گرم و سرد ہوائیں
تحریر: محمد الطاف گوہر
13 مئی بروز جمعرات کو دوپہر پی سی ہوٹل میں ایک سیمینار کے دوران ہاوس آف لارڈ زکے رکن لارڈ نذیر صاحب کو انکی خدمات اور اعزاز میں ایک ادارہ برائٹ فیوچر نے انکی خدمت میں میڈل اور شیلڈ پیش کی۔جبکہ سیمینار کا انعقاد اور موضوع بظاہر پاکستان میں تعلیمی پسماندگی اور خواتین کو درپیش مسائل کو زیر بحث لانا تھا اورمقررین نے اس پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تقاریرمیں اگر ایک طرف لارڈ نذیر صاحب کی شخصیت کوخراج تحسین پیش کیا گیا تو دوسری طرف پاکستان میں تعلیمی اور خواتین کے مجروح ہوتے ہوئے استحقاق کو بھی شامل حال رکھا گیا۔
بظاہر تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے پاکستان میں شعبہ تعلیم انتہائی پس ماندہ ہو چکا ہے اور اب اس ڈوبتی کشتی میں آخری کیل ٹھونکی جا رہی ہے ، جبکہ مقررین کی توجہ صرف اس شعبہ کے ایک ہی پہلو کو اجاگر کرنے پر تھی مگر اس ملک میں پرائیوٹ سیکٹر کی بے انتہا کاوش ، آئی ٹی کے انقلاب اور جدید نصاب پیش رفت کسی کو نظر نہ آئی ، البتہ اگر کسی کی روایتی درشتگی کو مان بھی لیا جائے تو بھی حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں اور تعلیم سلسلہ میں بہتر ہوتا ہوا گراف کسی طوربالائے طاق نہیں رکھا جا سکتا۔ اسی زمن میں اساتذہ کے لئے تربیتی پرگرام کا نقطہ نظر پیش کیا گیا جو کہ اس بات کو منہ بولتا ثبوت ہے کہ آج کا طالب علم ٹیکنالوجی کی بدولت صدیوں کا فاصلہ لمحوں میں طے کر رہا ہے جبکہ دنیا جہان کے انسائکلوپیڈیا اور ڈیجیٹل لائیبریاں آن لائن کر دی گیں ہیں جبکہ آج کے طالبعلم کیلئے ان سب سے آشنائی قرین قیاس نہیں ۔ اب اگر اساتذہ اپنے آپ کو جدید آلات سے لیس نہیں کریں گے تو طالبعلم انہیں آسانی سے پچھاڑ دیں گے جوکہ آج کے دور کا ملکی المیہ تو ہو سکتا ہے مگر خواندگی میں پیش رفت کا ایک مثبت رخ بھی پیش کرتا ہے۔
اسی طرح دہشت گردی کے موضوع کو بھی زیر بحث لایا گیا اور یہ تصور بھی پیش کیا گیا کہ ناخواندگی ہی اس کا محرک ہے جو کہ اپنی جگہ پر ایک معنی رکھتا ہے مگر خواندگی سے بہرور ہونے کے بعدبھی اگر مفلسی کمر توڑ کررکھ دے تو اسکا کیا کہنا؟ اور اگر میرٹ کو بالائے طاق رکھ کر اقربا پروری کی جائے تو اسکا کیا کہنا ؟ اور اگر نظریہ ضرورت سامنے رکھ کر انصاف کے تقاضے بھلا دئے جائیں تو پھر ردعمل کو کیا کہیں؟
محترم لارڈ نذیر صاحب نے اپنے خطاب میں اپنی زندگی کے روشن پہلووں پر روشنی ڈالی اور ساتھ ساتھ سیمینار کا مزاج بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی کہ ایسے پروگرام تو بہت خوشگوار ماحول میں ہوتے ہیں مگر یہاں تو انتہائی سنجیدگی کا موحول بنا ہوا ہے ، جناب کی کاوش کامیاب ہوئی اور انکی گفتگو نے ماحول خوشگوار بنا دیا۔ آپ نے بتایا کہ وہ برطانیہ میں پورے پاکستان کے نمائندگی کرتے ہیں جو کہ انکے لئے قابل فخر بات ہے جبکہ وہ ہمیشہ انٹر ریلیجن ، بین المزاہب منشور کو ملحوظ خاطر رکتھے ہیں۔ انکی سوچ کے مطابق اقلیت اور اکثریت کا کوئی تصور نہیں بلکہ ایک ملک میں تمام مل جل کر رہتے ہیں اور اسی طرح انسانی جذبوں کی روش پر ایک صحت مند معاشرہ قائم رہنا چاہئے۔
معاشرہ سے جب تک ناسور ختم نہ کیئے جائیں اس میں صحت مندی کے آثار کیسے پائے جا سکتے ہیں البتہ آج کے حالات عدلیہ کے استحکام کا منہ بولتا ثبوت ہیں ، آج ہی کی ایک تازہ خبر کے مطابق بینک آف پنجاب فراڈاسکینڈل کے مرکزی کردارہمیش خان کوواشنگٹن میں نیب حکام کے حوالے کردیاگیاہے، وہ کل پاکستان پہنچیں گے۔ ہمیش خان نو ارب روپے فراڈ کیس میں پاکستان کو مطلوب تھے اور سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیکر شریک ملزمان کو بیرون ممالک سے لانے کا حکم دیا تھا۔
ماضی میں ملکی حالات کے پیش نظر عالمی میڈیا پر پاکستان کا امیج ناخوشگوار رہا ہے مگر اب امید ہے کہ اب عالمی طور پر کسی جانبداری کا مظاہرہ نہیں ہوگا کونکہ حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والے الیکشن میں برطانوی ہاوس آف لارڈز کی رکن اور کنزرویٹو پارٹی کی نو منتخب پاکستان نزاد چیر پرسن سعیدہ وارثی کو برطانیہ کی پہلی مسلمان خاتون وزیر کا اعزازحاصل ہوا ،جبکہ سعیدہ وارثی نے کہا ہے کہ ان کا وزیر اور ٹوری پارٹی کی چیئرپرسن بنایا جانا پوری پاکستانی کمیونٹی کے لئے باعث اعزاز ہے۔ جبکہ انکا کہنا تھا کہ بحثیت ایک مسلمان عورت انہیں انتخابات میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
feedback
[email protected]