امن کی آشا ؛ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک نیا پل ؛ آپکی کیا رائے ہے؟
پاکستان اور انڈیا کے سب سے بڑے میڈیا گروپس کی جانب سے اٹھائے گئے اس گراں قدر اقدام کو ’امن کی آشا‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جس کے ذریعے امن کے ثمرات کو نمایاں کیا جائیگا، آپکی اس بار میں کیا رائے ہے؟
جنگ نیوز کا ایک متن: پاکستان اور بھارت کے درمیان ”امن کی آشا‘ جنگ گروپ اور ٹائمز آف انڈیا گروپ امن عمل کو متحرک کریں گے "کراچی (رپورٹ: … جبران پیش امام) بظاہر ناکام اور غیر موثر پاک بھارت امن عمل کے دوران نئی دہائی کے شروع ہوتے ہی ہمیں ایک اہم ترین موقع مل رہا ہے جس میں سرحد کے دونوں جانب اشتراک کے ساتھ ایک بہت بڑا امن منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے۔ ”امن کی آشا“ کے نام سے اٹھایا جانے والا یہ اقدام پاکستان کے جنگ گروپ اور بھارت کے ٹائمز آف انڈیا گروپ کی مشترکہ کاوش ہے۔ یہ دونوں میڈیا گروپس پاکستان اور بھارت کے سب سے بڑے صحافتی گروپس ہیں۔ اس پروگرام کے ذریعے دونوں گروپس پاک بھارت مذاکرات کو لاثانی اور بے مثال انداز سے متحرک کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد متلون مزاج پاک بھارت امن مذاکرات میں شامل بڑے ایشوز پر بحث کیلئے مشترکہ اور باہمی پلیٹ فارم فراہم کیا جائے؛ چاہے وہ مسئلہ کشمیر ہو، پانی کا مسئلہ ہو یا سیکورٹی کا۔ اس پروجیکٹ کا وضاحتی بیان بالکل واضح ہے۔ اس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ دونوں گروپس نے خود کو ایک ایسی تحریک کیلئے وقف کردیا ہے جو دونوں ملکوں کے قابل احترام، حقیقی اور پائیدار امن کو جنم دینے کی خاطر سویلین اداروں اور عوام کو ایک دوسرے کے قریب لائے گی۔ ”امن کی آشا“ کی بنیادی خواہشات انتہائی بلند ہیں، جس میں وہ تمام تصفیہ طلب معاملات شامل ہیں جو امن اور میڈیا کی زیر قیادت سول سوسائٹی کی تحریک میں اقتصادی و ثقافتی ایشوز پر مہم چلانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں، اس کوشش کو شروع کرنے اور اسے پائیدار بنانے کیلئے کیلئے حقائق پر مبنی اور محتاط انداز سے اقدامات کئے گئے ہیں۔ یہ کوشش ایک منظم انداز سے شروع کی گئی ہے۔ اس کے ذریعے کوشش کی جائے گی کہ امن عمل آگے بڑھے اور ٹھوس نتائج فراہم کرے اور ہم آہنگی، تعاون اور اعتماد کے وہ نتائج سامنے لائے جو برصغیر کے عوام سخت ویزا پالیسیوں اور متصادم سیاست کی وجہ سے گزشتہ 6 دہائیوں میں حاصل نہیں کرپائے۔ یہ مشترکہ کوشش، جس میں ثقافتی تبادلوں سے لے کر پالیسی امور پر مباحثے شامل ہیں، دونوں میڈیا گروپس کی جانب سے تفصیلی مذاکرات اور بے حد محتاط انداز سے کی گئی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ ”امن کی آشا“ کی میڈیا مہم میں بھارتی شاعر گلزار کی جانب سے ترتیب دیئے گئے امن کے ترانے کی شکل میں ایک ولولہ انگیز خاصیت شامل ہے۔ یہ ترانہ کسی اور نے نہیں بلکہ بالی ووڈ کے امیتابھ بچن نے پڑھا ہے جو دونوں ملکوں کے عوام میں مقبول شخصیت ہیں۔ پاکستان کے راحت فتح علی اور بھارت کے شنکر مہادیون، جو برصغیر کے مقبول ترین گائیگ ہیں، نے اس ترانے کو گیت کی شکل میں گایا ہے۔ ثقافتی اور عوام کے مابین تعلقات کو تفریح (اینٹرٹینمنٹ) کے مختلف پروگرامز کی مدد سے مضبوط بنایا جائے گا۔ ان پروگرامز میں میوزک کانسرٹ سے لے کر فیشن شو تک ہر پروگرام شامل ہے جس میں پاکستان اور بھارت کے بہترین آرٹسٹ شرکت کریں گے۔ دانشورانہ سطح پر تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے تعلیمی اور ادبی وفود کے تبادلوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ اس منصوبے میں مادی تعاون کو فروغ دینے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کی تاجر برادری کو تبادلہ خیال اور صنعت و تجارت کے اقدامات کو پائیدار بنیادوں پر فروغ دینے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس مقصد کیلئے بھارت اور پاکستان میں باری کے ساتھ منفرد اقتصادی کانفرنس کا اہتمام کیا جائے گا۔ یہ کانفرنس اہم ترین اقتصادی شعبوں میں واضح اور ٹھوس تعاون کی یقین دہانی کرائے گی۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی۔ امن کی آشا کے تحت پاکستان اور بھارت میں سروے منعقد کرانے کی ذمہ داری بھی سنبھالی گئی ہے؛ یہ سروے تواتر کے ساتھ شایع ہوتے رہیں گے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ، آزاد تحقیقاتی ایجنسیوں نے سرحد کی دونوں جانب شفاف سروے کئے ہیں اور اہم ترین ایشوز پر لوگوں کی رائے لی ہے، اور یہ ایجنسیاں لوگوں کی رائے معلوم کرنے کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گی۔ حیران کن نتائج فراہم کرنے والی یہ ریسرچ نہ صرف پالیسی کی تشکیل میں مدد دے گی بلکہ امن کیلئے اٹھائے گئے قدم کے اثرات معلوم کرنے میں بھی مدد فراہم کرے گی۔ میڈیا گروپس نے یہ مہم ہر محاذ پر آگے لے جانے کا عہد کیا ہے۔ دونوں گروپس نے مستقل بنیادوں پر سیکریٹریٹ قائم کیا ہے تاکہ کامیابی کیلئے تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔ سرحد کے دونوں جانب تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا ہے؛ ان میں حکومت سے لے کر تاجروں تک اور دانشوروں سے لے کر ادبی شخصیات تک سب شامل ہیں۔ اس مقصد کیلئے واضح اہداف کی نشاندہی کی جا چکی ہے اور مشن اسٹیٹمنٹ کو حتمی شکل دیدی گئی ہے۔ مہم شروع کی جا چکی ہے۔ نئی دہائی کے پہلے دن امن کی آشا کا کام شروع ہوجائے گا اور اس کی منزل امن ہے۔ ” دوسری خبر کا متن: ” 72 فیصد پاکستانی اور66 فیصد بھارتی پرُامن تعلقات چاہتے ہیں،دونوں ملکوں میں سروے کراچی، نئی دہلی( جنگ / ٹائمز نیوز نیٹ ورک) پاکستان اور بھارت میں کرائے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بھارت کے عوام کی دو تہائی جبکہ پاکستان کی تقریباً تین چوتھائی تعداد دونوں ملکوں کے درمیان پرامن تعلقات کی خواہاں ہے۔ صرف ایک معمولی تعداد، بھارت میں 17 فیصد اور پاکستان میں 8 فیصد، مخاصمت کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالنے کے مخالف ہیں۔ ممکن ہے کہ جس ہمسائیگی میں ہم رہتے ہیں وہ دنیا کا سب سے خطرناک ترین ہو لیکن یہ ایک ایسا خطہ بھی ہے جہاں امن کی خواہش بھی سب سے زیادہ ہے۔ درحقیقت، خوف کے سائے میں رہنے والے لوگوں کو پہلی مرتبہ یہ بات سمجھ میں آچکی ہے اور وہ یہ واضح کرسکتے ہیں کہ ان دو اقوام کے درمیان دانشمندانہ تعلقات کی ضرورت کیوں ہے جن کے درمیان پہلے معاندانہ رویہ تھا۔ بھارت کے ٹائمز آف انڈیا گروپ اور پاکستان کے جنگ گروپ کی جانب سے کئے گئے ایک تفصیلی سروے سے جو اہم بات معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کی ایک بھاری اکثریت پرامن تعلقات کی خواہاں ہے۔ غیر متوقع طور پر اس بات نے امید کی کرن دکھائی ہے کہ بھاری اکثریت مخالفانہ رجحانات کے ممکنہ خاتمے کیلئے پُرامید ہے اور وسیع پیمانے پر اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اچھے حتمی انجام تک پہنچنا ایک ایسا کام نہیں ہے جو صرف دونوں ملکوں کی حکومتوں پر ہی چھوڑ دیا جائے۔ ”امن کی آشا“ کے تحت بھارت کے 6 شہروں اور پاکستان کے 8 شہروں اور 36 دیہات میں سروے کیا گیا تاکہ تشدد اور خوف کے سائے میں رہنے والے خطے کے لوگوں کے احساسات اور ان کی رائے معلوم کی جاسکے۔ بھارت میں سروے میں شرکت کرنے والے لوگوں کی دو تہائی تعداد (66 فیصد عوام) اور پاکستان کے تین چوتھائی لوگوں (72 فیصد) نے کہا ہے کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان پرامن تعلقات چاہتے ہیں۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ باقی لوگوں نے باہمی ہم آہنگی کی مخالفت کی ہے۔ دونوں ملکوں کے لوگوں کی ایک معقول تعداد، بھارت 17 فیصد اور پاکستان 20، نے اس بیان سے اتفاق کیا اور نہ ہی اس کی مخالفت کی کہ ”میں چاہتا ہوں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پرامن تعلقات ہونے چاہئیں“۔ با الفاظ دیگر، صرف معمولی اقلیت یعنی بھارت کے 17 فیصد جبکہ پاکستان کے 8 فیصد لوگوں نے دشمنی کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالنے کی مخالفت کی۔ ان دو ملکوں کیلئے یہ اعداد و شمار امید سے کہیں زیادہ بہتر ہیں، جنہوں نے تین مکمل جنگیں، ایک چھوٹی جنگ لڑنے کے ساتھ ایک دوسرے پر تشدد کی حمایت کرنے کے الزامات عائد کئے ہوں۔ جنس ہو یا عمر یا سماجی و اقتصادی درجہ بندیبھارت میں امن کی خواہش کم و بیش مساوی تھی، جبکہ پاکستان میں سروے میں شرکت کرنے والے مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں حیران کن انداز سے امن کے نظریے کی زیادہ حامی تھے (66 سے 77 فیصد تک کے درمیان)۔ اس سروے میں بھارت سے دہلی، ممبئی، کولکتہ، چنائے، بنگلور اور حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی جبکہ پاکستان سے کراچی، حیدرآباد، اسلام آباد و راولپنڈی، لاہور، ملتان، فیصل آباد اور کوئٹہ کے لوگوں نے شرکت کی۔ امن کی خواہش رکھنا ایک بات ہے جبکہ یہ حقیقی احساس کہ آیا یہ ممکن ہے؟ ایک علیحدہ بات ہے۔ ایک مرتبہ پھر، سروے کے اعداد و شمار دیکھ کر ہمیں خوشگوار حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں صورتوں میں واضح اکثریت، یعنی بھارت میں 59 فیصد اور پاکستان میں اس سے بھی زیادہ 64 فیصد، کا کہنا تھا کہ ”وہ بہت زیادہ پرامید ہیں“ یا ”بالکل پرامید ہیں“ کہ موجودہ معاندانہ رویہ ان کی زندگی میں ہی ماضی کا حصہ بن جائے گا۔ بھارت میں اس معاملے میں مردوں کے مقابلے میں خواتین بہت زیادہ پرامید نظر آئیں؛ اگرچہ ان کا مارجن بہت زیادہ نہیں تھا۔ مزید یہ کہ، سروے میں شامل سیکشن بی کی سوشیو اکنامک کیٹگری (سماجی و اقتصادی گروپ) سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد سیکشن اے کی اشرافیہ کیٹگری کے لوگوں سے زیادہ پرامید نظر آئی، جبکہ نوجوانوں (18 سے 19 سال کے درمیان) کی تعداد 30 سے 45 برس کے لوگوں سے معمولی تعداد میں زیادہ پرامید نظر آئی۔ کیا لوگوں کے مابین رابطے، جو امن کی آشا کی روح ہے، پرامن تعلقات کے قیام میں ، جس کی زیادہ خواہش محسوس کی جا رہی ہے، مدد دے سکتے ہیں؟ اس سوالے کے جواب میں لوگوں کی فیصلہ کن تعداد نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ بھارت میں 78 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ امن کیلئے ”موثر“ اور ”انتہائی موثر“ آلہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ پاکستان سے ملنے والا جواب انتہائی زبردست اور غیر مبہم تھا۔ لوگوں کی 85 فیصد تعداد نے بھی ان ہی دو جوابات میں سے ایک کا انتخاب کیا۔ درحقیقت، پاکستان کے 43 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ ”انتہائی موثر“ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمیں اپنے اس یقین کامل کی اس سے زیادہ واضح توثیق نہیں مل سکتی تھی کہ سول سوسائٹی کے درمیان رابطے واضح فرق پیدا کرسکتے ہیں اور انہیں یہ فرق پیدا کرنا چاہئے۔ درحقیقت، ہمیں تو امید ہی نہیں تھی کہ ہمیں ایسا واضح رد عمل ملے گا۔ وہ کون سی چیز ہے جو اس توثیق کی حد کی وضاحت کرتی ہے؟ وضاحت کا ایک بڑا حصہ ان مزید سوالوں کے جوابات میں ہے جو اس سروے میں پوچھے گئے۔ ہم نے سروے میں شامل لوگوں سے کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی موجودہ حالت کو کس نمبر پر رکھیں گے؛ اس میں نمبر ایک کا مطلب ”دشمنی پر مبنی“ اور 9 کا مطلب ”دوستانہ“ ہے۔ ہم نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ وہ لوگوں کے درمیان تعلقات اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے علیحدہ علیحدہ نمبر دیں۔ سرحد کے دونوں جانب کے لوگوں کی جانب سے دیئے گئے جوابات نمایاں تھے۔ سروے میں شامل بھارت کے شہریوں نے دونوں ملکوں کے درمیان ت] ]>