مشرقی انٹارکٹکا میں برف کا پگھلاؤ، ایک لمحہ فکریہ
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں جگہ پر موجود برف اس قدر ہے کہ اس نے سمندر کی سطح میں چھ سے سات میٹر یا بیس فٹ تک اضافے کو روک رکھا ہے۔ اگر ان دونوں علاقوں پر موجود برف مکمل طور پر پگھل جاتی ہے تو سمندری سطح میں اضافے سے دنیا کے کئی ممالک مکمل طور پر زیرآب چلے جائیں گے
براعظم انٹارکٹیکا کے سرد ترین حصے میں برف پگھلنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ سامنے آنے والے اعداد وشمار نے سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے کیونکہ کہ اس خطے میں درجہ حرارت بہرحال نقطہ انجماد سے بہت نیچے ہے۔
زمین کے براعظم منجمد جنوبی انٹارکٹکا کے مشرقی حصے میں تیزی سے برف پگھلنے کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹوں نے سائنسدانوں اور محققین کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ سائنسی جریدے جنرل نیچر جیو سائنس میں چھپنے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں پیش کردہ اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں اس براعظم کے سب سے کم تبدیلیوں کے حامل مشرقی حصے میں موجود برف کے گلیشیر ز تیزی سے پگھلنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ فی الحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس عمل کی وجہ گلوبل وارمنگ ہے یا کچھ اور.گزشتہ تین برسوں میں برف کے پگھلاؤ کی رفتار میں تیز رفتاری دیکھی گئی ہے:
امریکی ٹیم گریویٹی میژرنگ سیٹیلائٹ مشن گریس کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق انٹارکٹیکا کے مغربی حصے میں ایسی تبدیلیاں پہلے سے ریکارڈ کی جا رہی ہیں تاہم مشرقی حصہ قدرے محفوظ سمجھا جا رہا تھا۔
اس رپورٹ سے قبل ناسا گریویٹی ریکوری اور ماحولیاتی تجربات مشن نے اپنی رپورٹ میں گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا کے مغربی حصے پر برف کے پگھلنے کے عمل کی نشاندہی کی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں جگہ پر موجود برف اس قدر ہے کہ اس نے سمندر کی سطح میں چھ سے سات میٹر یا بیس فٹ تک اضافے کو روک رکھا ہے۔ اگر ان دونوں علاقوں پر موجود برف مکمل طور پر پگھل جاتی ہے تو سمندری سطح میں اضافے سے دنیا کے کئی ممالک مکمل طور پر زیرآب چلے جائیں گے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انٹارکٹیکا کے مشرقی حصے پر برف پگھلنے کا مطلب سطح سمندر میں ممکنہ طور پر پچاس سے ساٹھ میٹر تک اضافہ ہے۔ تاہم دیگر ماہرین نے اس رپورٹ کے اعداد و شمار کو ناقابل یقین قرار دیا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال انٹارکٹیکا کا مشرقی حصہ بدستور سرد ہے۔ انٹارکٹیکا نے زمین پر موجود پانی کے ایک بڑے حصے کو برف کی شکل میں سٹور کر رکھا ہے:
گریس میژرمنٹ نے اپنے اعداد و شمار میں بتایا ہے کہ سن 2002ء سے سن 2006ء تک اس علاقے میں برف پگھلنے کا عمل ریکارڈ نہیں کیا گیا تاہم گزشتہ تین برسوں میں مشرقی انٹارکٹیکا میں تقریبا ستاون بلین ٹن سالانہ کے حساب سے برف پگھلنے کا عمل دیکھا گیا ہے۔ گریس تحقیقاتی مشن کے یونیورسٹی آف ٹیکساس ان یوسٹن کے سینٹر فار سپیس ریسرچ سے وابستہ اس تحقیقاتی مشن کے سربراہ جیانلی چین کے مطابق: ’’ہمیں مشرقی انٹارکٹیکا میں جاری ان تبدیلیوں پر سخت تعجب ہے۔ انٹارکٹیکا کے مغربی حصے کے مقابلے میں بہرحال یہاں برف پگھلنے کی رفتار کم ہے تاہم پھر بھی یہ بہت خوفناک حقیقت ہے۔‘‘
مغربی انٹارکٹیکا میں ایک سو بتیس بلین ٹن سالانہ جبکہ گرین لینڈ کے علاقے میں دو سو تہتر بلین ٹن سالانہ کے حساب سے برف پگھل رہی ہے۔ انٹارکٹیکا میں برف کا پگھلنا ایک مشکل مسئلہ ہے کیونکہ اس علاقے میں برف پگھلنے اور دوبارہ بننے کا عمل مدتوں سے جاری ہے۔
شہرت یافتہ ماہر ارضیات رچرڈ ایلے کے مطابق براعظم انٹارکٹیکا میں برف پگھلنے کو گلوبل وارمنگ اور دیگر مصنوعی عوامل سے نہیں جوڑا جا سکتا کیونکہ اس خطے میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بہت نیچے ہے۔
’’یہاں برف پگھلنے کا تعلق آہستہ آہستہ برف کے نیچے جمع ہوجانے والے پانی سے ہوتا ہے۔ یہ پانی کسی چکنے مادے کا سا کام دیتا ہے اور یوں برف کے یہ بڑے بڑے گلیشیئرز پانی میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔‘‘
ایلے کے مطابق تازہ رپورٹ میں سمندر کے قریب واقع علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے سو اس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ گلوبل وارمنگ کا نہیں بلکہ ایکو سسٹم کا نتیجہ ہے۔
بشکریہ DWD