حضرت غازی عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمة اللہ علیہ ایک نظریہ ،ایک حقیقت
آپ کا سالانہ عرس مبارک 13مئی کو ساروکی چیمہ تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ میں ہو رہا ہے ۔
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
پندرہویں صدی کے شہید اعظم اور عالم اسلام کے ہیرو حضرت غازی عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمة اللہ علیہ آج سے 32سال قبل 4دسمبر1977ءکو ضلع حافظ آباد میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد محترم نے ان کا نام عبد الرحمن رکھا جبکہ والدہ محترمہ نے ان کا نام عامر رکھا ۔اس طرح ان کا نام عامر عبد الرحمن چیمہ بن گیا ۔عامر چیمہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ان کی تین بہنیں ہیں ۔ان کے والدین کئی سال پہلے راولپنڈی منتقل ہو گئے تھے ۔عامر چیمہ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکو ل راولپنڈی سے شروع کی اور 1993ءمیں گورنمنٹ ہائی سکول راولپنڈی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ایف ایس سی سر سید کالج راولپنڈی سے پاس کرنے کے بعد 1996ءمیں عامر چیمہ فیصل آباد چلے گئے ۔یہاں انہوں نے نیشنل کالج آف ٹیکسٹائل انجینئرنگ میں داخلہ لیا ۔یہاں سے انہوں نے 2000ءمیں انجینئر نگ کی ڈگری حاصل کی ۔ انہوں نے سب سے پہلے رائیونڈ کی ایک ٹیکسٹائل مل میں ملازمت اختیار کی ۔وہاں کچھ عرصہ ملازمت کر کے عامر چیمہ واپس راولپنڈی آگئے اور ایک پرائیویٹ کالج میں تدریس کا کام شروع کر دیا ۔جلد ہی انہوں نے یہ ملازمت چھوڑ کر پھر سے ایک ٹکسٹائل مل میں نوکری کر لی ۔کچھ عرصے کے بعد ٹیکسٹائل مل سے ملازمت چھوڑ کر عامر چیمہ لاہور چلے گئے ۔لاہور میں انہوں نے یونیورسٹی آف مینجمنٹ میں داخل لیا اور وہ 26نومبر2004ءکو ماسٹر آف ٹیکسٹائل مینجمنٹ کا کورس کرنے کے لئے جرمنی چلے گئے ۔ یونیورسٹی میں ان کے تین سمسٹر مکمل ہو چکے تھے ۔آخری سمسٹر باقی تھا۔
اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو ایسا عظیم الشان مقا م و مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ آپ ﷺ جیسی کوئی ہستی کائنات میں نہ کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی ۔آپ ﷺ نبی آخرالزماں ہیں، رحمة اللعالمین اور قیامت تک تمام انسانوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں ۔ہم سب حضور ﷺ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ۔جب تک ہم اپنے ماں ،باپ ، بہن، بھائیوں، سے بھی زیادہ حضور ﷺ سے پیار نہ کریں ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ہم حضور ﷺ کی اتنی عزت کرتے ہیں ،ان سے اس قدر محبت کرتے ہیں ان کو ایسا مقدس جانتے ہیں کہ درود پاک کے بغیر ان کا نام نامی اسم گرامی زبان پر نہیں لاتے ۔ظاہر ہے ہم جن کی اتنی عزت کرتے ہیں کوئی ان کی توہین کرے ،ہم یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ کی توہین ہو اور مسلمان خاموش رہیں ۔ہو ہی نہیں سکتا ،یہ در اصل محبت ،عشق ادب اور احترام کی نرالی ہی دنیا ہے ،کوئی انوکھا ہی رنگ ہے ۔جسے غیر مسلم ، مغرب والے ،یہودی ،عیسائی اور ہندو سمجھ ہی نہیں سکتے ۔
عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمة اللہ علیہ محبت رسول اللہﷺ کے اسی نوکھے رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔جرمنی کے ایک اخبار Die Welte میں رسول اللہ ﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع ہوئے تو عامر چیمہ غم اور غصے سے تڑپ اٹھے ۔اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والی مختلف رپورٹوں کے مطابق اپنے پیارے نبی ﷺ کی توہین نے انہیں سخت بے قرار اور بے چین کر دیا تھا ۔ان کی یہ بے قراری اور بے چینی عامر چیمہ کو اس رسوائے زمانہ اخبارکے مرکزی دفتر میں لے گئی ۔وہ تیز قدموں سے اخبار کے گستاخ رسول ایڈیٹر کے کمرے کی طرف بڑھے ۔عامر چیمہ دوڑتے ہوئے ایڈیٹر کے کمرے میں گھس گئے اور اپنے کپڑوں میں چھپا یا ہوا خاص قسم کا شکاری خنجر نکال کر اس پر پے در پے وار کر کے اسے شدید زخمی کر دیا ۔اتنے میں دفتر کا عملہ اور سیکورٹی گارڈز جمع ہو گئے اور انہوں نے عامر چیمہ کو پکڑ لیا ۔عامر چیمہ نے مزید وار کر نے کے لئے اپنے آپ کو ان لوگوں کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بہت سے لوگ تھے اس لئے عامر چیمہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے ۔جرمن پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔
تین دن بعد جرمن پولیس نے عامر چیمہ کو اپنے اس تحریری بیان کے ساتھ عدالت کے رو برو پیش کیا جس میں عامر چیمہ نے کہا تھا:” میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے Die Welteکے ایڈیٹر پر قاتلانہ حملہ کیا ۔یہ شخص ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کا ذمہ دار تھا ۔اگر مجھے آئندہ بھی موقع ملا تو میں ایسے ہر شخص کو قتل کر دوں گا ۔“ عامرچیمہ کے اس جرات مند انہ اعتراف کے بعد کسی ریمانڈ ،کسی تحقیق اور تشدد کی گنجائش نہیں تھی ،لیکن ظالم ہٹلر کے ظالم اور درندہ صفت جانشینوں نے عامر چیمہ پر ظلم و ستم اور تشدد کے پہاڑ توڑدیئے ۔بعض اخباری رپورٹوں کے مطابق تفتیش کے دوران جب جرمن پولیس کے ایک اہلکار نے رسول اللہ ﷺ اور دیگر انبیاء کرام کے بارے میں گستاخانہ گفتگو کی تو عامر چیمہ نے اس کے منہ پر تھوک دیا ۔ان کو ایسی اذیتیں اور تکلیفیں دی گئیں کہ وہ بالآخر جبر و تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئے ۔ عامر چیمہ کی شہادت کی خبر سامنے آئی تو جرمن پولیس کے اس ظلم و ستم پر پاکستان کے ہر فرد کے دل پر ایک قیامت گزر گئی ۔وطن کے ہر گھر میں ہر زبان پر عامر چیمہ کا تذکرہ تھا ۔ سب نے عامر چیمہ کو ہیرو بنا کر اپنے دل کی دھڑکنوں میں بسا لیا تھا ۔لوگ جوق در جوق راولپنڈی کے علاقے ڈھوک کشمیریاں کی گلی نمبر18میں واقع عامر چیمہ کے گھر جانے لگے ۔وہاں ہر وقت ہجوم رہنے لگا۔ روزانہ سینکڑوں لوگ پھول ،گلدستے اور تہینتی کارڈ لے کر عامر چیمہ کے گھر جاتے ان کے والدین سے ملتے انہیں عامر چیمہ کی شہادت پر مبارک باد دیتے اور شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ۔کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔سچ تو یہ ہے کہ لوگوں نے عاشق رسول اللہ ﷺ عامر چیمہ شہید کے ساتھ عشق کا حق ادا کر دیا ۔جب 13مئی کو عامر چیمہ شہید کا جسد خاکی ان کے آبائی گاﺅں ساروکی چیمہ (گوجرانوالہ) پہنچا تو عامر چیمہ کے ساتھ لوگوں کا عشق اپنی انتہا پر تھا ۔بچے ،بوڑھے، جوان،عورتیں، مرد ،امیر ،غریب، صبح سویرے ہی ساروکی چیمہ پہنچنا شروع ہو گئے تھے ۔سخت گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں شمع رسالت ﷺ کے پروانوں کا جوش و جذبہ دیکھ کر غیر ملکی میڈیا کے نمائندے ہی نہیں آسمان دنگ رہ گیا تھا ۔پر نم آنکھوں ،درد سے بھرے ہوئے دلوں اور بے قابو جذبات کے ساتھ لاکھوں لوگ عامر چیمہ شہید کے تابوت کو چھونے کے لئے لپک رہے تھے ۔تڑپ رہے تھے ۔فضاءمیں عجب سا نور رقص کر رہا تھا ۔تلاوت قرآن ،نعرہ تکبیر ،نعرہ رسالت اور درود و سلام کی گونج نے ایک نرالا سماں پیدا کر دیا تھا ۔انوارو تجلیات کی پر کیف برسات جاری تھی جب وہ دوپہر تقریباً پونے دو بجے کے قریب عامر چیمہ شہید کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دیا گیا ۔
آفرین صد آفرین ،عامر بھائی ! آپ بازی لے گئے ،اللہ تعالیٰ آپ کی قربانی کو قبول فرمائے ،آپ پر رحمتیں نازل کرے اور آپ کی قبر کو ہمیشہ نور سے آباد رکھے۔
حضرت غازی عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمة اللہ علیہ کے والد پروفیسر نذیر احمد چیمہ اپنے اکلوتے بیٹے کی شہادت پر مطمئن ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے نے حضرت محمد ﷺ کی عزت و حرمت کی خاطر جان دی ہے ۔عامر بہت نیک اور سعادت مند بیٹا تھا ۔اس کی شہادت نے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا۔عامر چیمہ شہید رحمة اللہ علیہ کے والدہ محترمہ کہتی ہیں کہ میرا شیر جیسا بیٹا اعلیٰ ڈگری لینے جرمنی گیا تھا اور وہاں سے ایسی اعلیٰ ڈگری لے کر آیا کہ اس سے بڑی کوئی ڈگری نہیں ۔اگر میرا کوئی اور بیٹا ہوتا تو میں اسے بھی اسی راستے میں بھیجتی ۔اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کی شہادت قبول فرمائے ۔عامر چیمہ شہید رحمة اللہ علیہ کی بہنیں کہتی ہیں کہ آخری دفعہ 6مارچ کو کزن کی شادی کے موقع پر بھائی نے مبارکباد کے لئے فون کیا تھا ۔ان کی بہنیں کہتی ہیں کہ عامر بھائی ہماری ہر بات مانتے تھے ۔کبھی انکار نہیں کرتے تھے ۔ہم نے اپنے بھائی جیسا خیال رکھنے والا اور محبت کرنے والا بھائی کبھی نہیں دیکھا ۔وہ ہم تینوں سے بہت پیار کرتے تھے ۔ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے بھائی کو اتنی شان بخشی۔
ٍ پندرہویں صدی کے شہید اعظم اور عالم اسلام کے ہیرو حضرت غازی عامر چیمہ شہید رحمة اللہ علیہ کا تیسرا سالانہ عرس مبارک نہایت شان و شوکت سے مورخہ 13مئی بوقت صبح 9بجے تا ظہر ساروکی چیمہ میں زیر سرپرستی پروفیسر نذیر احمد چیمہ منعقد ہو رہا ہے ۔جس میںتحریک اویسیہ پاکستان کے مرکزی ناظم اعلیٰ و سربراہ اتحاد تنظیمات اہلسنت مفکر اسلام حضرت علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال ،علامہ رضا ثاقب مصطفائی امیر اعلیٰ ادارة المصطفےٰ کے علاوہ نامور علماءو مشائخ خطابات فرمائیں گے ۔جبکہ سیکورٹی کے فرائض انجمن طلباءاسلام کے نوجوان انجام دیں گے ۔عرس مبارک میں عشاقانِ رسالت ملک بھر سے قافلہ در قافلہ جوق در جوق عظیم عاشق رسول کے عرس مبارک میں حاضری کی سعادت حاصل کریں گے ۔جبکہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ممتاز دانشور ،صحافی ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاکے حضرات بھی شرکت کریں گے ۔عرس مبارک میں تحریک اویسیہ پاکستان، جماعت اہلسنت پاکستان ،سنی تحریک، انجمن طلباءاسلام، ادارہ تاجدار یمن پاکستان کے علاوہ دیگر سنی تنظیمات کے کارکنان بھر پور انداز میں شریک ہوں گے ۔حکومت کو چاہےے کہ ملت اسلامیہ کے ہیرو حضرت غازی عامر عبد الرحمن چیمہ شہید رحمة اللہ علیہ کے عظیم الشان مزار کی تعمیر کرنے کا اعلان کرے اور ان کے عظیم کارنامے کو شامل نصاب کرے تاکہ نوجوان نسل جذبہ جہاد و عشق رسول ﷺسے سرشار ہو سکے اور ان کے دلوں میں عشق مصطفےٰﷺ کی شمع فروزاں ہو سکے ۔جبکہ شہید کے والدین کے لئے مراعات کا اعلان کرے تاکہ ان کی دل جوئی ہو اور دیگر مسلم نوجوانوں میں گستاخ رسول کو واصل جہنم کرنے اور ناموس رسالت پر جان قربان کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔شہید ناموسِ رسالت آج بھی سوال کر رہا ہے کہ اسلام کے نام پر قتل و غارت دہشت گردی کو فروغ دیکر امن کو سبوتاژ کر رہے ہیں جبکہ عظیم صوفیاءکے مزارات کی بے حرمتی اور ان کو شہید کر رہے ہیں حکومت ان کے ساتھ سختی سے نمٹے ۔کیونکہ اولیاءکرام اور صوفیاءکے مزارات روحانیت کے مراکز ہیں ۔ ملک کو عالمی سطح پر بدنام کیا جا رہا ہے حکومت ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کرے تاکہ ملک میں افراتفری ،بدامنی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا خاتمہ ہو اور ملک حقیقی معنوں میں امن و سلامتی کا گہواہ بن سکے ۔