بوند بوند کو ترس رہی ہے خلق خدا
بوند بوند کو ترس رہی ہے خلق خدا
تحریر: شہزاد اقبال
[email protected]
کسے خبر تھی کہ خیبر پی کے کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کے بیٹے کے قتل، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے پے در پے واقعات کے بعد سندھ اسمبلی کے ایم پی اے رضا حیدر کا اہدافی قتل اور پھر مارگلہ اسلام آباد میں ائیر بلیو طیارے حادثہ میں 152 قیمتی انسانی جانوں کی ہلاکتوں کے آغوش میں ایسا سانحہ عظیم چھپا ہو گا کہ جس کے آنے سے چاروں صوبوں میں تباہی کے سونامی آ جائیں گے ۔پانی جو زندگی بھی ہے اور موت بھی،سکون بھی ہے اور بے اطمینانی بھی ، گزشتہ 3ہفتوں کے دوران پانی سے جو تباہی آئی اس کی پاکستان کے ساتھ ساتھ خطے کی تاریخ میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی ۔انسان ہلاک، زخمی اور اپاہج ہوئے،املاک کو نقصان پہنچا،مویشی اور لائیو سٹاک متاثر ہوئے،فصلیں تباہ ہوئیں ،پل منہدم اور سڑکیں ٹوٹ گئیں، الغرض تباہی کی وہ کون کون سی صورتیں ہیں جس سے اہلیان پاکستان کو اس سیلابی ریلہ کے ذریعے واسطہ نہیں پڑا ۔ ایک عزیزہ جو سیاحت کی غرض سے گھر والوں کے ہمراہ کالام گئی ہوئی تھیں بتا رہی تھیں کہ وہ لوگ دریائے سوات کے سنگم میں ایک در یائی ہوٹل میں رہائش پذیر تھے کہ فو جی اہلکاروں نے شام کو ہمیں سیلابی ریلے کے آنے سے آگاہ کیا اور کہا کہ فوری طور پر ہوٹل خالی کر دیں ہم نے جلدی جلدی ہوٹل خالی کیا اور پھر چند گھنٹوں کے بعد وہ تمام ہوٹل زمیں بوس ہو گئے بلکہ اسے زمیں بوس ہونا بھی نہ کہیں کہ پانی اس کی بنیادوں تک کو انتہائی بے دردی سے اکھاڑ کر ساتھ لے گیا ، ان ہوٹلوں میں ایک ہوٹل ایسا بھی تھا کہ جو گزشتہ سال 7 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا تھا مگر بے رحم پانی اسے بھی بہا کر لے گیا ۔
ہم پانی مانگنے والی قوم تھے ،بارش کے طلب گار تھے،ہمارے دریا سوکھ چکے تھے،زمین پیاسی تھی اور فصلیں پانی کو ترس رہی تھیں ،ہاتھ اٹھتے تھے اور مایوسی کی صورت میں خدا سے شکوہ بھی کرتے تھے مگر پھر یکدم پو را پاکستان پانی پانی ہو گیا کوئی کہتا ہے کہ یہ ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے کوئی کہتا ہے کہ حال ہی میں سوات امن میلہ کے نام سے جو خرافات ہوئیں یہ سب اس کا ردعمل ہے واضح رہے کہ یہیں سے سیلابی تباہی کا آغاز ہوا ، بعض اعتراض کرتے ہیں کہ اگر سوات امن میلے سے یہ تباہی آئی تو پھر باقی پاکستان کو اس کی سزا کیوں دی گئی،بعض کا کہنا ہے کہ ایسی خرافات تو باقی ماندہ پاکستان میں سارا سا ل ہوتی رہتی ہیں کچھ کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کی بد انتظامی ہے کیونکہ محکمہ موسمیات کے سربراہ بار بار کہتے رہے کہ ہم میڈیا کے ذریعے بھی انتظامیہ کو خبردار کرتے رہے کہ امسال مون سون سیزن کا دورانیہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ معمول سے 10 فیصد زیادہ بارشیں ہوں گی مگر حکومت نے ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور پھر خونی مون سون نے پاکستان بھر میں جو تباہی مچائی وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
ان سطور کے شائع ہونے تک یقیناً سیلاب کی شدت میں کمی آ چکی ہو گی اور مون سون کی بارشوں کا دوسرا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہو گا لہذا اب اہم کام ریسکیو آپریشن کے بعد سیلاب زدگان پاکستانیوں کی بحالی کا ہے۔رمضان کا مہینہ ہے ،حبس اور گرمی کے ایام ہیں 2 کروڑ سے زا ئد پاکستانی اپنے 15 کروڑ ہم وطنوں کی امداد کے منتظر ہیں اور ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ ان کی مشکلات کیا ہوں گیں ،سحری اور افطاری کیسے ہوتی ہو گی ان کی نمازیں ،تراویح،تلاوت اور خصوصی عبادات کیسے ہوتی ہوں گیں ،کیا کھاتے ہوں گے اور کیسے اپنی پیاس بجھاتے ہوں گے،سوتے کہاں ہوں گے اور کیا آرام کا بھی کوئی تصور ہوتا ہو گا ،غرض اتنے سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کر نا مشکل ہے ،وزیراعظم گیلانی کو تو اپنے دورہ سندھ کے دوران ایک سندھی خاتون نے یہ تک کہہ دیا کہ میں سحری میں کچھ نہیں کھا سکی معلوم نہیں افطاری کیسے ہو گی ، عجب بے بسی اور لاچارگی کی صورتحال ہے اور دوسری جانب ہمارے صدر صاحب ایک جوتا کھانے کے لئے فرانس سے ہوتے ہوئے برطانیہ چلے گئے ان کے مہنگے ترین اور لاحاصل دورے کے بعد اب ان کا روس کا دورہ بھی شیڈول ہے،شاید اسے ہی کہتے ہیں عوامی جمہوریت،جس میں عوام کے لئے کچھ نہیں سب خواص لے اڑتے ہیں ۔ آخر جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دینے والے حکمران اس مشکل گھڑی میں عوام سے کس بات کا انتقام لے رہے ہیں عوام تو موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور حکمران اپنے اللے تللوں اور شاہ خرچیوں میں مصروف ہیں ۔
بوند بوند کو تر سنے والی خلق خدا کے لئے خلق خدا ہی موجود ہے ا ور اب کی بار خلق خدا کا حکمرانوں اور حکومت پر سے اعتماد بھی اٹھ چکا ہے ،تادم تحر یر وفاق اور صوبائی اکائیوں کی جانب سے سیلاب زدگان کو امداد دینے کی اپیل پر عوام خاص توجہ نہیں د ے رہی،جبکہ وفاق کی نسبت پنجاب حکومت کی اپیل پر نیشنل بینک میں زیادہ عطیات جمع ہوئے ہیں ۔اقوام متحدہ کی جانب سے مسئلہ کی سنگینی کے پیش نظر’ ڈونر کانفرنس‘ بھی طلب کر لی گئی ہے اور عالمی برادری کو اس امر کا بھی احساس ہو گیا ہے کہ پاکستان میں آنے والی حالیہ تباہی 2004 کے سونامی اور ہیٹی کے زلزلہ سے بہرحال زیادہ ہے اس کے باوجود حکومتی اپیل پر بھی عالمی برادری نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ،امریکہ،برطانیہ،سعودی عرب،چین، جنوبی کوریا وغیرہ نے اگرچہ امداد دینے کا اعلان کیا ہے اور بعض غیر ملکی جہاز بھی امدادی سامان کی کھیپ لے کر پہنچ چکے ہیں لیکن یہ امداد فلحال اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے اس کے علاوہ مالی امداد میں کمی کی ایک اور وجہ عالمی سطح پر جاری کساد بازاری بھی ہے اور یوں بھی دنیا اب جہاں وعدہ کرنا جانتی ہے وہاں امداد دیتی نہیں فرینڈز آف پاکستان اس کی واضح مثال ہے دوسری جانب ان ممالک کا پاکستانی قیادت پر سے اعتماد کا ا ٹھ جانا بھی ہے کہ ان کی دی گئی مالی امداد مستحق افراد کی بجائے بدعنوانی کی نظر ہو جاتی ہے ،حالیہ سیلاب میں ہمارے دوست نما دشمن امریکہ کا کردار قابل رشک رہا کہ اس نے ناصرف افغانستان میں موجود اپنے فوجی ہیلی کاپٹرز کو پاکستان بھیجا بلکہ ریسکیو آپریشن کے لئے 24 ہیلی کاپٹرز اور 1000 میرنز پر مشتمل امریکی فوجی پاکستانی سرزمین پر آ چکے ہیں اور ہم ان کی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہیں کہ اب تک ہمارے دوست بھی اس آفت میں ہماری خاطر خواہ مدد کرنے کے لئے آگے نہیں آئے ہیں شاید اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاک افغان امور کے لئے تعینات خصوصی امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے کہا تھا کہ پاکستان کے دوست ملک چین اور ایران اس نازک مرحلے پر کہاں ہیں دوسری جانب 8 اکتوبر2005 کے زلزلے کی طرح اس بار بھی بھارت ہمیں (50 لاکھ ڈالر ) امداد کی پیشکش کر چکا ہے۔
اگست2010 ءکے سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہم متاثر ہوئے اور اس سے باہر نکلنا بھی ہمارا ہی کام ہے خدانخواستہ یہ6 اور9 اگست 1945ءکی ہیروشیما اور ناگاساکی جیسی تباہی نہیں ،ہماری قوم زندہ قوم ہے ،دریا دل قوم ہے صرف اسے راہنمائی کی ضرورت ہے ایسے رہنما جو ان کی امداد سیلاب زدگان تک پہنچا سکیں وہ پیسے بھی دینا چاہتے ہیں اور خواراک،ادویات ،پانی اور ضرورت کی ہر شے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں تک پہنچانا بھی چاہتے ہیں لیکن انہیں تلاش ہے ایسے ہاتھوں کی جو امانت دار ہو،ایمان دار ہو،وہ بہرحال غیر سرکاری تنظیموں،میڈیا گروپس،انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں،سیاسی اور دینی جماعتوں کے ذریعے مصیبت زدگان کی مدد کر رہے ہیں اور ستری بہتری باتیں کرنے والو ں کی چالوں میں نہیں آ ر ہے یہ وقت سیلابی سیاست کا نہیں ،وطن عزیز کا یہ سیاہ سال بھی ہم اپنے عزم،طاقت اور حوصلے سے گزار لیں گے ،روشن کر لیں گے کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جس میں جذبہ تعمیر ہر وقت زندہ ہوتا ہے اور ویسے بھی یہ ماہ رمضان ہے جس میں خرچ کرنے کا ثواب بے شمار اور بے حساب ہے تو ہمیں بھی شمار اور حساب کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہیے جو اپنی ضرورت سے زیادہ ہے وہ مصیبت زدگان کو دے دیں کل کا انتظار مت کریں ،تڑپتے اور ترستے انسانوں کے حلق میں اپنے حصہ کی بوند ڈال دیں۔
بشکریہ:نوائے وقت