جرمنی میں ایسٹر کے موقع پر روایتی جوش و خروش
مسیحی عقیدے کی رو سے حضرت عیسیٰ کو گڈ فرائیڈے کے روز مصلوب کیا گیا تھا اور اس کے تیسرے روز یعنی ایسٹر سنڈے کے دن یروشلم میں ان کے دوبارہ زندہ اٹھنے کا معجزہ رونما ہوا تھا۔
ایسٹر کو کرسمس سے زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ تہوار مسیحی عقیدے کے گرد گھومتا ہے، یعنی حضرت عیسٰی نے انسانیت کے لیے صلیب پر چڑھ کر اپنی جان دے دی تھی۔ اسی وجہ سے گڈ فرائیڈے کے دن صلیب کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
ایسٹر کے تہوار میں غم اور خوشی دونوں ہی پہلو پوشیدہ ہیں۔ گڈ فرائیڈے کے روز نہ صرف دکانیں بند ہوتی ہیں بلکہ ریستوران اور دیگر تفریحی مقامات بھی بند ہوتے ہیں اور ہر طرف سناٹا چھایا ہوتا ہے۔ ایسٹر بھی کرسمس کی طرح گھر کے اندر منایا جانے والا تہوار ہے۔ لیکن ایسٹر کے موقع پر امن پسند اور حکومتی پالیسیوں کے ناقدین پوری دنیا میں جلسے جلوس بھی نکالتے ہیں۔
جرمنی میں1960ء سے ایسٹر کے موقع پر امن پسند حلقے، بنیادی حقوق کے لیے سرگرم شہری اور ناقدین جلوس نکالتے ہیں۔ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے نکالے والے ان جلوسوں میں ہر بار کسی نہ کسی ایک پہلو کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس سال اِن میں ’’جوہری توانائی‘‘ کو مرکزی اہمیت دی جا رہی ہے۔
جرمنی میں اپنی نوعیت کے ان انوکھے جلوسوں کی ابتدا جرمن چانسلرکونراڈ آڈےناؤئر کے دور میں ہوئی تھی۔ آڈےناؤئر نے عسکری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے جوہری توانائی کو لازمی قرار دیا تھا۔ ان کے اس بیان پر امن پسندوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا، جنہوں نے برطانیہ ہی کی طرز پر پورے ملک میں مظاہرے شروع کر دیے تھے۔
آندریاز بورو آج کل 83 برس کے ہیں اور آج بھی انہیں اچھی طرح یاد ہے، جب جرمنی میں پہلی مرتبہ ایسٹر مارچ کا انعقاد ہوا تھا:’’اس وقت تقریباً بیس افراد تھے۔ موسم سرد تھا اور شدید بارش ہو رہی تھی۔ پھر ہم سب، تین چار روز تک تمام تر مزاحمت کے باوجود آگے بڑھتے رہے۔‘‘
وقت کے ساتھ ساتھ ایسٹر مارچ کہلانے والے ان جلوسوں میں معروف شخصیات نے بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔ ان احتجاجی جلوسوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنی وہاں ہر بات کہہ سکتے ہیں۔
گزشتہ برس ایسٹر کے موقع پر نکالے جانے والے جلوسوں میں جنگ کی زبردست مخالفت کی گئی تھی
دنیا میں قیام امن اور جوہری توانائی کی مخالفت کے موٹوکا انتخاب برطانیہ میں کیا گیا تھا۔ وہاں ایسٹر مارچ 1950ء سے منعقد کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ جرمنی میں ایسٹرکے موقع پر منقعد ہونے والے ان جلوسوں میں ایک ملین افراد کی شرکت متوقع ہے۔
ایسٹر آتے ہی ہر جگہ رنگے برنگے انڈے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ بازاروں میں انڈوں اور خرگوش کی شکل والی چاکلیٹس فروخت ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ گھروں میں باقاعدہ تقریبات منعقد ہوتی ہیں، جن میں تمام گھر والے مل کر ابالے ہوئے انڈوں کو رنگتے ہیں۔ ایسٹر سنڈے کے دن گھروں میں مختلف مقامات پر انڈے چھپا دیے جاتے ہیں اور پھر بچے انہیں ڈھونڈتے ہیں۔ انڈوں اور خرگوشوں کو اس تہوار میں خاص اہمیت اس لیے دی جاتی ہےکیونکہ یہ زرخیزی اور افزائش نسل کی ایک علامت سجھے جاتے ہیں۔
DWD