ٹک ٹاک پاکستان میں تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ
اگر ایسا کہا جائے کہ ٹک ٹاک 2019 کی مقبول ترین سوشل میڈیا ایپ ہے تو غلط نہیں ہوگا کیوں کہ اسے استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
نوجوانوں میں اس ایپ کا استعمال بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور اس میں مہارت کا حصول بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں، اس ایپ کو اب تک آئی او ایس اور اینڈرائیڈ پر ایک ارب سے زائد بار ڈاﺅن لوڈ کیا جاچکا ہے۔
2016 میں قائم ہونے والی ٹک ٹاک حالیہ عرصے میں ایشیا میں تیزی سے ابھرنے والی سوشل میڈیا ایپ بن کر سامنے آئی ہے۔
اس حوالے سے ٹک ٹاک کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ یہ ایپ دنیا بھر میں 150 سے زائد مارکیٹوں اور 75 زبانوں میں دستیاب ہے، ٹک ٹاک پاکستان میں محفوظ تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کے لیے پر عزم ہے۔
کمپنی کے مطابق ٹک ٹاک ہر شخص کو براہ راست اس کے اسمارٹ فون سے تخلیق کار بننے کے قابل بناتی اور اپنے استعمال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے ذریعے ایک ایسی برادری کو تشکیل دینے کے لیے پرعزم ہے جہاں لوگ روزانہ کے لمحات پر مبنی اپنی ویڈیوز کے ذریعے تخلیقی صلاحیت شیئر کر سکیں۔
ٹک ٹاک کمپنی نے تسلیم کیا کہ انتظامیہ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اس پلیٹ فارم کو استعمال کرنے والوں کے لیے محفوظ بنایا جائے، اسی وجہ سے ٹک ٹاک کی متعدد پالیسیاں اور استعمال کرنے والوں کے لیے وسائل عوامی سطح پر دستیاب ہیں جبکہ کمیونٹی رہنما اصولوں اور سروس کی شرائط پر عمل کیا جاتا ہے، ساتھ ہی اس کو یقینی بنانے کے لیےصارفین کو متعدد کنٹرولز، ٹولز اور پرائیویسی سیٹنگز جیسے فیچرز فراہم کیے گئے ہیں۔
کمپنی نے بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ ٹک ٹاک مختلف پالیسیوں، ٹیکنالوجیز اور ماڈریشن کی حکمت عملی پر مشتمل ایک مجموعے پر عمل کرتا ہے تاکہ مسائل پیدا کرنے والے مواد اور اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جاسکے اور مناسب جرمانے عائد کیے جاسکیں۔
ٹک ٹاک کے مطابق وہ اپنی برادری کے لیے رہنما اصولوں پر بہت سنجیدگی سے عمل کرتا ہے اور اپنے استعمال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرنا ہے تاکہ وہ ان پر سنجیدگی سے عمل کرسکیں۔
ایڈووکیٹ ندیم سورو نے لاہور ہائیکورٹ میں دائر اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ‘ٹک ٹاک حالیہ دور کا بہت بڑا فتنہ ہے، یہ نوجوان نسل کو تباہ کررہا ہے اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دے رہا ہے’۔
درخواست میں عدالت کو بتایا گیا کہ مذکورہ ایپ ایک چائینیز کمپنی نے بنائی ہے اور اسے گزشتہ سال دنیا بھر میں استعمال کے لیے پیش کیا گیا تھا۔