کیاتھانہ کلچر کبھی ختم ہوگا؟
رحمان محمود خان
یہ ایک ایسا چبھتا سوال ہے جس کا جواب دلائل کی لمبی فہرست کے ساتھ روزانہ ملک کے اخبارات و جرائدکی زینت بنتا ہے،پاکستان کا کوئی ایسا روزنامہ یا ٹی وی چینل نہیں‘جہاں کالم نگاروں،رپورٹر حضرات اور اینکر پرسن نے تھانہ کلچر اور پولیس گردی پربحث مباحثہ اور تجاویزنہ دی ہوں۔اِن پروگراموں میں مدعو کیے گئے مہمان تھانہ کلچر اور پولیس گردی کو جَڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اقدامات اور دعووں سے پروگرام کے (40منٹ)دورانیہ کو گلو خلاصی کراتے ہیںاور اِس بات پر ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ انھوں نے کامیاب انٹرویو دے کر اینکرپرسن(میزبان) کو سَر کرلیا،لیکن آج تک تھانہ کلچر بَدل سکا اور نہ ہی پولیس کا نارواسلوک(پولیس گردی)۔
اَب تویہ تھانہ کلچر اور پولیس گردی ملکی سطح پرثقافتی ورثہ اور پہچان بن چکی ہے،جس میں غنڈہ گردی،قبضہ مافیااور دیگر جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی یا بلاواسطہ پشت پناہی کرنا، حق دار کو ناحق گالیاں اور نازیبا الفاظ کا استعمال شامل ہے۔راقم اِن محافظوں کے منہ سے یہ خرافات اور بے ہودہ زبان کا استعمال وغیرہ زمانہ طالبِ علمی سے سماعت کرتا رہاہے،لیکن چند روز قبل ایک ایساہی واقعہ راقم اور اہلِ خانہ کے ساتھ پیش آیا،”جَب خود پہ بیتتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کیا بھاو ہے!“۔کچھ ایساہی ہوا۔۔۔کیوں کہ مَیں مختلف اخبارات ،نیوز ویب سائیٹس پر کالم اور فیچر لکھتا ہوں،اس لیے قارئین کو صِرف یہ بتانا مقصود ہے کہ تھانہ کلچر اور پولیس گردی ختم کرتے کرتے یہ حکومت بھی مدّت پوری کر چلی،جج حضرات فیصلے سناتے سناتے ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں،مدعی اور حق دار افراد اپنامسئلہ،مدعا لے کر کورٹ کچہریوں میں پٹیشن وغیرہ دائر کرتے کرتے زندگی کی60ویں سالگرہ مناتے ہیںاور ہم جیسے لوگ جہادباالقلم سے اِن چیرہ دستیوں کو درست کرنے کی کوشش میںوقت صَرف کرتے ہیں،جب کہ پولیس( جو لائن آرڈر کی درستگی کی بجائے ایک مافیاکا روپ دھار چکی ہے)اپنی دہاڑی بنانے کے عمل میں دِن رات کوشاں رہتی ہے۔قانون کا یہ بے لگام اِرتقائی سفررواں دواں رہتا ہے اور دوسری طرف غنڈہ عناصر،قبضہ مافیاحضرات ساز باز کرتے ہوئے اپنی دنیا سنوارنے اور بے گناہوں کی دنیا اُجاڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔
اِن قبضہ مافیاعناصر کے ایسا کرنے میں اِن کی معاونت کون کرتا ہے؟یہ بتانا اس لیے ضروری نہیں کیوں کہ یہ حقیقت آپ بھی اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں،لیکن اِن معاونین کے علاوہ قصور کہیں پہ ہمارا(عوام کا) بھی ہے،کیوںکہ ہم خاموش تماشائی بنے اس لیے چُپ سادھے رہتے ہیں کہ یہ ”صِرف اُس کے ساتھ ہی تو ہو رہا ہے“۔یہ خاموشی بھی تو اِن تخریبی عناصر کو حوصلہ دیتی ہے۔مَیں یہ واقعہ قارئین اور اربابِ اختیارکے عِلم میں اِس لیے بھی لاناچاہتا ہوںکہ اِن کے افسرانِ بالا کو اندازہ ہوجائے کہ اِن کی ”چھتر چھائیہ“میںتھانے دار حضرات کیسے بے گناہوںاور مدعیوںکو زدوکوب کرتے ہیںاور کم اَز کم آئیندہ کے لیے ہی پولیس اور قبضہ مافیا عناصر کوبھی تنبیہ ہو جائے :۔
راقم کے گھر سے ملحقہ پلاٹ پر کچھ قبضہ مافیا(بظاہر شریف)افرادقابض ہونے کے خواہاں ہیں،عدالتِ عالیہ(دیوانی) میںاِس کیس کی شنوائی عرصہ تین سال سے ہو رہی ہے۔عدالتی کاروائی سے ہم لوگ مطمئن تھے،راقم کے اہلِ خانہ نے عدالتِ عالیہ کومکمل ثبوت اورمتعلقہ کاغذات فراہم کیے،جس کے باعث عدالتی کاروائی کے دوران مخالفین کاStayخارج ہو گیا،اوراُن پر توہینِ عدالت کی شِک بھی لگ گئی لیکن مخالفین قانونی پیچیدگیوںسے بچتے بچاتے بارہا پولیس کو فریق کی حیثیت سے شامل کرنے کی تگ ودو میں لگے رہے۔ چند ماہ قبل عدالت نے اِس معاملے کے حَل کے لیے کمیشن Appointکیاجس نے دونوں فریقین کے دلائل اور موقع کا معائنہ کرکے حقائق پر مبنی رپورٹ عدالت میں پیش کی،جس سے عدالت کو اِس معاملے میں مزید کنفرمیشن ہوگئی۔مگر جب مخالفین کواِس تمام کاروائی سے مستقبل قریب میںاُن کے خلاف ایکشن ہوتا دکھائی دیا تو اِن قبضہ مافیاعناصر نے عدالت کا وقت ضایع کرنے اور دوسرے اوچھے ہتھکنڈے اختیارکیے۔یہ حضرات عدالت کی دی گئی تواریخ پرحاضر نہ ہوتے۔جس سے کیس نے مزید طول پکڑا۔دوسرا طریقہ جو اِن قبضہ مافیا اور ڈرگ مافیا نے اختیار کیا وہ راقم اور اہلِ خانہ پرغلط اور بے بنیاد الزامات لگا کر پولیس کے ذریعے ہراساںکرنا شروع کردیاتاکہ اِس کیس کا فیصلہ عدالت سے باہر پولیس کے روایتی”مُک مُکاو“کے ذریعے ممکن ہوسکے،اِس سلسلے میں مخالفین نے اپنے گھر کی دیوار مرمّت کرنے کے بہانے راقم کے پلاٹ کو عارضی طور پر لینے کے لیے ہمارے خلاف ایک جھوٹی اور بے بنیادالزمات پر مبنی درخواست پولیس کو دی۔جَب اِس سے بھی چارہ کارگر نہ ہوا تو اِن حضرات نے پولیس اسٹیشن میںڈرانے دھمکانے کا انداز اختیار کیااور راقم سے بھی نازیبااوربَداخلاق زبان کااستعمال کیا۔اِس موقع پر راقم کے والدگرامی (جو دِل کے مریض ہیں)نے حق بجانب ہونے کے باعث پولیس کو تنبیہ کی کہ عدالت میں زیرِسماعت کیس کو پولیس سٹیشن میں حَل نہیں کیا جاسکتا،اِس تلخ کلامی کے بعدپولیس کے”محترم سَب انسپکٹر“نے اُن قبضہ اورڈرگ مافیاافرادکے روبرومیرے والد گرامی اور مجھ کوحوالات کی ہوا کھانے کی دعوت دی،یہ سَب کچھ میری موجودگی میں وقوع پزیر ہوا،جس پر میری مداخلت کرنے اورگالیاں سننے کی سَکت جواب دے گئی،اِس تمام واقعے میں مخالفین کی ٹولی نازیبا اور بے ہودہ گالیوں کا استعمال نہایت نپے تلے انداز سے کرنے میں پولیس کی برابر کی شریک رہی۔اسی اثناءمیں میرے والد گرامی کو اینجائنا کی دَرد ہونے لگی،بالآخر معاملہ عارضی طور پر دَب گیااور ایک بار پھر اُن عناصر کو دندناتے پھرنے کا استحقاق حاصل ہوگیا۔
اِس تمام واقعے نے پولیس کے چند افراد کی غنڈہ اور قبضہ مافیا عناصر کو پشت پناہی کرنے کی کئی گرہیں کھول دیں،ایک طرف پولیس کہتی ہے کہ عدالت میں زیرِ سماعت کیس کے کسی بھی معاملے میں پولیس بولنے سے قاصر ہے‘جب تک عدالت حکم نہ دے۔جب کہ دوسری طرف پولیس اِن عناصر کے ساتھ ایک فریق کی حیثیت اختیار کرکے ایک طرح سے عدالت کامذاق اُڑانے کی مرتکب ہو تی ہے۔
اِس واقعے کے بعد راقم کو عِلم ہوا کہ شریف اور حق دار انسان پولیس سٹیشن جانے سے کیوں کتراتا ہے، کیوں کہ اُسے علم ہوتا ہے کہ جتنا سرمایہ یا جائداد اُس کے پاس موجودہے کہیں اُس سے بھی ہاتھ دھونے پڑ جائیں۔
٭ قارئین اور اربابِ اختیار کو اِس تمام واقعے سے آگاہ کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ جب ایک کیس عدالت میںفیصلے کے قریب ہے تو عدالت سے باہر زدو کوب یاہراساں کرکے معاملات حلَ کرنے کا کیا جواز ہے؟
٭ پولیس کی کارکردگی کوبڑھانااور رشوت ستانی کو ختم کرنے کے لیے وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے پولیس کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ اِس لیے کیاتھا کہ یہ حق دارسے اُس کا حق چھینے اور غنڈوں ،قبضہ مافیوںکو حوصلہ دیں!!!
راقم کی چیف جسٹس آف سپریم کورٹ ،چیف جسٹس آف ہائی کورٹ،وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور پولیس کے کسی ایمان دار اور فرض شناس افسر سے اپیل ہے کہ خدارا اِس معاملے میں راقم اور اہلِ خانہ کی مدد نہ سہی تو کم از کم عدالتی معاملات میں مداخلت سے پولیس اوراُن قبضہ مافیا کو روکا جائے اور تحفظ فراہم کیا جائے۔۔
….٭٭٭….