امیر جماعت اسلامی کے نام
حترم جناب امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن صاحب
موضؤع: کراچی کی صورت حال اور آپکی مجرمانہ خاموشی
السلام علیکم !
اُمید کرتا ہوں کہ آپ دین و ایمان کی خیریت کے ساتھ رمضان کی برکات سے فیضیاب ہو رہے ہوں گے۔ اللہ آپ لوگوں کے درجات میں اضافہ فرمائے۔ میرا یہ خط لکھنے کا مقصد آپ کی توجہ کراچی کی روز بروز بگڑتی صورت حال کی طرف دلانا ہے جہاں روز لاشے اُٹھتے ہیں اور ماؤں کی کوکھ اُجڑتی ہے۔ جہاں دہشت گردوں کے خونی ہاتھوں سے ہماری بہنوں کے سہاگ ، ہمارے چھوٹے بھائیوں کے سروں سے والدین کا سایہ اور بُوڑھے والدین کی آنکھوں کے چراغ ایک ایک کر کے بُجھتے جا رہے ہیں۔ کراچی میں ہر روز قیامت کا سماں ہوتا ہے۔ روزی کمانے کی خاطر گھر سے باہر پاؤں رکھنے والے کو یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ واپس گھر آئے گا یا اسکا لاشہ کسی ہسپتال کے مردہ خآنہ میں پڑا رہے گا۔ اس خؤفناک صورت حال کا ذمہ دار کون ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ یہ صورت حآل کسی غیر اسلامی ملک میں ہوتی تو شاید قابل برداشت بھی ہوتی ، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ سب کھیل اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کھیلا جا رہا ہے۔ وہی کراچی، جہاں سے آپ کا بھی تعلق ہے۔ میری اس تمہید کا مقصد آپ کو بور کرنا ہر گز نہیں۔ بلکہ آپ تک کُچھ خبریں پہنچانا تھا کہ اب تک کراچی میں ہزاروں افراد قتل ہو چُکے ہیں۔ شاید آپ کو اس کا علم ہو۔۔۔لیکن آپ کی خاموشی سے لگتا ہے کہ آپ تک ابھی تک یہ خبریں نہیں پہنچیں۔
“رب کی دھرتی پر رب کا نظام ” کا نعرہ لے کر جماعت اسلامی کا جو کارواں چلا تھا ، اس کارواں کے مسافروں نے وقت آنے پر اسلام کے نام پر مر کٹنے کا عملی نمونہ بھی پیش کیا تھا۔ قادیانی مسئلہ ہو یا کہ ایوب خان کی آمریت، بنگلہ دیش ہو یا کہ افغانستان یا کہ کشمیر ہر جگہ جماعت اسلامی کے افراد نے خون کا نذرانہ دے کر اپنی باتوں کو عملی طور پر ثابت بھی کیا کہ “مسلمان ایک جسد واحد کی طرح ہوتے ہیں۔ ایک عضو کو تکلیف ہو تو پورا جسم وہ تکلیف محسوس کرتا ہے”۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جب کراچی میں قتل و غارت کا طوفان برپا ہے تب جماعت اسلامی غفلت کی نیند سو رہی ہے۔ اس کے رہنماؤں کے نیم دلانہ بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کراچی پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ کسی دور دراز ملک میں واقع ہے اور وہاں مسلمان گاجر مولی کی طرح نہیں کٹ رہے بلکہ کسی اور امت پر یہ کڑا وقت آیا ہوا ہے۔
مجھے یاد ہے آج سے دو سال قبل جب آپ رحیم یار خان آئے تھے تو آ پ نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جب وقت کی ضرورت ہوگی تب ہم میدان میں بھی آئیں گے”۔ یہ وقت کی ضرورت عجیب معما ہے۔ ریمنڈ ڈیوس پاکستانیوں کو مار کر چلا گیا، وقت نہ آیا، پاکستانی سر زمین کی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکہ کئی افراد کو مار کر چلا گیا ، پھر بھی وقت نہ آیا۔۔۔اور تو اور کراچی کئی سال سے خون میں رنگا جا رہا ہے ، گزشتہ چند ماہ سے خؤن کی ہولی میں اس قدر تیزی آ گئی ہے کہ روزانہ درجنوں افراد کی گردنیں کاٹ کر پھینک دی جاتی ہیں اور پھر بھی وقت نہیں آ رہا۔
حضرت کب وہ وقت آئے گا جب آپ میدان میں نکلیں گے؟ کیا بروز قیامت؟
افغانستان کے مسئلہ پر ہنگامے و مظاہرے کرنے ، کشمیر کے مسئلہ پر ہاتھوں کی زنجیر بنانے والے جماعت اسلامی کے افراد کو اہلیان کراچی کا غم نظر کیوں نہیں آتا؟ چچینیا کے لیے آہ و فغاں کرنے والوں کو کراچی میں گرتے لاشے نظر کیوں نہیں آتے؟عراق کا درد دل میں رکھنے والوں کو کراچی کا غم محسوس کیوں نہیں ہو رہاِ؟
دین صرف حکومت کو بُرا بھلا کہہ لینے اور “حکومت کی خرابی ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے” کہہ لینے تک محدود نہیں ہے، بلکہ دین دکھی دلوں کی غم گساری، بے کسوں اور لاچاروں کی اشک شوئی ، اور گرتے ہووں کو سہارا دینے کا نام بھی ہے۔ کراچی کے موضؤع پر محض بیانات سے بڑھ کر کوئی سرگرم مثبت کردار ادا کرنا ، آپکی قومی ہی نہیں بلکہ ملی و دینی ذمہ داری بھی ہے۔ میری جناب سے گزارش ہے کہ اپنی دینی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور ان کو پورا کریں۔
میری جناب سے گزارش ہے کہ آپ اپنے ساتھیوں اور دوستوں اور تعاون کرنے والوں کے ساتھ کراچی کے مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کریں اور جلد از جلد اس مسئلہ کو حل کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو ۔
بدرالزمان
رحیم یار خان