کیا دماغ انٹرنیٹ کی طرح کام کرتا ہے؟
کیا دماغ انٹرنیٹ کی طرح کام کرتا ہے؟
ایک نئی سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذہن کی کارگزاری انٹرنیٹ سے متشابہ ہے۔ اس تحقیق سے 19 ویں صدی کے دماغ سے متعلق ’’ٹاپ ڈاؤن‘‘ نظریے کی نفی ہو گئی ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق ذہنی دباؤ یعنی ڈپریشن وغیرہ کے لئے دماغ کے مختلف چھوٹے چھوٹے مخصوص حصوں کے درمیان ایک مستحکم کنیکشن دیکھا گیا ہے۔ نیشنل اکیڈمی آف سائنس نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں دماغی عوامل اور کارکردگی کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس تحقیق سے انسانی اعصابی نظام کا مکمل خاکہ سامنے لانے میں خاصی مدد ملے گی۔
امریکہ کی ساؤتھ کیلیفورنیا یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدانوں لیری سوینسن اور رچرڈ تھامپسن کی مشترکہ تحقیق پر مبنی اس رپورٹ میں چوہے کے دماغ کے ان خانوں کا جائزہ سامنے لایا گیا ہے، جو خوشی حاصل ہو جانے سے متعلق تھے۔Bildunterschrift: محققین کے مطابق دماغ کے افعال بالکل انٹرنیٹ جیسے ہیں
ان سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں ایک خاص انجیکشن ’’ٹریسرز‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ اس انجیکشن میں شامل مرکب دماغی بافتوں میں مختلف نکات کا باعث بنتا ہے اور مالیکیولز دماغی سگنلز کو متاثر کئے بغیر خوردبین کی مدد سے ان اشاروں کے ساتھ ساتھ چل کر انہیں دیکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
اس تحقیق میں چوہےکے دماغ کے ایک ہی حصے میں اس انجیکشن کے دو مرکبات منتقل کئے گئے۔ ان میں سے ایک مرکب کا کام یہ بتانا تھا کہ سگنلز کہاں سے آ رہے ہیں جبکہ دوسرا یہ بتاتا تھا کہ سنگلز جا کہاں رہے ہیں۔ اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ چوہے کے دماغ میں موجود ربط چہار سطحی ہے۔
’’اس چہار سطحی ڈھانچے سے یہ واضح ہے کہ دماغ کسی بڑی کمپنی کی طرح کام کرتا ہے، جہاں مختلف حصے آزادانہ کارکردگی میں مصروف ہوتے ہیں۔‘‘
بشکریہDW