URDUSKY || NETWORK

توانائی کے موضوع پر یورپی یونین کا پہلا اعلیٰ سطحی اجلاس

92


یورپی یونین کے رکن ملکوں نے توانائی کے شعبے میں باہمی تعاون کو اور زیادہ مستحکم بنانے، مجوزہ داخلی منڈی کو صحیح معنوں میں عملی شکل دینے اور قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

حال ہی میں برسلز میں توانائی کے موضوع پر یورپی یونین کے اپنی نوعیت کے اِس پہلے اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اربوں یورو کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے تین سال کے اندر اندر یورپ بھر میں بجلی اور گیس کی نئی لائنیں بچھائی جائیں گی تاکہ 2014ء تک یورپی داخلی منڈی کو عملی شکل دی جا سکے اور رکن ملکوں کے درمیان بجلی اور گیس کی آزادانہ ترسیل ممکن ہو سکے۔

یورپی یونین کے اِس اجلاس میں یورپ بھر میں توانائی کی فراہمی کے ڈھانچے کو وسعت دینے اور جدید خطوط پر اُستوار کرنے پر اتفاقِ رائے کیا گیا۔ اجلاس میں جمع رہنماؤں نے کہا کہ سن 2050ء تک ماحول کے لیے ضرر رساں کاربن گیسوں میں 80 تا 85 فیصد کمی کا ہدف توانائی کے نظاموں میں انقلاب لا کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

توانائی سے متعلقہ امور کے یورپی کمشنر گنٹر اوئٹنگر، جن کا تعلق جرمنی سے ہے

یورپی کمشنر برائے امورِ توانائی گنٹر اوئٹنگر نے برسلز میں منعقدہ حالیہ اجلاس کو توانائی کی مشترکہ یورپی پالیسیوں کے ضمن میں ایک بڑا موڑ قرار دیا۔ اِس اجلاس میں بجلی اور گیس کی نئی لائنیں بچھانے کے جو فیصلے کیے گئے، اُن کے نتیجے میں سرِ دست صارفین کو بجلی اور گیس کے زیادہ بل ادا کرنا پڑیں گے۔ تاہم طویل المدتی بنیادوں پر مختلف اداروں کے درمیان مقابلہ بازی بڑھنے سے توانائی کی لاگت کم ہوتی جائے گی۔

یورپی یونین کے توانائی کے امور کے کمشنر گنٹر اوئٹنگر بتاتے ہیں: ’’ایک طویل عرصے تک توانائی کا موضوع ایک قومی اور ایک علاقائی موضوع تھا۔ گزشتہ بارہ برسوں سے، یعنی جب سے یورپ میں بجلی اور گیس کی داخلی منڈی وجود میں آئی ہے، تب سے اِس موضوع کو یورپی سطح پر لے جانے کا عمل شروع ہوا ہے۔ ایک سال پہلے منظور ہونے والے لزبن معاہدے کے ذریعے بالآخر توانائی کے شعبے میں یورپی سطح کی قانون سازی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔‘‘

یورپی یونین سن 2020ء تک توانائی کے شعبے میں قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی کا تناسب کم از کم 20 فیصد تک لے جانا چاہتی ہے۔ گنٹر اوئٹنگر کے مطابق گزشتہ برس یورپی یونین کے چند ایک رکن ملکوں نے اِس ہدف کے حصول کی طرف پیشرفت کی ہے جبکہ دیگر ابھی اِس سلسلے میں کچھ پیچھے ہیں۔ اوئٹنگر کے مطابق زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے اِن اہداف کو حاصل کرنا ممکن ہے۔

ہوا سے توانائی حاصل کرنے والے یورپی ممالک میں جرمنی سرفہرست ہے

اوئٹنگر کہتے ہیں: ’’توانائی کے متبادل ذرائع کے شعبے میں 2009ء میں ہم اِس نتیجے پر پہنچے تھے کہ  35 ارب یورو کی سرمایہ کاری کی جانی چاہیے۔ اب لیکن اگر ہم اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک توانائی پیدا کرنا چاہتے ہیں، تو آنے والے برسوں میں ہمیں ہر سال اِس سرمایہ کاری کو دگنا کر کے 70 ارب یورو تک لے جانا ہو گا۔

گنٹر اوئٹنگر کی کوشش تھی کہ یورپ بھر میں ماحول دوست توانائی کے نظاموں کو ایک جیسا کر دیا جائے۔ اُن کی تجویز یہ تھی کہ ہوا سے توانائی خاص طور پر برطانیہ کے ساحلی علاقوں سے حاصل کی جائے اور سورج سے توانائی بالخصوص اٹلی، اسپین اور یونان سے حاصل کی جائے اور پھر پورے یورپ کو فراہم کی جائے تاکہ سستی بھی پڑے۔ تاہم اوئٹنگر اپنی یہ تجاویز منوانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جرمنی اور دیگر ممالک کو خدشہ ہے کہ ایسا کرنے سے اُن کی مقامی صنعتیں اور قومی منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔

یورپ ہر سال اپنی مجموعی داخلی پیداوار کا 2.5 فیصد یعنی 270 ارب یورو بیرونی ممالک سے تیل اور گیس درآمد کرنے پر خرچ کرتا ہے۔ اوئٹنگر نے کہا کہ یورپی کمیشن کو اب بڑی حد تک یہ اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ پوری یورپی یونین کی نمائندگی کرتے ہوئے دیگر براعظموں میں یورپ کے اُن ساتھی ممالک کے ساتھ مذاکرات کر سکتا ہے، جہاں سے توانائی یورپ درآمد کی جاتی ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو دی