URDUSKY || NETWORK

انٹرنیٹ کی آزادی کو درپیش خطرات

111

انٹرنیٹ کی آزادی کو درپیش خطرات

کئی جمہوری اور ٕمغربی حکومتیں ایسی پالیسیاں بنانے کے بارے میں سوچ رہی ہیں جن سے انٹرنیٹ کی آزادی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ جیسے انٹرنیٹ کو بچوں کے لئے محفوظ بنانے کے لئے سینسرکی تجویز۔ اگرچہ ایسی زیادہ تر پالیسیوں کا مقصدتعمیری ہے مگر کچھ ممالک جس انداز سے یہ مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں اس سےانٹرنیٹ کی آزادی کو خدشات لاحق ہیں۔
صحافیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نےعرب امارات کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے احتجاج منظم کرنے کے لیے بلیک بیری فونز استعمال کرنے والوں کو گرفتار کیا ہے۔تنظیم کا کہنا ہے اس کارروائی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کئی حکومتیں شہری آزادیوں کو کچلنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی استعمال کررہی ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں انٹرنیٹ کی نگرانی، اس کی آزادی اور حکومتوں کی جانب سے سوشل نیٹ ورکس کے استعمال کے ذریعے شہریوں کی گرفتاریوں جیسے معاملات کو سامنے لانا ہوگا۔
رابرٹ تونس کی مثال دیتے ہیں جہاں حکومت نے انٹرنیٹ کی مدد سے انسانی حقوق کے کارکنوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن سین تھیا وانگ کہتی ہیں کہ کئی جمہوری اور ٕمغربی حکومتیں بھی ایسی پالیسیاں بنانے کے بارے میں سوچ رہی ہیں جن سے انٹرنیٹ کی آزادی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ جیسے انٹرنیٹ کو بچوں کے لئے محفوظ بنانے کے لئے سینسرکی تجویز۔
اگرچہ ایسی زیادہ تر پالیسیوں کا مقصدتعمیری ہے مگر کچھ ممالک جس انداز سے یہ مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں اس سےانٹرنیٹ کی آزادی کو خدشات لاحق ہیں۔
انٹرنیٹ کی آزادی کے علمبردار جنوبی کوریا کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں حکومت صارفین پر زور دے رہی ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر اپنے اکاؤنٹ اپنےاصل ناموں کے ساتھ ہی کھولیں۔ رابرٹ کا خیال ہے کہ حکومت کے اقدام کی وجہ موبائل فون کے ذریعے احتجاج منظم کرنے سے روکنا ہے۔ امریکہ میں وفاقی تحقیقاتی ادارےایف بی آئی بھی اس کوشش میں ہے کہ کانگرس انہیں انٹرنیٹ صارفین کے ذاتی کوائف تک زیادہ رسائی کی اجازت دے۔مگر حکومتوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیاں اور اس سے منسلک ادارے بھی انٹرنیٹ کی آزادیوں کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔
رابرٹ کا کہنا ہے کہ حکومتیں کمپنیوں پر سنسرشپ لگانے اور صارفین پر نظر رکھنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہیں۔اب شہری آزادیوں کا انحصار اس پر ہے کہ یہ کمپنیاں اس دباؤ سے کیسی نمٹتی ہیں۔
اس سلسلے میں رابرٹ نوکیا سائمنز کی مثال دیتے ہیں جس نے موبائل فون کے صارفین کی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور آلات ایران کے دیے ہیں۔ لیکن گوگل کے بوب بورسٹین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی آزادی ایک ادھورا خواب ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ گوگل میں ہماری ذمہ داری انٹرنیٹ پرزیادہ سے زیادہ معلومات تک رسائی کو ممکن بنانا ہے ۔تاہم بالکل شفاف آزادی اظہار جیسی چیز کہیں نہیں ہے۔
ماضی میں تھائی لینڈ اور ترکی نے گوگل کو خبردار کیاتھا کہ اگر اس نے کچھ ویب سائٹس کو اپنے سرچ انجن سے خارج نہ کیا تو اس پر پابندی لگا دی جائے گی۔گوگل نے ان کے مطالبات رد کر دئیے تھے جس کے نتیجے میں سرچ انجن کی کئی سہولتیں جیسے یوٹیوب پر پابندی لگادی گئی تھی ۔ تاہم گوگل کے ایک اعلیٰ عہدے دار کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی نے کئی معاملات میں حکومتوں کے ساتھ سمجھوتے بھی کئے ہیں۔
سین تھیا وانگ کہتی ہیں کہ چین بتدریج انٹرنیٹ کی آزادی پر پابندی اور شہریوں پر نگرانی کے نظام کو سخت بنا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کئی دوسرے ممالک اس مسئلے پر چین کی تقلید کر نا چاہتے ہیں۔
بشکریہ VOA