عدلیہ سے ازخودنوٹس کا مطالبہ کرنا درست نہیں ،اللہ کا فرمان ہے بغیر تحقیقات کے الزام نہ لگایاجائے،چیف جسٹس
اسلام آباد سپریم کورٹ آف پاکستان میںجج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیوکی تحقیقات کیلئے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستا ن نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدلیہ سے ازخودنوٹس کا مطالبہ کرنا درست نہیں ،اگر کسی کے کہنے پر ازخودنوٹس لیں تووہ ازخودنوٹس نہیں رہے گا،عدلت نے جب کچھ کرنا ہوگاتووہ خود کرے گی ،ہم نے کسی کے کہنے پر نہیں چلنا ،چیف جسٹس پاکستا ن نے یہ کلچر بن گیا ہے کہ ایسی باتیں کردی جاتی ہیں ،بغیر ثبوت کے الزام لگائے جاتے ہیں ،ذمہ دارلوگوں کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں ،ایسی باتوں سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اللہ کا فرمان ہے بغیر تحقیقات کے الزام نہ لگایاجائے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سکینڈل سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی ،جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطابندیال تین رکنی بنچ کا حصہ ہیں ،درخواستیں اشتیاق احمد مرزا سہیل اختراور ایڈووکیٹ طارق اسد نے دائر کی ہے ،درخواستوں میں وفاقی حکومت نوازشریف شہبازشریف ،مریم نواز،شاہد خاقان عباسی ،راجہ ظفر الحق اوردیگر کو فریق بنایاگیا ہے ،درخواستوں میں جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی انکوائری کرانے کی استدعاکی گئی ہے،درخواست میں کہا گیاہے کہ جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کیشن بنایاجائے،دوران سماعت درخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز نے 6 جولائی کو پریس کانفرنس کی،پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک پر الزامات عائد کئے گئے ،چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ پریس کانفرنس کا مقام کیا تھا؟
وکیل منیر صادق نے کہا کہ پریس کانفرنس لاہو رمیں ہوئی ،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدلیہ سے ازخودنوٹس کا مطالبہ کرنا درست نہیں ،اگر کسی کے کہنے پر ازخودنوٹس لیں تووہ ازخودنوٹس نہیں رہے گا،عدلت نے جب کچھ کرنا ہوگاتووہ خود کرے گی ،ہم نے کسی کے کہنے پر نہیں چلنا ،وکیل درخواست گزار نے کہا کہ معاون خصوصی فردوس عاشق نے کہا کہ ویڈیوکی فزانزک آڈٹ کرائیں گے،امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا،وزیراعظم نے خود کہاعدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہئے ،وکیل درخواستگزار نے کہا کہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے بھی کہا کہ ویڈیو کی انکوائری ہونی چاہئے ،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اب آپ کیا چاہتے ہیں ؟اگرآپ چاہتے ہیں تو آپ کو خوداس کیلئے کام کرنا ہوگا،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ کسی پہلے ہی عدالت میں چل رہا ہے،کیا آپ چاہتے ہیں ایسافیصلہ ہو جس سے دوسری عدالت کا دائرہ اختیارمتاثر ہوا،سپریم کورٹ کا اگرکوئی فیصلہ آگیا تووہ کورٹ اس کاپابند ہوجائے گا،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ کلچر بن گیا ہے کہ ایسی باتیں کردی جاتی ہیں ،بغیر ثبوت کے الزام لگائے جاتے ہیں ،ذمہ دارلوگوں کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں ،ایسی باتوں سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اللہ کا فرمان ہے بغیر تحقیقات کے الزام نہ لگایاجائے،اب آپ کی کیا تجویز ہے کمیشن بنایا جائے ،وکیل درخواستگزار نے کہا کہ جی معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیشن ضروری ہے، آپ ایک ہائیکورٹ کے جج کے سربراہی میںکمیشن مقررکردیں،کمیشن سفارشات تجویز کرے ،سفارشات کسی عدالت پرقدغن نہ ہوں ،چیف جسٹس پاکستا ن نے کہا کہ یعنی ہم اتنی ایکسرسائز کربھی لیں تواس کافائدہ کیا ہوگا،سفارشات ہونگی کوئی قدغن نہیں تواس سے حاصل کیا ہوگا،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اصل مسئلہ لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد حاصل کرنا ہے ،لوگوں کو عدلیہ پراعتمادنہیں ہو گا توانصاف کیسے ہوگا،بنیادی مسئلہ ہی عدلیہ پر اعتماد کا ہے ،وکیل نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل10 شفاف ٹرائل کا ہے ،عدالت کو معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا اختیار ہے ،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اس میں کوئی دورائے نہیں عدالت تحقیقات کیلئے کمیشن بنا سکتی ہے ،ہم نے آپ کی تجویز نوٹ کرلی ہے۔اشتیاق مرزا کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر اکرام چودھری نے دلائل شروع کردیئے۔