رشتے اور محبت: مخالف مزاج کے افراد میں محبت اور جسمانی کشش قدرے کم کیوں ہوتی ہے؟
ایک عرصے سے لوگ یہ کہتے آئے ہیں کہ 'مخالف مزاج کے افراد ایک دوسرے کی جانب کشش رکھتے ہیں۔' جیسا کہ کم گو شخص، کھل کے اظہار کرنے والے شخص کی جانب کھچ سکتا ہے، یا ایک لائق طالب علم کو آوارہ لڑکا بھی پسند آ سکتا ہے۔ دنیا بھر کے معاشروں میں اس مقبول خیال کو برسوں سے مانا جاتا ہے۔
برے تعلقات اور رشتوں کے معاملات کو حل کرنے کے ماہر کیلیفورنیا میں مقیم ماہر نفسیات رامانی درواسولا کہتے ہیں کہ ‘تحقیق اس بارے میں بہت واضح ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔’
ان کا کہنا ہے کہ ‘ایسے افراد جن کی ایک جیسی دلچسپیاں ہوں، ایک جیسا مزاج ہو ان کے درمیان تعلق قائم ہونے یا ڈیٹ کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔’
درحقیقت مختلف مقالوں میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ دوستوں اور محبت کے ساتھیوں کے ایک جیسے خیالات، اقدار اور مشاغل ہوتے ہیں۔
لوگ ایک جیسی جسمانی خصوصیات رکھنے والوں کی جانب کشش محسوس کرتے یا بھروسہ کرتے ہیں اور بعض اوقات تحقیق سے بھی پتا لگتا ہے کہ ایک جیسی شخصیت کے حامل افراد میں بھی تعلق قائم ہوتا ہے۔
بنیادی طور پر محققین اور ماہر نفسیات واضح طور پر کہتے ہیں کہ لوگ ایک عرصے سے مشترکہ خصلتوں، عقائد اور مفادات کے حامل افراد کی طرف راغب ہیں۔
یہاں یہ تحقیق بھی موجود ہے کہ مخالف مزاج یا خصوصیت رکھنے والے افراد ایک دوسرے سے دور جاتے ہیں، خاص کر اگر ان کے خیالات اور اقدار میں اختلاف ہو۔
دنیا بھر میں معاشروں میں بڑھتی معاشرتی اور ثقافتی تفریق نے اس کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیا ہے کہ ہمیں کوئی ایسا شخص پسند آئے جو ہم سے مختلف سوچتا اور پسند رکھتا ہوں۔
سوشل میڈیا جیسے عوامل یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اب محبت کے متلاشی یا محبت کرنے والے، مخالف کشش کے خیال کو ترک کرتے ہوئے ہم خیال سوشل میڈیا گروپوں تک ہی خود کو محدود کر لیں۔
آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا
یہ جاننا تو مشکل ہے کہ ‘مخالف کشش رکھتے ہیں’ کہاوت کی ابتدا کب ہوئی لیکن سنہ 1954 میں امریکن سوشیولوجیکل ریویو نامی جریدے میں امریکی سوشیالوجسٹ روبرٹ ایف ونچ نے اس کے بارے میں لکھا تھا۔
ان کی تحقیق ‘ساتھی کے انتخاب میں ضروری خصوصیات’ پر تھی جس میں انھوں نے یہ خیال پیش کیا تھا کہ لوگ ان لوگوں کو اپنے ساتھی کے طور پر پسند کرتے ہیں جو ان چند خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں جو خود ان میں نہیں ہوتیں۔
جیسا کہ ایک کم اظہار کرنے والا شخض آزادانہ اظہار کرنے والے شخص کو پسند کرے۔
ان کی اس تحقیق کے نتیجے میں دیگر محققین نے اس سے مختلف نتائج پر کام کیا۔ اور ایک دہائی سے کم عرصہ بعد ایک اور امریکی محقق ڈون بائرن نے اس مفروضے کو چیلنج کر دیا کہ ‘مخالف مزاج کے لوگ ایک دوسرے میں دلچسپی لیتے ہیں۔’
بائرن نے مفروضہ پیش کیا کہ ‘کوئی بھی اس اجنبی شخص جس کی خصلتیں یا خصوصیات اس سے ملتی ہیں کو اس اجنبی کے مقابلے میں زیادہ پسند کر سکتا ہے جس کی خصوصیات اس سے مختلف ہوں۔’
انھوں نے لکھا کہ ’اسی طرح کوئی بھی شخص اس کو پسند کر سکتا ہے جو اس سے زیادہ ذہین، زیادہ علم رکھتا ہو یا زیادہ اخلاق والا ہو۔’
ان کی تحقیق نے دونوں مفروضوں کی حمایت کی تھی۔
امریکہ کہ ولیسلے کالج میں نفسیات کی اسوسی ایٹ پروفیسر انجیلا باہن کہتی ہیں کہ ‘یہ اس کی ابتدا تھی۔’
سنہ 2017 میں اپنی تحقیق، جس میں محققین میساچوسٹ کے عوامی مقامات پر مختلف جوڑوں سے ملے اور ان کی رائے جانی تھی، میں انھیں علم ہوا کہ جوڑوں میں تقریباً 86 فیصد مماثلت تھی۔ یعنی ہر جوڑے کی پسند، اقدار، خیالات ایک دوسرے سے ملتے تھے۔
خصوصاً دوستوں اور پریمی جوڑوں میں ‘ہم جنس پرستوں کی شادی، اسقاطِ حمل، شہریوں کی زندگیوں میں حکومت کا کردار اور مذہب کی اہمیت’ جیسے معاملات میں ان کی رائے بہت حد تک ملتی تھی۔
پھر بھی، بہت سی وجوہات ہیں جن کے باعث ایسا لگتا ہے کہ مخالف مزاج کے افراد ایک دوسرے کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ ایسے سطحی یا معمولی اختلافات جو لوگوں کو ایک دوسرے کی حقیقت سے زیادہ مخالف ظاہر کرتے ہیں دراصل وہ اتنے مخالف ہوتے نہیں ہیں۔
درواسولا کہتی ہیں کہ مثال کے طور پر ایک اکاؤنٹینٹ اور فنکار کا بظاہر کوئی جوڑ نہیں دکھائی دیتا لیکن ممکن ہے کہ اس جوڑے کے مشترکہ اقدار، سیاسی نظریات اور خاندان کو لے کر سوچ ایک جیسی ہو۔‘
حیران کن طور پر دلچسپ بات یہ ہے کہ شخصیت ایک ایسی چیز ہے جہاں حتمی رائے پیچیدہ ہوتی ہے۔ باہن کی تحقیق میں ایسے جوڑوں کی شخصیت میں ان پانچ شعبوں میں کم مماثلت پائی گئی جنھیں شخصیت کی پانچ بڑی خصوصیات کہا جاتا ہے جو کشادہ دلی، ضمیر کی آواز، آزادانہ اظہار، غصے اور جذبات کا احساس اور رضامندی پر قائم ہے۔
انجیلا باہن اس کی مثال دیتی ہیں کہ ‘جو دو لوگ حاوی ہونے کے عادی ہوتے ہیں، وہ اکٹھے کام نہیں کر سکتے، اس لیے یہ ایک ایسی چیز ہے جہاں پر متضاد شخصیات کام کرتی ہیں۔‘
مگر 2017 میں یونیورسٹی کالج لندن کی ایک تحقیق میں سماجی نفسیات کے لیکچرر یویو وہ کے تنائج مختلف تھے۔ تقریباً ایک ہزار جوڑوں اور پچاس ہزار دوستوں کے جوڑوں کی فیس بک پروفائلز کا جائزہ لے کر وہ اس نتحجے پر پہنچے کہ ماضی کی تحقیق کے برعکس جوڑوں میں زیادہ مماثلت ہوتی ہے۔
ڈیٹنگ کی ایپس بھی آپ کی اس حوالے سے حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ آپ اپنے جیسے لوگوں کی تلاش کریں۔
مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ متضاد خیالات اور اقدار کے جوڑے کامیاب نہیں ہوتے، ایسا ہو بھی سکتا ہے اور اختلافِ رائے کے فوائد بھی ہوتے ہیں۔
پیرس میں مقیم 20 سالہ ڈیٹنگ اور ٹرینڈز کی ماہر ایپک کوکوک کہتی ہیں کہ ماضی قریب میں وہ ایک ایسے شخص کو ڈیٹ کر رہی تھیں جو کہ ان کے ساتھ ہر چیز پر اتفاق کرتا تھا اور اب وہ ایک ایسے شخص کو ڈیٹ کر رہی ہیں جن کے چند متنازع موضوعات جیسے کہ مذہب یا ویکسینز پر مختلف خیالات ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘اپنے پرانے ساتھی کو چھوڑنے سے پہلے مجھے احساس ہی نہیں تھا کہ میں کس قدر بور ہو رہی تھی۔ میرے موجودہ ساتھی کے ساتھ بات چیت کافی رولر کوسٹر کی طرح رہی ہے کیونکہ ان کے کچھ خیالات سے میں انتہائی حیران ہوئی ہوں، مگر اس سے میں نے بھی سیکھا ہے اور میرے خیالات میں وسعت آئی ہے۔ میں اس کے لیے شکر گزار ہوں۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ ایسے موضوعات ہیں جن پر ان کے ساتھی اور ان کے خیالات میں مماثلت لازمی ہے جیسے کہ حقوق نسواں یا ہم جنس پرستی کے بارے میں۔ بہت سے اور لوگوں کی بھی یہی شرائط ہوتی ہے۔‘
آج کل سیاسی خیالات میں یکسانیت جوڑوں کی کامیابی کے لیے اہم ہے۔ مثال کے طور پر 2020 میں ٹنڈر پر بلیک لائیوز میٹر کا ذکر 55 گنا بڑھا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اس بارے میں لوگ سمجھوتا کرنے کو راضی نہیں ہیں۔
اوکے کیوپڈ نامی ڈیٹنگ ایپ نے اس حوالے سے ’بیج‘ شروع کیے ہیں جو کہ آپ اپنی پروفائل تصویر پر لگا سکتے ہیں۔
اور سوشل میڈیا کے اتنے زیادہ سماجی اثر کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے ایلگوریتھمز لوگوں کو یکساں خیالات کے لوگوں کی طرف مائل کر رہے ہوں۔
وہ بتاتے ہیں کہ بہت سی ڈیٹنگ ایپس آپ کو ان لوگوں کی تجویز دیتی ہیں جن کے فیس بک لائک یا ٹوئٹر پر فالو آپ جیسے ہوں۔
امریکہ میں 18 سے 29 سال عمر کے لوگوں میں تقریباً 48 فیصد ڈیٹنگ ایپس استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ہماری تحقیق کے مطابق کیونکہ آپ کے دوستوں اور آپ کے درمیان مماثلت پہلے ہی ہوتی ہے، ڈیٹنگ ایپس آپ کو انھی لوگوں کی تجویز پیش کرتی ہیں جو آپ کے دوستوں کی طرح کے ہوں۔
بشکریہ: بی بی سی، سوشل میڈیا