قومی ہیرو اور ہیرے
تحریر : محمد الطاف گوہر
ہر قوم کا محور اور مرکز اسکے ہیروز ہوتے ہیں کیونکہ ہر قوم، اقوام عالم میں اپنے ہیروز کے باعث پہچانی جاتی ہے اور اس شناخت کا سہرا ایسے لوگوں کو ہی جاتا ہے جو تن من دھن کی بازی لگا کر دنیا میں نہ صرف اپنی علیحدہ شناخت پیدا کرتے ہیں بلکہ اپنی قوم کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔اور ان ہیروز کو رہتی نسلوں تک یاد رکھا جاتا ہے کہ انکے قوم پر احسانات کا بدلہ ممکن نہیں۔
ایک دور تھا مائیں ایسے لال قوم کو دیتی تھیں کہ جو قوم کا وقار اور قد اونچا کرتے تھے ۔اپنی ثقافت ، تمدن اور ندرت کے باعث کسی بھی قوم کے یہ غیور بیٹے جب کسی کام کی ٹھان لیتے تھے تو اسے پورا کرکے چھوڑتے تھے، جبکہ انکا ہر قدم اپنی قوم کی سر بلندی کیطرف اٹھتا تھا۔ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو ایسے جوانوں کی جھلک نظر آئے گی جو نہ صرف کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے تھے بلکہ اپنے قول و فعل سے ثابت بھی کرتے تھے کہ وہ ایک زندہ قوم کے سپوت ہیں۔
جب تہذیب ، ثقافت، سماج اور تمدن میں ملاوٹ آ جاتی ہے تو اسکے بھیانک نتائج بھی سامنے آنے شروع ہوجاتے ہیں۔آج کی جدت کے اطوار ، رہن سہن اپنے نہیں رہے بلکہ کچھ کھوٹ آ چکا ہے جسکی جھلک ہر تیسرے کنبہ کے لائف سٹائل میں نظر آتی ہے۔ہمارے رسم و رواج اپنے نہیں رہے بلکہ اس پر بھی اغیار کی چھاپ پڑ چکی ہے۔ اپنی تو ثقافت نظر نہیں آتی البتہ امپورٹڈ لائف سٹائل کا دور دورہ ہے۔ جبکہ ماؤں کی گود میں بچے لوری کی بجائے ایمپورٹڈ دھنوں کی جھپ سنتے ہیں اور ہر نئی لے پر تھرکتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ قوم کے معمار کسی بھی طرح سے”ہیرو”ثابت ہوں اور اپنے ملک و قوم کیلئے کچھ کر کے دکھا سکیں؟
پاکستانی قوم انگشت بدنداں ہے کہ کون اس ملک کی کشتی کو منجھدار سے نکال کر سلامتی کے ساحل تک پہنچائے گا؟ مفاد پرستوں کی تو کمی نہیں مگر آج اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی تو اس قوم کو یکسانیت، بدامنی ، خلفشار کے گرداب سے نکال کر ترقی ، امن اور سلامتی کی راہ پر گامزن کر سکے۔ حالات کی ماری ، بحرانوں سے الجھی اور دیوار سے لگی ہوئی قوم اس انتظار میں ہے کہ کوئی تو سچائی کا دامن پکڑے ہوئے انہیں اس منجھدار سے نکالے گا ۔اب کسی ہیرو کی نہیں بلکہ کسی ” ہیرے” کی ضرورت ہے جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ صرف اسکو پچھاڑ دے بلکہ ان ناسوروں سے بھی نبٹنے جو دیمک کیطرح اس قوم کو چاٹ رہے ہیں ، ذخیرہ اندوز ، ملاوٹ کرنے والے ، ڈاکوؤں اور تمام معاشرتی مجرموں کو بھی انکے انجام سے دوچار کرے۔
جبکہ جرم ہمیشہ جہالت، غربت اور مفلسی کے گود میں جنم لیتا ہے اور اسکو پنپنے میں وہی معاشرہ مدد دیتا ہے جس کی بنیادیں کمزور ہوں، بے حسی ہو، رواداری اور مساوات کا فقدان ہو۔ وگرنہ ایک صحت مند معاشرہ قطعی طور پر اس بات کا روادار نہیں ہو سکتا کہ اسکی گود میں جرم پل سکے۔ یہ خلا صرف اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ افراد کہ تربیت ، معاشرتی ردعمل ،
اور حصول انصاف کے تقاضوں میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔اسی طرح تربیت گاہیں اگر جانب داری کا مظاہرہ کریں تو پھر بھی حقائق تک رسائی ممکن نہیں تو ایسے ہی نصاب سے کس انجام کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اقوام عالم کی ترقی میں اگر ایک طرف تربیت اور جدت کا عمل دخل ناگزیر دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف حقوق کی پاسداری ، غیر جانبداری، مساوات ، آزادی ء اظہار خیال اور ایفائے عہد، ایسے عوامل ہیں کہ جنکی اہمیت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی جبکہ جامعہ عملی ٹھوس اقدام وہ عوامل ہیں جو کسی بھی قوم کو ترقی اور عظمت کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔آج دنیا میں جس طرف نظر دوڑا کر دیکھیں تو آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں کہ ٹیکنالوجی کا ایک طوفان برپا ہے اور جدت نے دقیانوسیت کے سینہ پر مونگ دل دیا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟
سیاسی ، ثقافتی ، سماجی اور قومی جمود کی شکار یہ قوم کبھی توانائی کے بحرانوں سے پنجہ آزمائی کرتی ہے تو کبھی مہنگائی کو عفریت نگلنے کو آجاتا ہے، اور کبھی مفاد پرست ٹولے لوٹ جاتے ہیں ۔اس گرداب کی کیفیت نے مجموئی طو ر پر اس قوم کودیوار سے لگا کر کھڑاکرکے رکھ دیا ہے۔اس بے سروسامانی کے ماحول نے ہر طبقہءفکر کے افراد کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ترقی کی راہ پر گامزن یہ قافلہ کسی تعطل کا شکار ہے اور اسے کسی ہیرے کی ضرورت ہے جو اس قوم کو منجدھار سے نکال کر دوبارہ سلامتی اور ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں کردے۔
پچھلی رات کے چاند اور اور ہلال کا موازنہ تو نہیں کیا جا سکتا جبکہ یہاں چاند کی ہیت اور سفر کا فرق ہے ، چاند اپنی آب و تاب سے ہلال سے بدر اور پھر پچھلی رات تک کا سفر مکمل کرتا ہے۔ مگر چاندنی ہلال کی باہوں میں جنم لیکر بدر کے ماتھے کا جھومر بنتی ہے اور پچھلی رات کے چاند کے آنگن میں اپنی سانسیں کھو دیتی ہے۔ البتہ چاندی اپنی کرنوں کو نچھاور کرتی اپنی تندی سے گہن تک کا سفر طے کرتے یہ ضرور بتلا دیتی ہے کہ ہلال کا اور پچھلے رات کے چاند کا فرق آسمان پہ چڑہتے سورج کی طرح عیاں ہے۔ لہذا نظر جب اٹھتی ہے تو سیدھی اس نوجوان تک جاتی ہے کہ جس نے اس قوم ہو ملک کا مستقبل اور معمار بننا ہے ۔ آج اگر نوجوان اس عہد کے ساتھ کمر باندہ لیں کہ اس ملک و قوم کو دنیا کے نقشہ پر قابل عزت مقام دلوانا ہے تو وہ وقت دور نہیں جب منزل خود پکارے گی، مگر اس بات کیلئے نوجوان کو اپنی ثقافت ، تہذیب اور روایتی قدروں کو سمجھنا ہوگا۔
یہ بات تو واضع ہو چکی کہ اب انڈسٹری اور صنعت کسی نئی راہ پر گامزن نہیں کہ جسکا ایندھن زر تھا بلکہ آج کا دور معلومات کی بہتی رو کا ایک سیلاب ہے جسے آپ اطلاعاتی معاشرہ کہ سکتے ہیں جبکہ اسکا ایندھن علم ہے۔ آج کا دور تہذیبوں کے ادغام کا دور ہے معلومات کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے جبکہ اس عہد کی طاقت صرف علم کے مرہون منت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہماری زندگیوں کو کنٹرول کرنے والی طاقت نے کئی روپ بدلے ، ابتدائی زمانے میں طاقت صرف جسمانی قو ت کا نام تھا ،اور زیادہ طاقت ور اور تیز رفتار شخص نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اردگرد موجود دوسرے لوگوں کی زندگیوں پہ بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اسی طرح تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ طاقت وراثت کے نتیجے میں حاصل ہونے لگی۔ اپنے جا ہ و جلال کے باعث بادشاہ واضح اختیارات کے ساتھ حکمرانی کرنے لگا جبکہ شاہی قرابت دار اپنی قربت کے باعث طاقت حاصل کر سکتے تھے۔ پھر اچانک زمانے نے جست بھری ، عہد نے پلٹا کھایا اور صنعتی دور کی ابتداء ہوئی اور سرمایہ طاقت بن گیا جبکہ سرمایہ جن کی پہنچ میں تھا وہ صنعتی عمل کے باعث دوسروں پر قابض ہونے لگے مگر کب تک؟
البتہ آج بھی ان عوامل سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ سرمائے کا ہونا نہ ہونے سے بہتر ہے ، جسمانی توانائی کا ہونا بہرحال یقیناً بہتر ہے ، تا ہم ، آج طاقت کا عظیم سرچشمہ صرف اور صرف علم ہے۔ ارتقاء کا دھارا اب کسی اور طرف گامزن ہے۔اس اطلاعاتی معاشرے کی ترجیحات اب کسی بھی طرح سے دقیانوسی نہیں رہیں۔آج اگر طاقت کا بہاو ملاحظہ کرنا ہو تو ذرہ آنکھوں سے تفریحات کی پٹی اتار کر دیکھئے کہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والی دنیا میں اب طاقت کا توازن کیا ہے اور اسکا تعین کیسے کریں؟ ان حقائق سے کنارہ کشی کسی بھی طرح سے مزید دیر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جہاں اقوام عالم کے نوجوان دنیا کی طاقت کے مراکز ہیں وہاں ہمارے نوجوان کہاں کھڑے ہیں ؟
قابل ذکر بات یہ ہے کہ آج طاقت کی کنجی تک رسائی ہم سب کے بس میں ہے۔ اگر آپ وسطی زمانہ میں بادشاہ نہ ہوتے تو آپکو بادشاہ بننے کیلئے بے پناہ تگ و دو کرنا پڑتی ، صنعتی انقلاب کے آغاز میں ، اگر آپ کے پاس زبردست سرمایہ نہ ہوتا تو آپ کے راستے کی رکاوٹیں آپ کی کامیابی کا راستہ مسد ور کر دیتیں۔ لیکن چند نوجوان آج ایک ایسی کارپوریشن کو جنم دے سکتے ہیں جو پوری دینا کو ہی بدل ڈالے۔ جدید دنیا میں اطلاعات، انفارمیشن بادشاہوں کی چیز ہے۔ مختلف علوم تک رسائی کے باعث آج کا نوجوان نہ صرف اپنا آپ بلکہ پوری دنیا تک بدل کر رکھ سکتا ہے۔