DVD سے ہزار گنا زیادہ گنجائش والی ڈِسک
ٹوکیو یونیورسٹی کے کیمسٹری کے پروفیسر شِن اِیچی اوکوشی نے بتایا کہ یہ مادہ ٹائیٹینیم آکسائیڈ کی نئی کرسٹل یا قلمی شکل ہے، جو ابتدا میں سیاہ رنگ کی دھاتی حالت میں ہوتی ہے۔ جب اِس پر روشنی پڑتی ہے تو یہ بھورے رنگ کے سیمی کنڈکٹر میں بجلی منتقل کرتی ہے۔ یہ مادہ روشنی پڑنے کی صورت میں بار بار کبھی اپنی دھاتی حالت میں چلا جاتا ہے اور کبھی سیمی کنڈکٹر والی حالت میں آ جاتا ہے۔ یُوں آن اور آف (Off) کی سہولت کے ہوتے ہوئے ڈیٹا سٹور کرنے کا ایک مؤثر عمل وجود میں آ جاتا ہے۔ایک ایسے مادے کو، جو روشنی پڑنے پر اپنا رنگ تبدیل کر لیتا ہو، ڈیٹا سٹور کرنے کے مختلف طریقوں میں استعمال کیا جا سکت
ا ہے کیونکہ ہر رنگ روشنی کو الگ طریقے سے منعکس کرتا ہے اور یُوں مختلف معلومات ذخیرہ کرنے کی سہولت فراہم ہو جاتی ہے۔ ٹوکیو یونیورسٹی کے محققین کی ٹیم اِس مادے کو انتہائی چھوٹے سائز کے ذرات میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اِن ذرات کا قطر پانچ تا بیس نینو میٹر ( ایک میٹر کا پانچ ارب واں تا بیس ارب واں حصہ) بتایا گیا ہے۔
اگر اِن میں سے سب سے چھوٹے سائز کے ذرے کو استعمال کرتے ہوئے ایک نئی سُپر ڈِسک بنائی جائے تو وہ آج کل استعمال ہونے والی بلُو رے ڈِسک سے ایک ہزار سے زیادہ گنا زیادہ معلومات ذخیرہ کر سکتی ہے، بشرطیکہ اِس طرح کے ڈیٹا کو لکھنے پڑھنے والے متعلقہ آلات تیار کر لئے جائیں۔ سنگل لیئر والی ایک بلُو رے ڈِسک عام ڈی وی ڈی سے پانچ گنا زیادہ ڈیٹا سٹور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
پروفیسر اوکوشی بتاتے ہیں کہ جس مادے (جرمینیم اینٹی منی ٹیلوریم) سے آج کل کے بلُو رے ڈِسک اور ڈی وی ڈی تیار کئے جاتے ہیں، اُس کے مقابلے میں ٹائیٹینیم آکسائیڈ کی قیمت ایک سو گنا کم ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’یہ نیا مادہ سستا ہونے کے ساتھ ساتھ محفوظ بھی ہے اور ابھی سے فیس پاؤڈر سے لے کر سفید پینٹ تک مختلف مصنوعات میں استعمال بھی ہو رہا ہے۔‘
پروفیسر اوکوشی نے کہا، وہ نہیں جانتے کہ اِس مادے کی مدد سے کوئی ڈِسک کب تک بن کر تیار ہو سکے گی اور کب تک عملی استعمال میں آ سکے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ اِس مادے کو کاروباری بنیادوں پر تیار کرنے کے سلسلے میں عنقریب نجی شعبے کے اداروں کے ساتھ بات چیت شروع کرنے والے ہیں۔ اِس نئی تحقیق کے نتائج برطانوی جریدے ’نیچر کیمسٹری‘ کے آن لائن ایڈیشن پر جاری کئے گئے ہیں۔
بشکریہ DW