URDUSKY || NETWORK

اسلام آباد ہائیکورٹ: آصف زرداری کی درخواست ضمانت پر میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم

45

ISLAMABAD: The Islamabad High Court (IHC) on Wednesday directed the PIMS hospital to constitute new medical board to examine ailing former president Asif Ali Zardari, Urdusky News reported.

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی ضمانت بعد از گرفتاری کے معاملے پر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی سربراہی میں میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دے دیا۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل بینچ نے جعلی اکاؤںٹس کیس میں آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل فاروق ایچ نائیک سے پوچھا کہ درخواست کس بنیاد پر دائر کی گئی ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ درخواست ضمانتیں طبی بنیادوں پر دائر کی گئی ہیں۔

اس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا کوئی میڈیکل بورڈ بھی بنایا گیا ہے،جس پرفاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ جی میڈیکل بورڈ کی رپورٹ بھی درخواست ضمانت کے ساتھ منسلک کی ہے۔

وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ میڈیکل بورڈ کس نے بنایا تھا؟اس پر آصف زرداری کے وکیل نے کہا کہ یہ میڈیکل بورڈ عدالتی حکم پر بنایا گیا تھا۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم ایسا کرتے ہیں کہ پمزہسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی سربراہی میں میڈیکل بورڈ بنواتے ہیں۔

ساتھ ہی عدالت نے 11 دسمبر تک میڈیکل بورڈ سے رپورٹ بھی طلب کرلی۔

دریں اثنا فریال تالپور کی درخواست ضمانت کا معاملہ بھی زیر سماعت آیا، جہاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت تک تحریری جواب طلب کرلیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں عدالت عالیہ میں سابق صدر کی جانب سے اپنے وکیل فاروق ایچ نائیک کے توسط سے عدالت میں جعلی اکاؤنٹس اور پارک لین کیسز میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔

آصف زرداری کی جانب سے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے دائر کی گئی درخواست میں قومی احتساب بیورو (نیب) اور احتساب عدالت نمبر 2 کو فریق بنایا گیا ہے۔

آصف زرداری نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا جبکہ ان کے اوپر بنائے گئے کیسز جعلی اور من گھڑت ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ آصف علی زرداری دل کے مریض ہیں اور ان کے 3 اسٹنٹ ڈلے ہوئے ہیں جبکہ ان کے سینے سے ہولٹر مانیٹر بھی لگا ہوا ہے تاکہ ڈاکٹر ان کی دھڑکن کو مانیٹر کرسکیں۔

ساتھ ہی آصف زرداری نے یہ موقف اپنایا کہ ان کو ذیابیطس کا مرض بھی ہے اور ان کا شوگر لیول اوپر اور نیچے خطرناک حد تک ہوتا رہتا ہے، جس کی نگرانی کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار کو مزید بیماریاں بھی لاحق ہیں، لہٰذا ان کے علاج کے لیے طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کی جائے۔

علاوہ ازیں فریال تالپور کی جانب سے بھی اپنی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وہ ایک خصوصی بچی کی والدہ ہیں اور ان بچی کی دیکھ بھال کے لیے ٹرائل مکمل ہونے تک ضمانت دی جائے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی، آصف زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے درخواست دے گی اور امید ہے فوری اجازت مل جائے گی۔

کیس کا پس منظر

2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35 ارب روپے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔

15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔

جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔

مذکورہ کیس میں آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت قبل از گرفتاری میں مسلسل توسیع ہوتی رہی تاہم آصف زرداری کو 10 جون جبکہ ان کی بہن کو 14 جون کو گرفتار کرلیا تھا جن کے ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی اور اس وقت آصف زرداری عدالتی ریمانڈ پر ہونے کے باعث جیل میں تھے، تاہم ان کی طبیعت خرابی پر انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔