شادی – عمر بڑھانے کا باعث ، نیا سائنسی انکشاف
دنیا بھر میں ایسے مرد کم کم ہی ہوں گے جنہیں اپنی بیوی سے کوئی شکایت نہ ہو۔ انہیں جہاں کہیں موقع ملتا ہے چاہے لطیفوں اور مزاح کے انداز میں ہی سہی، شکائتیں زبان پر لے آتے ہیں۔ اور اسی طرح ایسی بیویاں بھی کم کم ہی ہیں جنہیں اپنے میاں سے کوئی گلہ نہ ہو اور جو اپنی سکھیوں میں اس کی شکایت نہ کرتی ہوں۔مگر اس حقیقت کا دوسرا رخ یہ ہے کہ شادی کا بندھن ان کی عمر کا دورانیہ بڑھا دیتاہے اورشادی شدہ افراد عموماً طویل عمر پاتے ہیں۔ایک نئی سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ شادی شدہ افراد ، تنہا زندگی گذارنے والوں کی نسبت نہ صرف طویل عمر پاتے ہیں بلکہ وہ صحت مند زندگی کے فوائد بھی حاصل کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہناہے کہ شادی انسان کے لیے بہت سے ثمرات لاتی ہے۔ مثال کے طورپر زیادہ تر بیویاں اپنے شوہر کی صحت کا بہت زیادہ خیال رکھتی ہیں جب کہ مردوں کی اکثریت اپنی صحت کے سلسلے میں لاپروا ہوتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ شادی کا بندھن خواتین کی نفسیاتی کیفیات کو اعتدال پر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور انہیں کئی نفسیاتی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ کیونکہ خواتین زیادہ حساس ہوتی ہیں اوراکیلاپن ان کے نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہونے کےامکان کو بڑھا دیتاہے۔
برطانیہ کی ویلز کاؤنٹی کے یونیورسٹی ہاسپٹل کے سکول آف میڈیسن میں انسانی زندگی پر شادی کے اثرات پر کئی برسوں سے جاری مطالعاتی جائزے کے نتائج حال ہی میں جاری کیے گئے ہیں۔ اس جائزے میں یورپی یونین کے سات ممالک کے ہزاروں افراد کے طبی اعدادوشمار کا مطالعہ کیا گیا۔ جس سے یہ ظاہر ہوا کہ شادی شدہ افراد تنہازندگی گذارنے والوں کے مقابلے میں دس سے 15 سال تک زیادہ زندہ رہتے ہیں۔
تحقیقی ٹیم کےایک ماہر ڈیوڈ گیلشر کہتے ہیں کہ ازواجی زندگی کے دوران پروان چڑھنے والے انسیت اور تعلق کے جذبات دماغی اعصبی نظام کے اس حصے کی کارکردگی بہتربناتے ہیں جن کاتعلق دماغ اور جسم کے درمیان پیغام رسانی سے ہوتاہے۔ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی رپورٹ سے یہ بھی پتا چلا کہ ٹین ایج یعنی نوعمری کے رومانس کے اثرات عموماً منفی ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ اکثر اوقات ڈیپریشن کی علامتوں کی شکل میں سامنے آتاہے۔ مطالعاتی جائزے کے مصنفین کا کہناہے کہ محبت کے جسمانی اور نفسیاتی صحت پر مثبت اثرات اجسمانی اور ذہنی بلوغت یا پختگی کی عمر پر پہنچنے کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔
جائزے میں کہا گیا ہے کہ جسمانی اور ذہنی بلوغت کی عمر قدرتی اعتبار سے مردوں اور عورتوں کے لیے مختلف ہوتی ہے۔ خواتین اس دور میں عموماً 19 اور 25 سال کی عمر کے درمیان داخل ہوتی ہیں ، جب کہ مرد وں پر یہ عہد 25 سال کی عمر کے بعد آتاہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی ان کے لیے شادی کی مناسب ترین عمر ہوتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شادی شدہ جورڑے تنہاافراد کی نسبت زیادہ معاشرتی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ ان کی فوائد کی ایک شکل انہیں اپنے جیون ساتھی، اس کے رشتے داروں اور دوست احباب کی جانب سے حاصل ہونے والا تعاون ہے جو ان کی زندگی کو مزید خوشگوار بناتا ہے۔شادی شدہ افراد کو معاشرے میں نسبتاً زیادہ قابل بھروسہ سمجھا جاتاہےجس سے انہیں مزید معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
شادی شدہ جوڑے چونکہ ایک دوسرے کے عمر بھر کے ساتھی ہوتے ہیں اس لیے ایک دوسرے کےبارے میں ان کی سوچ عموماً بے لوث اور خلوص پرمبنی ہوتی ہے۔ جب کہ شادی کے بغیر اکھٹے رہنے والے جوڑوں کے درمیان باہمی اعتماد میں کم ہوتا ہےاوروہ ہمیشہ اپنے مفاد کوترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے لاشعور میں یہ خوف موجو د ہوتا ہے کہ ان کاساتھی انہیں چھوڑ کر جاسکتا ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ شادی صرف دو افراد کے درمیا ن ایک معاہدہ نہیں ہے بلکہ قانون اور معاشرہ اس میں ضامن کے طور پر موجود ہوتے ہیں جو اس تعلق کو آسانی سے ٹوٹنے نہیں دیتے۔ یہ وہ عوامل ہیں جو شدہ افراد کی زندگی میں سکون ، اطمینان اور توازن لاتے ہیں اور عمر میں اضافہ کرتے ہیں۔تاہم ڈیوڈ گیلشر کا کہناہے کہ ضروری نہیں ہے کہ سبھی شادی شدہ جوڑے خوش وخرم زندگی کے ثمرات سے فیض یاب ہورہے ہوں۔ ذہنی عدم موافقت اور کئی دوسرے عوامل ازدواجی زندگی کو اجیرن بھی بناسکتے ہیں اور اس سے جنم لینے والی پیچیدگیاں اوردباؤانسان کو مختلف امراض کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔چنانچہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ تناؤ کے بندھن میں بندھے رہنے سے تنہا زندگی گذارنا کوئی برا سودا نہیں ہے۔
لیکن ڈیوڈ گیلشر اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلقات چاہے کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں، شادی شدہ زندگی بہرحال تنہائی سے بہتر ہے اور کشیدہ تعلقات کے نقصانات کے مقابلے میں شادی شدہ زندگی کے فوائد بہرطورزیادہ ہیں۔
بشکریہ VOA