گزشتہ دس برسوں سے جرمنی میں گرلز ڈے یعنی لڑکیوں کے مستقبل کا دن منایا جاتا ہے۔ اِس روز اسکولوں کی طالبات پورے ایک دن کے لیے کسی ایسے پیشے کا جا کر عملاً تجربہ کرتی ہیں، جو عام طور پر مردوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔
اِس بار 14 اپریل کو نہ صرف گرلز ڈے بلکہ پہلی مرتبہ بوائز ڈے بھی منایا جا رہا ہے۔ پانچویں کلاس سے اوپر کی کلاسوں کے لڑکے اِس روز صحت اور تعلیم و تربیت جیسے اُن پیشوں کا عملی تجربہ حاصل کر سکتے ہیں، جنہیں عام طور پر صرف عورتوں کے لیے ہی مخصوص گردانا جاتا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ تقریباً 35 ہزار لڑکوں کو مختلف طبی اور تربیتی اداروں میں جا کر وہاں کے روز مرہ معمولات دیکھنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے۔ کرسٹوف زینکووسکی نامی جرمن نوجوان ننھے منے بچوں کی تربیت کے شعبے میں کافی عرصے سے عملی تجربات حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ اُس کے خیال میں یہ وہ شعبہ ہے، جس میں مردوں کی اَشد ضرورت ہے۔
کرسٹوف زینکووسکی بتاتے ہیں:’’مجھے کنڈرگارڈن میں تجرباتی طور پر کام کرنے کا موقع ملا تھا اور تب مجھے بچوں کے ساتھ کام کرنے کا بہت مزہ آیا اور مجھے احساس ہوا کہ میرے اندر بچوں کے دل تک پہنچنے کی اچھی صلاحیت موجود ہے۔‘‘
یہ 22 سالہ جرمن نوجوان اب اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی کوئی ایسی راہ اختیار کرنا چاہتا ہے، جہاں وہ کم سن بچوں کی تربیت ہی کے شعبے میں کام کر سکے۔ وہ اب تک بون سمیت کئی شہروں کے کنڈر گارڈنز میں تجرباتی طور پر کام کر چکا ہے اور بتاتا ہے کہ وہاں وہ اکیلا ہی مرد ہوتا تھا۔ وہاں اُس کا کام یہ ہوتا تھا کہ نصابی تعلیم کے بعد بچوں کو ہوم ورک کرنے میں مدد دے یا اُن کے ساتھ مختلف قسم کے کھیل کھیلے۔
کرسٹوف زینکووسکی کے خیال میں عورتوں کی طرح مرد بھی بہت اچھے انداز میں بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں۔ یہی خیال خاندانی امور کی وفاقی جرمن وزیر کرسٹینا شروئڈر کا بھی ہے، جنہوں نے اس سال 14 اپریل کو پہلی مرتبہ بوائز ڈے منانے کا اہتمام کیا ہے۔
بچوں کی تربیت کے شعبے میں برسوں سے سرگرمِ عمل پاٹریک گیزیل کے مطابق مردوں کا رجحان اِس شعبے کی جانب اِس لیے بھی زیادہ نہیں ہے کیونکہ یہاں تنخواہیں زیادہ نہیں ہیں۔ مرد اِسی لیے تکنیکی قسم کے شعبوں کی طرف زیادہ رُخ کرتے ہیں۔
DWD