URDUSKY || NETWORK

’جی سپاٹ‘ جنسی وہم

233

’جی سپاٹ‘ جنسی وہم

تحقیق کرنے والے لندن کے کنگز کالج کی ٹیم کا خیال ہے کہ ’جی سپاٹ‘ خواتین کا وہم یا خام خیالی ہو سکتا ہے۔ تاہم جنسی معاملات کے ماہر  بیولرے وپل جنہوں نے ’جی سپاٹ‘ کے تصور کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا کہا کہ مذکورہ تحقیق میں کافی نقائص ہیں۔

عورت کے جسم میں ’جی سپاٹ‘ یعنی وہ حصہ جو شہوانی جذبات ابھارنے کا باعث بنتا ہے کا تعین کرنے والے تحقیق کاروں کی ایک ٹیم نے کہا ہے کہ اس مقام کا وجود محض وہم یا خام خیالی ہو سکتا ہے۔
سیکس کے بارے میں ایک جریدے ’سیکچویل میڈیسن‘ میں شائع ہونے والی اس میں اٹھارہ سو خواتین نے حصہ لیا تھا لیکن ان میں سے کسی کے جسم پر بھی ’جی سپاٹ‘ کی موجودگی کا ثبوت نہیں ملا۔
تحقیق کرنے والے لندن کے کنگز کالج کی ٹیم کا خیال ہے کہ ’جی سپاٹ‘ خواتین کا وہم یا خام خیالی ہو سکتا ہے۔ تاہم جنسی معاملات کےماہر بیولرے وپل جنہوں نے ’جی سپاٹ‘ کے تصور کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا کہا کہ مذکورہ تحقیق میں کافی نقائص ہیں۔
وپل نے کہا کہ تحقیق کرنے والی ٹیم نے ہم جنس پرست خواتین کے تجربات کو نظر انداز کیا اور انہوں نے مختلف مردوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے سیکس کرنے کے تجربے کو بھی اہمیت نہیں دی۔
’جی سپاٹ یا گرافینبرگ سپاٹ‘ کا نام جرمنی کی گائنوکالوجسٹ ارنسٹ گرافینبرگ کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے پچاس سال قبل پہلی بار بتایا کہ یہ مقام عورت کی وجائنا یا رحم کے راستے میں دو سے پانچ سنٹی میٹر اندر پایا جاتا ہے
تحقیق کرنے والی ٹیم میں شامل پروفیسر ٹِم سپیکٹر نے کہا کہ یہ ’جی سپاٹ‘ کے بارے میں اب تک ہونے والی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں اس مقام کا ثبوت نہیں ملا۔
تحقیق کرنے والی ٹیم کی ایک اور رکن آندریا بری کو تشویش تھی کہ کچھ خواتین جن کو یہ خیال ہے کہ ان کے جسم میں ’جی سپاٹ‘ نہیں احساس کمتری کا شکار ہو سکتی ہیں جو بالکل غیر ضروری ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن میں سیکس کے امور کے بارے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر پیٹرا بوئنٹن نے کہا کہ ’جی سپاٹ‘ کو تلاش کرنے میں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ نہ ملے تو اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
’جی سپاٹ یا گرافینبرگ سپاٹ‘ کا نام جرمنی کی گائنوکالوجسٹ ارنسٹ گرافینبرگ کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے پچاس سال قبل پہلی بار بتایا کہ یہ مقام عورت کی وجائنا یا رحم کے راستے میں دو سے پانچ سنٹی میٹر اندر پایا جاتا ہے۔
بشکریہ BBC