وفاقی بجٹ 12-2011
مالی سال سنہ 12 – 2011 کے لیے پاکستان کا وفاقی بجٹ تین جون کو پیش کر دیا گیا ہے۔ ذیل میں اس بجٹ کے اہم نکات دیے جا رہے ہیں۔
تنخواہیں اور پنشن
٭یکم جولائی سنہ 2002 سےریٹائر ہونے والے سرکاری ملازمین کی پنشن میں پندرہ فیصد جبکہ اس سے قبل ریٹائر ہونے والوں کی پنشن میں بیس فیصد کا اضافے کی تجویز ہے۔
٭گریڈ ایک سے پندرہ کے سرکاری ملازمین کو جولائی سنہ دوہزار نو تک دیے گئے ایڈہاک ریلیف الاؤنس کو یکم جولائی دو ہزار آٹھ کے بنیادی پے سکیل میں ضم کردیے جانے کی تجویز ہے، جس کے بعد نئے پے سکیل بنائے جائیں گے۔
٭گریڈ ایک سے پندرہ کے سرکاری ملازمین کے کنوینس الاؤنس سمیت مختلف مراعات میں اضافے کی تجویز ہے۔
انکم ٹیکس
٭تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس میں چھوٹ کی حد تین لاکھ سے بڑھا کر ساڑھے تین لاکھ روپے کی جارہی ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں اب انتیس ہزار روپے ماہانہ آمدن والے پاکستانی شہری انکم ٹیکس سے مسثتنٰی ہوں گے۔
٭تاہم تین لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ روپے سالانہ آمدن رکھنے والے افراد کو ریکارڈ کے لیے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروانی ہوں گی۔
٭پندرہ مارچ دو ہزارگیارہ سے جون دو ہزارگیارہ تک انکم ٹیکس پر عائد پندرہ فیصد فلڈ سرچارج اور ایکسائز ڈیوٹی میں ڈیڑھ فیصد اضافے کی مدت میں توسیع نہ کرنے کی فیصلہ کیا گیا ہے۔
٭ویلتھ ٹیکس کی سٹیٹمنٹ جمع کرانے کے لیے آمدن کی حد پانچ لاکھ سے بڑھا کر دس لاکھ روپے کردی گئی ہے۔
جنرل سیلز ٹیکس
٭بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح سترہ سے کم کر کے سولہ فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
٭چینی کی درآمد اور مقامی سطح پر فراہمی پر عائد سیلز ٹیکس ختم کر کے آٹھ فیصد کے حساب سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے۔
کسٹم،ایکسائز ڈیوٹی، ودہولڈنگ ٹیکس
٭اس بجٹ میں کسی بھی شے پر کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے جبکہ ادویہ سازی کی صنعت میں استعمال ہونے والی بائیس خام اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی جارہی ہے۔
٭تمام بینکوں سے کیش نکلوانے پر ود ہولڈنگ ٹیکس0.3 سے کم کر کے 0.2 فیصد کیا جارہا ہے۔
٭مشروبات پر اور وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کم کرکے چھ فیصد کردی گئی ہے جسے 2012-2013 تک ختم کردیا جائے گا۔
٭392 اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کیے جانے کی تجویز ہے۔ تاہم سیمنٹ، اسلحہ، چھالیہ، سگریٹ اورگاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی برقرار رہے گی۔
٭تمام خصوصی ایکسائز ڈیوٹیاں ختم کرنے کی تجویز ہے۔
٭خام تمباکو پر ایکسائز ڈیوٹی کی شرح پانچ روپے فی کلو گرام سے بڑھا کر دس روپے فی کلو گرام کی جارہی ہے۔
٭کولڈ ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بارہ فیصد سے کم کر کے چھ فیصد کی جارہی ہے۔
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں شامل چھالیس اشیاء میں سے پندرہ کو اس فہرست سے نکالنے کی تجویز دی گئی ہے۔
٭سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح سات سو روپے فی میٹرک ٹن سے کم کر کے پانچ سو روپے فی میٹرک ٹن کردی گئی ہے اور آئندہ دو برس میں یہ ڈیوٹی ختم کردی جائے گی۔
٭کمرشل درآمد کنندگان پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی شرح کو دو فیصد سے بڑھا کر تین فیصد کیا جارہا ہے۔
سبسڈیز
٭عوام کو دی جانے والی سبسڈیز میں دو سو انتیس ارب تین سو تریپن کروڑ روپے کی کمی کی گئی ہے اور اب یہ رقم ایک کھرب چھیاسٹھ ارب چوالیس کروڑ اسّی لاکھ روپے ہوگی۔
٭یوٹیلیٹی سٹوز میں موجود سامان پر دی گئی سبسڈی میں دو ارب بیس کروڑ روپے کی کمی کی گئی ہے اور جہاں چینی پر تین ارب پچاس کروڑ روپے کی رعایت ختم کردی گئی ہے وہیں رمضان پیکج کے لیے مختص ستّر کروڑ کی رقم کو بڑھا کر دو ارب کردیا گیا ہے۔
٭واپڈا کی سبسڈی میں ایک کھرب تہتر ارب بارہ کروڑ ستّر لاکھ روپے جبکہ کے ای ایس سی کی سبسڈی میں بائیس ارب بہتر کروڑ نوے لاکھ روپے کی کمی کی گئی ہے۔
٭کھاد پر رواں مالی سال کے دوران دی جانے والی ہر قسم کی سبسڈی آئندہ مالی سال میں ختم کرنے کی تجویز ہے۔
ساڑھے آٹھ کھرب خسارے کا بجٹ
پاکستان کی حکومت نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال سنہ دو ہزار گیارہ اور بارہ کے لیے پچیس کھرب چار ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جو کہ رواں سال کے بجٹ سے بارہ اعشاریہ تین فیصد زیادہ ہے۔
کلِک دفاعی بجٹ میں دس فیصد اضافہ
تاہم بجٹ دستاویز میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کا کل حجم ستائیس کھرب سڑسٹھ ارب روپے بتایا گیا ہے جبکہ دستاویز کے مطابق مجموعی مالی خسارہ سات کھرب چوبیس ارب روپے ہوگا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے جمعہ کو قومی اسمبلی میں یہ بجٹ پیش کیا۔ یہ ان کا بطور وزیرِ خزانہ دوسرا جبکہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی کاچوتھا بجٹ ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی زیرِصدارت کابینہ کے خصوصی اجلاس میں اس بجٹ کی منظوری دی گئی۔
اس بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے چار کھرب پچانوے ارب اکیس کروڑ پچاس لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ رواں سال کے بجٹ سے پچاس ارب ستاون کروڑ پچاس لاکھ روپے یا قریباً گیارہ اعشاریہ تین فیصد زیادہ ہیں۔
وفاقی وزیر عبدالحفیظ شیخ نے جمعہ کو بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس بجٹ میں مجموعی وفاقی خسارے کا تخمینہ نو کھرب پچھہتر ارب روپے لگایا گیا تاہم این ایف سی ایوارڈ کی وجہ سے تخمینہ شدہ صوبائی سرپلس کی مد میں ایک سو پچیس ارب روپے جانے سے مجموعی مالی خسارہ آٹھ کھرب پچاس ارب روپے ہوگا جو کہ جی ڈی پی کا چار فیصد ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق جاری اخراجات کا تخمینہ قریباً تئیس کھرب پندرہ ارب روپے لگایا گیا ہے جو کہ رواں مالی سال سے ایک فیصد زیادہ ہیں جبکہ ٹیکس کی وصولی کا تخمینہ انیس کھرب باون ارب اٹھارہ کروڑ بیس لاکھ روپے لگایا گیا ہے جو کہ رواں مالی سال کے مقابلے میں تیئس فیصد زائد ہے۔
ترقیاتی منصوبوں کے لیے بجٹ میں سات کھرب تیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں سے تین کھرب روپے وفاقی جبکہ چار کھرب تیس ارب روپے صوبائی ترقیاتی بجٹ کے ہوں گے۔ آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں ترپن جبکہ صوبائی ترقیاتی بجٹ میں قریباً باسٹھ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
وزیرِ خرانہ نے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں پندرہ فیصد اضافے جبکہ انکم ٹیکس میں چھوٹ کی حد ساڑھے تین لاکھ روپے تک بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ اس چھوٹ کے نتیجے میں اب انتیس ہزار روپے ماہانہ آمدن والے پاکستانی شہری انکم ٹیکس سے مسثتنٰی ہوں گے۔
بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح سترہ سے کم کر کے سولہ فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے تحت صحت اور تعلیم کی وزارتوں کی صوبوں کو منتقلی کے باوجود وفاقی بجٹ میں صحت کے لیے دو ارب چونسٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ تعلیمی خدمات کے لیے انتالیس ارب اکیاون کروڑ تیس لاکھ روپے رکھے گئے ہیں اور ان میں سے انتیس ارب روپے اعلٰی تعلیمی امور اور خدمات پر خرچ ہوں گے۔
نامہ نگار اعجاز مہر کے مطابق بجٹ کی تقریر شروع ہونے سے قبل ہی حزبِ مخالف نے شدید نعرے بازی شروع کردی۔ سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی جو یہ تقریر براہِ راست دکھا رہا تھا نے کچھ دیر کے لیے نشریات کو روک دیا۔
بجٹ سیشن شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے وزیر خزانہ کی نشست کے سامنے نعرے بازی کی۔ انہوں نے ’ڈاکو راج نامنظور‘، ’کرپٹ حکومت نامنظور‘ جیسے نعرے لگائے۔ موجودہ حکومت کا یہ چوتھا بجٹ ہے اور یہ پہلی بار ہے کہ بجٹ سیشن میں اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی کی ہے۔
بجٹ اجلاس سے قبل قومی اسمبلی کی سپیکر ڈاکڑ فہمیدہ مرزا کی زیرِ صدارت ایوان کی کاروباری کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں مسلم لیگ نون کے کسی نمائندے نے شرکت نہیں کی۔
اجلاسں میں طے پایا کہ چھ جون سے چودہ جون تک بجٹ پر بحث ہو گی اور اجلاس کی کارروائی پیر سے سنیچر تک ہو گی جبکہ چوبیس جون کو بجٹ منظور کیا جائے گا۔ ایوان کی کاررباری کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ بجٹ سیشن کے دوران وقفہ سوالات اور قانون سازی معطل رہے گی۔ البتہ توجہ دلاؤ نوٹسز پر معمول کے مطابق کارروائی ہو گی۔
BBC