بلغاریہ میں سنگ ماہی کے شکار پر پابندی
صوفیہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بلغاریہ میں حکام نے سنگ ماہی یا ماہی خاویار نامی مچھلیوں کی اُن اقسام کے شکار پر پابندی لگا دی ہے، جن کی نسلوں کو ان کے انڈوں سے تیار کی جانے والی بہت مہنگی انسانی غذا کی وجہ سے ناپید ہو جانے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔
بلغاریہ میں حکومت نے خاص طور پر دریائے ڈینیوب میں پائی جانے والی ان مچھلیوں کے شکار پر ابھی حال ہی میں ایک سال کے لیے پابندی عائد کر دی تھی۔ اس پابندی کوWWF نے مچھلیوں کی ان کمیاب ہوتی جا رہی اقسام کے تحفظ کے لیے ایک فیصلہ کن قدم قرار دیا ہے۔ دریائے ڈینیوب میں پائی جانے والی سنگ ماہی کی کئی ذیلی اقسام کی یہ مچھلیاں آبی جانوروں کے ایک ایسے کمیاب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جو طویل عرصہ قبل ہجرت کر کے مشرقی یورپ کے دریائی علاقوں میں آیا تھا۔
ماہی خاویار نامی ان مچھلیوں کا اب تک بےتحاشا شکار کیا جاتا تھا، جس کی وجہ ان کے انڈوں سے تیار کیے جانے والا وہ caviar یا اچار کی طرح کا آمیزہ ہے، جس کے قیمت بین الاقوامی منڈیوں میں 6000 یورو یا تقریباﹰ 9000 امریکی ڈالر فی کلو گرام تک بنتی ہے۔
بلغاریہ کی حکومت نے فی الحال سنگ ماہی کے شکار پر ایک سال کے لیے پابندی لگائی ہے جس میں توسیع کا فیصلہ اگلے سال مارچ میں کیا جائے گا۔ صوفیہ میں ماہی گیری کے ملکی محکمے نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ اگلے سال مارچ میں ان مچھلیوں کے شکار پر پابندی کی موجودہ مدت میں پانچ سال تک کی توسیع کر دی جائے۔
ناپید ہو جانے کے خطرے سے دوچار ان آبی جانوروں کے شکار پر بلغاریہ میں لگائی جانے والی پابندی دریائے ڈینیوب کے بلغاریہ سے گزرنے والے حصے میں صوفیہ حکوکت کی طرف سے عائد کردہ اپنی نوعیت کی پہلی پابندی ہے۔
اس سے قبل اپریل سن 2006 میں بلغاریہ کے ہمسایہ ملک رومانیہ نے بھی اپنے ہاں دریائی پانیوں میں سنگ ماہی کے شکار پر دس سال کے لیے پابندی لگا دی تھی۔ پوری دنیا میں سنگ ماہی نسل کی مچھلیاں بحیرہء اسود اور بحیرہء کیسپیین کے ساتھ ساتھ دریائے ڈینیوب کے رومانیہ اور بلغاریہ سے گزرنے والے حصوں میں مقابلتاﹰ سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ دریائے ڈینیوب کے پانیوں میں پائی جانے والی سنگ ماہی کی اقسام میں سے سب سے مشہور Beluga نامی مچھلی ہو تی ہے، جو سنگ ماہی کی دیگر اقسام کے مقابلے میں اپنی جسامت میں بہت بڑی ہوتی ہے۔
DWD