URDUSKY || NETWORK

اکیس دسمبر 2012 ، کیا زمین پرزندگی آپنی آخری سانسیں لے رہی ہوگی؟

156

اکیس دسمبر 2012 ، کیا زمین پرزندگی

آپنی آخری سانسیں لے رہی ہوگی؟

قرآن مجید میں ارشاد بار ی تعالیٰ ہے ؛
"لوگ تم سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں (کہ کب آئے گی) کہہ دو کہ اس کا علم خدا ہی کو ہے۔ اور تمہیں کیا معلوم ہے شاید قیامت قریب ہی آگئی ہو "(33:63)

حصہ دوم
تحریر وتحقیق: محمد الطاف گوہر
اکیس دسمبر 2012 کے بعد دنیا کے خاتمہ سے متعلق جو پیشگوئیاں مایا قوم کے کیلنڈر سے منسوب ہیں انکے باعث لوگوں میں ایک اضطراب اور پریشانی کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے،جبکہ اسی موضوع پر بننے والی فلم کی دنیا بھر کے سینما گھروں میں نمائش نے جلتی پر تیلی کا کام دیا ہے ، حالانکہ اس فلم نے ریکارڈ بزنس کیا ہے مگر باشعور طبقے پیش بینی کے مرحلہ سے گزرتے ہوئے ایک تشویشناک صورت حال میں مبتلا ہیں اور ان تمام عوامل کی جانکاری چاہتے ہیں جو زمین کی تباہی و بربای کے محرک ہیں ۔
چند ایک حقائق میری گذشتہ تحریر میں شامل ہیں البتہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس دنیا کی منطقی تباہی کے نظریہ کے ماخذ کیا ہیں؟ امریکہ کے شمالی وجنوبی علاقہ کے درمیان بسنے والی مایا قوم جو کہ ستاروں کے علم اور وقت کا حساب کتاب رکھنے میں انتہائی ماہر ہیں ، انہوں نے دنیا میں زندگی کا وجود سات ادوار میں تقسیم کیا ہے اور مختلف کیلنڈر ترتیب دئیے ہیں جبکہ اکیس دسمبر 2012کو انکا پانچواں کیلنڈر اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور حیرت انگیز بات یہ کے کہ اس سے آگے کیا ہونا ہے اسکے بارے میں سکوت کے علاوہ کوئی تفصیلات نہیں حالانکہ انکے تمام گذشتہ کیلنڈر اپنے اختتام پر تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے ۔ اسی طرح یہ بھی تصور کیا جاتا ہے کہ اس قوم کی پیشن گوئیاں حرف بحرف ثابت ہوئیں ۔
ایک مفرو ضہ جواجرام فلکی اور ہیت دانوں کے ماہرین کے نظریات کا پیش خیمہ ہے؛ اسکے مطابق ہرسال اکیس دسمبر کا سورج خط استوا سے دور ترین ہوتا ہے، جبکہ اسکے جنوب بعیدترین ہونے سے قطع نظر ، ایک خیال یہ کیا جاتا ہے کہ زمین اور ملکی و ے یعنی کہکشاں کے مراکز ایک ہی قطار میں ہونگے جسکے باعث زمین پر ناگہانی تباہی ہو سکتی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ یہی زمین پر زندگی کو بربادی سے ہمکنار کردے۔
اسی طرح ایک سائنسی مفروضہ یہ بھی ہے کہ قطب جنوبی اور قطب شمالی جب اپنے پول شفٹینگ(تبدیلی قطب) کے مرحلے سے گزریں گے تو زمین اپنا مقناطیسی میدان کھودے گی جسکے باعث زمین پر وسیع و عریض زلزلے نمودار ہونگے اسی کے ساتھ ساتھ آتش فشاں پہاڑ اپنا لاوا زمین پر انڈیل دیں گے جبکہ سمندروں میں مدوجزر اٹھیں گے جو طوفانی سیلاب کی شکل اختیا ر کر لیں گے اور یوں زمین پر حجیم و ضعیم پیمانے پر تباہی اور بربادی کا آغاز ہو جائے گاجو آگے چل کر زمین پر زندگی کو نیست و نابود کردے گا۔
اسی طرح مقناطیسی میدان کی کمی کے باعث زمین ہمیں شمسی اور کائناتی تابکاری کے اثرات سے محفوظ نہ رکھ سکے گی جوکہ ایٹمی توانائی کے مراکز کو بری طرح متاثر کرتے ہوئے پاش پاش کردے گی جبکہ بلند و بالا آسمانوں سے باتیں کرتی عمارات کے پرخچے اڑ جائیں گے ، اور آسمان آتش فشانی پہاڑوں سے امڈتے جولامکھی کے بادلوں سے اٹ جائیں گے ، یہ سب کچھ زندگی کی زمین کی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
ایک نظریہ کے مطابق سال 2012 کو زمین کے پرت کا ایک عظیم شگاف جس میں پگھلتی ہوئی چٹانیں آتش فشانی مادہ سے لبریز ہیں ، اسکا 74,000 واں سائکل مکمل ہوتا ہے اسی اثناءمیں زیر زمین قہر پر نقطہ عروج کو پہنچ جاتا ہے جو بربادی کا سامان بن جاتاہے۔اسی طرح او ر بہت سے نظریات موجود ہیں جو دنیا کے زمین پر خاتمے کی وکالت کرتے ہیں جیساکہ عالمگیرحدت ،قوی وشدید موسمی تبدیلیاں،بحری زلزلہ سے ابھرنے والی مہیب سمندری لہر(سونامی)،جنگ و جدل ،تیسری عالمی جنگ اور ایٹمی تباہی وہ سب عوامل ہیں جو کہ کسی بھی طرح زمین پرزندگی کے وجود کے دشمن اور بربادی کا باعث بن سکتے ہیں۔انہی عوامل اور محرکات میں نوسٹرا ڈیمس کی پیشن گوئیاں بھی شامل ہیں جو انہی اوقات میں زمین پر زندگی کو درپیش تباہی و بربادی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ فنا اور بقاکاچولی دامن کا ساتھ ہے، زندگی کی ڈگر پر چلتے چلتے افراد آخر تھک ہار جاتے ہیں تو انکی آنکھوں میں چھپا ہوا انتظاراور یاسیت کا عالم، کچھ یوں لگتا ہے کہ جیسے زندگی یہاں سے سسکتی ہوئی گزر رہی ہے۔مکمل سکوت اور ہو کا عالم ہے، جیسے پت جھڑ کے موسم میں کچھ باقی ماندہ پتے ہلکی سی ہوا چلے تو اپنا دامن شاخوں میں چھپا لیتے ہیں ہو سکتا ہے کہ پھر سے بہار آجائے اور وہ ہرے بھرے ہو جائیں ، مگر یہ سردوخشک ہوا بھی کتنی طالم ہے کہ پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتی اور اپنی لپیٹ میں سب کچھ اڑا لیجاتی ہے۔
ان نیم واوں آنکھوں میں کونسا انتظار چھپا ہے؟ زندگی کتنے رنگ و زاویے بدلتی ہے، کبھی مثلث بناتی ہے تو کبھی دائرہ مگر انجام سے بے خبر نہیں اور اپنی انتہا کو ضرور چھوتی ہے، جبکہ ہراک ابتدا کا ایک انجام مقدر ہے جو ٹل نہیں سکتا۔ اگر یہ زندگی مثلث میں سفر کرتی ہے تو اک اٹھان سے شناسا ہوتی ہے اور عروج کا مقام دیکھتی ہے مگر اچانک اسے ڈھلان کا احساس ہوتا ہے اور آخر زوال سے ناطہ جوڑ لیتی ہے۔ اور جب کبھی دائرہ میں سفر کرتی ہے تو پھر ہر لحظہ کروٹیں بدلتی ہے اور وہی سفر دوہراتی ہے اور آخر زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ہر بہار پت جھڑ کوچھوتی ہے اور اپنا انجام خزاں میں دیکھتی ہے یہ صرف اور صرف قدرت کا نظام ہے جو ازل سے رواں دواں اور فنا و بقا کا تسلسل ہے۔
شجر پہ آخر ی لٹکتا پتہ بھی اس امید میں ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بہار آجائے اور وہ پھر سے ہرا بھرا ہو جاوں ، مگر فنا اسے اپنی اٹل حقیقت سے روشناس کرواتی ہے جو کہ اسکی اصل منزل اور انجام ہے۔ کیا فنا اتنی ظالم ہے کہ اسکا ہر درس تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں؟ ایسا نہیں ہے! بلکہ حقیقت شناس زاویہ تو ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ ہر فنا اک نئی بقا کا نقطہ آغاز ہے ۔ ایک ایسا لاثانی آغاز کہ جیسے ہر نئے روزکا چڑہتا ہوا سورج اک نئے دن کی نوید سناتا ہے اور گزشتہ رات کی فنا کا شاندار نظارہ پیش کرتا ہے۔ مگر اکثر ہم اس گزشتہ رات کے دامن میں لپٹی ہو ئی نئی صبح کی صدا سننے سے قاصر رہتے ہیں اور رات کی گمنامی میں گم ہو جاتے ہیں۔
ایک نوید سحر ، اک نئی کونپل آخر کس طرح ممکن ہے؟ اگر زندگی اپنا سفر جاری نہ رکھے تو کچھ بھی ممکن نہیں۔اگر اک نئی صبح کی آمد آمد ہے تو اک رات بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی۔ ہررات اک نئی صبح دیکھتی ہے اور ہر اندھیرا روشنی کا منہ چومتا ہے ۔ ہر لمحہ اک نئی کروٹ بدلتا ہے کیونکہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور ہم ہر لمحہ اک نئی جگہ پہ دریافت ہوتے ہیں۔ہر ماضی اک نئے حال سے روشناس ہوتا اور ہر حال ایک مستقبل کا ادراک کرتا ہے ، ہر بقا اپنی فنا دیکھتی ہے اور ہر فنا کے دامن سے اک بقا کا نمو ہوتا ہے ، یہی قانون قدرت ہے اور اسی کا نمو انسان کی حیات بعداز مرگ کی پیش بینی ہے۔کیونکہ اسلام میں قیامت کا تصور پایا جاتا ہے جسکے مطابق دنیا مکافات عمل ہے اور آج جو بویا جائے گا کل اسی کو کاٹنا ہے، مگر یہ معاملہ زندگی کے مکمل خاتمہ پر ہو گا یعنی حیات بعد از مرگ۔
اکیس دسمبر 2012 کو دنیا کے خاتمے کے اس نئے مفروضے کے مطابق زمین پر تباہی اور بربادی کا منطقی انجام قیامت پر نہیں ہوگا بلکہ وقت اپنے آپ کو روک کر نئے سرے سے مرتب Reset کرے گا ناکہ زندگی کا خاتمہ ہو گا اور افراد اپنی تدبیر سے اپنے وجود کو قائم رکھیں گے اور موت تدبیر کے ہاتھوں شکست کھا ئے گی جبکہ زندگی کا وجود برقرار رہے گا جو کہ کسی ایک سلسلہ کی کڑی ہو گی۔اسی طرح اس نظرئیے کو بھی پانی ملتا ہے کہ جنکی نظر میں صرف آج ہی آج ہے کل کا کوئی وجود نہیں ، آج کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر کسی بھی مدھر مستی کو موج میں زندگی کو عیاشی کی راہوں پر ڈالنے والے تو کبھی بھی قیامت کے وجود کا تصور قائم نہیں کر سکتے۔ زندگی کو کسی گمنام تنگ گلی میں موج مستی کی نظر کرنے والے اس خرام خوابی میں ہیں کہ زندگی کو دوام ہے اور آج کو کل نہیں جبکہ یہ صرف اور صرف التباس الحواسی اور خام خیالی ہے جسکی کوئی حیثیت نہیں۔
ہم قرآن کریم سے ماضی کے تاریخی نوعیت کے واقعات ، تخلیق کائنات اور مظاہر قدرت کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کر سکتے ہیں ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے بارے میں بہت واضع اورنشانیاں بیان کی ہیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بھی قیامت کے بارے میں نشانیاں بتائی گئی ہیں ۔ جبکہ قرآن مجید میں ارشاد بار ی تعالیٰ ہے ؛
"لوگ تم سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں (کہ کب آئے گی) کہہ دو کہ اس کا علم خدا ہی کو ہے۔ اور تمہیں کیا معلوم ہے شاید قیامت قریب ہی آگئی ہو "(33:63)
قیامت کب آئے گی اس کا علم کسی کو نہیں لیکن قرب قیامت کے سلسلے میں کچھ علامتیں ضرور بتا دی گئی ہیں جس سے اسکے ظہور کے بارے میں کچھ اندازہ لگایا جا ستکا ہے۔ اسی طرح بتایا گیا ہے کہ جب دنیا میں خدا سے سرکشی اور بغاوت بڑھ جائے گی ، زناکاری عام ہوجائے گی ، لونڈیاں آقاوں کو جنم دیں گی، بدکردار حاکم بن بٰٹھیں گے، عورتیں ایسا لباس پہننے لگیں گی جس سے جسم ننگا معلوم ہوگا، بے حیائی و فحاشی بڑھ جائے گی غرضیکہ آیات الٰہی کو جھٹلانے کے نتیجہ میں تمام اخلاقی بندھن ٹوٹنے لگیں گے تو یہ قرب قیامت کی علامت ہوگی۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب زمین میں کوئی نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا باقی نہیں رہے گا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا چھوڑ دیا جائے گا تو قیامت قائم ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ایک جانور کے ذریعہ سے آخری حجت قائم کرے گا۔ وہ جانور کہے گا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ان آیات پر یقین نہیں کرتے تھے جن میں قیامت کے آنے کا اور آخرت برپا ہونے کی خبر دی گئی تھےں تو اب اس کا وقت آن پہنچا ہے اور جان لو کہ اللہ کی آیات سچی تھیں۔ اس جانور کے نکلنے کا وقت کون سا ہوگا اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور ایک روز دن دہاڑے یہ جانور نکل آئے گا (مسلم)“۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف لائے اور لوگ آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہورہی ہے؟
لوگوں نے عرض کیا ہم قیامت کا ذکر کر رہے تھے۔ فرمایا وہ ہرگز قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہوجائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نشانیاں بتائیں (۱)دھواں (۲)دجّال (۳)دابةالارض (۴)سورج کا مغرب سے طلوع (۵)عیسیٰ ابن مریم کا نزول (۶)یاجوج و ماجوج (۷)تین بڑے خسف زمین کا دھنس جانا ایک مشرق میں (۸)دوسرا مغرب میں (۹)تیسرا جزیرة العرب میں (۱۰) سب سے آخر میں ایک زبردست آگ جو یمن سے اٹھے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی۔
ایک دوسری حدیث میں مجمع بن جاریہ انصاری کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ ابن مریم دجال کو لد کے دروازے پر قتل کریں گے۔ ایک اور حدیث میں ہے سمرہ بن جندب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ”پھر صبح کے وقت مسلمانوں کے درمیان عیسیٰ ابن مریم آجائیں گے اور اللہ دجال اور اس کے لشکروں کو شکست دے گا یہاں تک کہ دیواریں اور درختوں کی جڑیں پکار اٹھے گی کہ اے مومن ! یہ کافر میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آ اور اسے قتل کر۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کو ہلاک کرنے کے بعد حضرت مسیح زمین میں چالیس سال ٹھہریں گے۔
قیامت کی نشانیاں قرآن واحادیث مبارکہ میںواضع موجودہیںالبتہ اس کے بارے میں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی ، اور یہ نظریہ جو کہ اکیس دسمبر 2012 سے متعلق ہے ، تمام قیاس آرائیاں لوگوں میں بے چینی پیدا کرکے کسی معاشی یا سیاسی فائدہ کا پیش خیمہ ہیں یا پھر صرف فقط ایک نظریاتی قیاس ہو سکتا ہے ۔البتہ قیامت کا ظہورکب ہونا ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ءکسی کومعلوم نہیں جبکہ احادیث مبارکہ میں اسکی جو نشانیاں بتلائی گئی ہیں انکاپورا ہونا بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔
ایک طرف توسلسلہ یہ ہے کہ انسانی زندگی اجتماعی طور پر اپنے انجام کیطرف گامزن ہے تو دوسری طرف انفرادی طور بھی دیکھا جائے تو ہر نفس اپنے انجام کیطرف بڑھ رہا ہے ؛ اور آخرت کو بھول کر اگر ہم زندگی کی ظاہری بھول بھلیوں میں اس قدر کھو چکے ہیں کہ؛ بقول میاں محمدبخشؒ
شام پیئی بن شام محمد تے گھر جاندی نے ڈرنا
خیر اندیش؛
محمدالطاف گوہر۔ لاہور
FeedBack
[email protected]

اکیس دسمبر 2012 ، کیا زمین پرزندگی

آپنی آخری سانسیں لے رہی ہوگی؟