حکومت پاکستان نے کہا ہے کہ لیبیا میں جاری سیاسی بحران اور پر تشدد واقعات کے نتیجے میں وہاں قیام پذیر پاکستانی باشندوں کو فوری طور وطن واپس لانے کے لیے ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے۔
لیبیا میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف شروع ہونے والے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں وہاں روز مرہ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ اس صورتحال میں مغربی ممالک سمیت کئی ایشائی ممالک کے حکام نے وہاں سے اپنے اپنے شہریوں کو واپس بلوانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں۔
تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس مخصوص صورتحال میں اگر وہاں سکونت پذیر پاکستانیوں کو واپس لانے کی کوشش کی گئی تو اس بات کے امکانات ہیں کہ ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں۔ طرابلس سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس وقت لیبیا میں کئی اہم علاقوں کا کنٹرول باغیوں نے سنبھال رکھا ہے جبکہ کئی علاقوں میں لاقانونیت کا ڈیرہ ہے۔
لیبیا سے واپس اپنے وطن جانے والوں کی ایک بڑی تعداد ہوائی اڈوں اور بندر گاہوں پر موجود ہے
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستانی وزرات خارجہ کا کہنا ہے کہ لیبیا کے شورش زدہ علاقوں سے پاکستانی باشندوں کو واپس لانے کے لیے متبادل راستے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وزیر مملکت برائے خارجہ امور حِنا ربانی کھر نے پاکستانی میڈیا کو بتایا،’ ہمیں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ لیبیا میں مقیم زیادہ تر پاکستانی باشندے اپنے اپنے گھروں کے اندر محفوظ ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ سلامتی سے جڑے مسائل کی وجہ سے یہ لوگ گھر سے باہر نہیں نکل رہے ہیں۔
حنا ربانی کھر نے بتایا کہ مصر کی نسبت لیبیا کی صورتحال انتہائی خراب ہے اور وہاں لوگوں کا گروہوں کی شکل میں بندر گاہوں یا ہوائی اڈوں پر جمع ہونا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے،’ حکام غور کر رہے ہیں کہ وہاں سے پاکستانی باشندوں کو واپس لانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔‘
کھر نے بتایا کہ اس کام کے لیےمتبادل منصوبوں پر غور کیا جا رہا ہے،’ یہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی لوگوں کو کسی فوجی ہوائی اڈے پر جمع کیا جائے اور وہاں سے انہیں بذریعہ ہوائی جہاز واپس لایا جائے۔‘ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ اسی صورت میں کیا جائے گا جب اس کی ضرورت محسوس ہو گی۔ پاکستانی حکام کے مطابق وہ طرابلس میں اپنے سفارتخانے سے مسلسل رابطے میں ہیں اور تازہ ترین صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ باخبر ہیں۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو ڈی