قدیم مجسمے کے حصول کے لئے مصر کی درخواست مسترد
رمنی نے مصری ملکہ نفرتیتی کے تقریباً تین ہزار سال پرانے مجسمہ کے حصول کے لئے قاہرہ کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ یہ مجسمہ سن 1912ء میں ہونے والی کھدائی کے دوران دریافت ہوا تھا اور تب سے یہاں جرمنی میں ہے۔
آج کل یہ مجسمہ جرمن دارالحکومت برلن کے نیو میوزیم میں شائقین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مصرایک عرصے سےیہ مجسمہ واپَس مانگ رہا ہے۔ حال ہی میں مصر نے محض کچھ عرصے کے لئے یہ مجسمہ مستعار لینا چاہا لیکن جرمن حکومت نے اب بالآخر یہ درخواست بھی رَد کر دی ہے۔
مصر کا موقف ہے کہ 1913ء میں یہ مجسمہ غیر قانونی طور پر مصر سے جرمنی لایا گیا تھا جبکہ جرمن حکام کا کہنا ہے کہ اِس مجسمے کو باقاعدہ قانونی دستاویزات کے ساتھ حاصل کیا گیا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ تنازعہ تو برسوں سے چلا ہی آ رہا ہے تاہم اب مصر کے آثارِ قدیمہ کے شعبے کے سربراہ زاہی حواس نے مصر میں ایک بڑے عجائب گھر کے افتتاح کے حوالے سے جرمن حکومت سے درخواست کی تھی کہ کم از کم عارضی طور پر ہی یہ مجسمہ ایک بار پھر مصر بھیجا جائے۔ کئی روز کے غور و خوض کے بعد پرسوں منگل کو برلن کے نیو میوزیم کی انتظامیہ نے بالآخر یہ فیصلہ دیا کہ اِس مجسمے کو عارضی طور پر بھی مصر نہیں بھیجا جائے گا۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ یہ صدیوں پرانا مجسمہ یہ مجسمہ برلن کے ‘نیو میوزیم’ میں رکھا گیا ہے
یہ مجسمہ برلن کے ‘نیو میوزیم’ میں رکھا گیا ہےبہت حساس ہے اور مصر تک کے طویل سفر کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ مصر کے لئے ملکہ نفرتیتی کے مجسمے کی اہمیت کیا ہے، اِس بارے میں برلن میں مصری سفیر رمزی عزالدین رمزی کہتے ہیں:’’میرا خیال ہے کہ ہر ملک بلاشبہ یہ چاہے گا کہ اُس کا ثقافتی ورثہ وہاں واپس آئے، جہاں اُس کا اصل گھر ہے۔ یہ ایک اصولی بات ہے لیکن اِسے عملی جامہ کیسے پہنایا جائے، یہ بات ٹیکنیشنز اور قانون دانوں پر چھوڑ دی گئی ہے۔’
نیو میوزیم برلن کے سرکردہ نمائندے اِسی سلسلے میں بات چیت کے لئے مصر کا دورہ کر رہے ہیں۔ برلن میں سرکاری سطح پر اِس سلسلے میں انتہائی محتاط طرزِ عمل اختیار کیا جا رہا ہے۔ جرمن وَزارتِ خارجہ کے ترجمان سٹیفان بریڈوہل کہتے ہیں: ‘مصری حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر ابھی ایسی کوئی درخواست نہیں آئی، جس میں اِس مجسمے کی واپسی کا تقاضا کیا گیا ہو۔’
جرمن حکومتی عہدیداروں اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے محتاط رویے کے برعکس نیو میوزیم برلن میں جانے والے شائقین کا موقف بالکل واضح ہے۔
اِن جرمن شائقین کا نقطہء نظریہ ہے کہ یہ مجسمہ ایک مدت سے برلن میں ہے اور ایک طرح سے برلن کی پہچان ہے، اِس لئے اِسے یہیں رہنا چاہیے۔ایک شخص نے کہا کہ اِسے عارضی طور پر بھی مصر کے حوالے نہ کیا جائے، ورنہ یہ واپس ہی نہیں ملے گا۔
اُدھر کل بُدھ کو جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے باتیں کرتے ہوئے مصری شعبہء آثارِ قدیمہ کے سربراہ زاہی حواس نے کہا کہ مصر آئندہ سال مارچ میں اُن افریقی اور ایشیائی ممالک کی ایک کانفرنس منعقد کرنے جا رہا ہے، جہاں سے قدیم نوادرات بیرونِ ملک لے جائے گئے ہیں۔
بشکریہ DWD