاف پانی کی آلودگی کے سلسلے میں مقدمات قائم کررہے ہیں اور ڈرلنگ کے نتیجے میں میتھن گیس کے انتشار کو ایک بڑے خطرے کی نظر سے دیکھتے ہیں
اسی ریاست میں گزشتہ دسمبر میں ہونے والے ایک دھماکے اور ایک گھر میں لگنے والی آگ اور فروری میں ایک اور گھر میں لگنے والی آگ کے تفتیشی تانے بانے گیس ڈرلنگ کمپنی سے جوڑے جا رہے ہیںجبکہ گزشتہ برس ایک اور قدرتی گیس تلاش کرنے والی کمپنی اس بات کی نفی کرنے کے باوجود کہ وہ آلودگی پھیلانے کا سبب بن رہی ہے ان ۹۱ مکان مالکوں کو۱۴ (چار اعشاریہ ایک) ملین ڈالر ہرجانے کی صورت میں اداکرنے پر راضی ہوگئی تھی جنکے گھروں کاپانی میتھن گیس کی وجہ سے آلودہ ہوا تھا
تیل اور گیس کی تلاش سے وابستہ کمپنیوںکا تحقیق کے خلاف ایک دفاعی موقف اختیار کرناسمجھ سے بالاتر نہیں ہے کیوںکہ ہر شخص، ہر ادارہ اور ہر حکومت اپنے اوپر اٹھنے والی انگلی کا جواب اسی انداز میں دیتی ہے تاکہ اسکی ساکھ بگڑنے سے بچ جائے الزامات بھی تحقیق کے نتیجے میں سچ یا غلط ثابت ہوتے ہیں اسی طرح اس تحقیق نے بھی اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کے اداروںپر اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے حوالے سے ذمے داری عائد کردی ہے اور اس تحقیق کو وسعت دے کر پانی کی آلودگی کے حتمی سبب کو تلاش کرنےکی ضرورت کو مزید اجاگر کر دیا ہے
تیل اور گیس کی تلاش امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک سے باہرترقی پذیر اور افریقہ کے پسماندہ ممالک تک پھیل گئی ہے اوراس صنعت سے وابستہ بین الاقوامی کمپنیوں نے اپنی تلاش کا دائرہ ہر اس جگہ تک پھیلا دیا ہے جہاں سے انہیں ان قدرتی زخائر کے ملنے کی امیدہو سکتی ہے
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ممالک جہاں تیل یا گیس کی تلاش کے سلسلے میں ڈرلنگ ہورہی ہے اپنی انسانی اور ریاستی ذمے داری کو محسوس کرتے ہوئے اور اس جدید تحقیق کی روشنی میں ڈرلنگ کے مقامات کے اطراف میں زیر زمین آبی زخائراورپانی کے کنووں میں موجود پانی کے لیبارٹری ٹیسٹ کروائے تاکہ اس بات کا پتہ چل سکے کہ کہیں وہ پانی مقامی باشندوں کی صحت کے لئے مضر تو نہیں ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو کمپنیاں توبے شمار مالی فوائد حاصل کرکے کسی اور ملک کو روانہ ہوجائیں گی مگر ان علاقوں میںآباد شہری اور انکی آنے والی نسلیں مضر صحت پانی کے استعمال کے باعث خطرناک امراض کا شکار ہوکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتی رہیں گی