مصری صدر حسنی مبارک کا مستعفی ہونے سے انکار
’اقتدار کی منتقلی ستمبر میں، بیرونی ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘
مصر کے صدر حسنی مبارک نے مصری قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ وہ بیرونی ڈکٹیشن نہیں لیں گے وہ چاہے کسی بھی ملک سے آ رہی ہوں۔
دوسری جانب امریکی براک اوباما نے مصر کي صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دنيا مصر ميں ايسي نئی تاريخ رقم ہوتے ديکھ رہي ہے جس ميں نئی نسل اپنی آواز کو سنانا چاہتی ہے۔
مصر کے صدر حسنی مبارک نے مصری قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ وہ بیرونی ڈکٹیشن نہیں لیں گے وہ چاہے کسی بھی ملک سے آ رہی ہوں۔
حسنی مبارک نے ایک بار پھر قوم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ رواں سال صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ ’میں ایک بار پھر پوری قوم سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اس سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لوں گا۔ یہ انتخابات آزاد اور شفاف طریقے سے ہوں گے اور جو بھی ان انتخابات میں جیتے گا حکومت اس کو منتقل کر دی جائے گی۔‘
ایک طرف صدر حسنی مبارک خطاب کر رہے تھے جو کہ مصر کے سرکاری ٹی وی پر دکھائی جا رہی تھی اور دوسری جانب التحریر سکوائر میں موجود ایک بڑا مجمعہ خاموشی سے یہ تقریر سن رہا تھا۔
صدر مبارک نے کہا کہ یہ صرف مصری قوم ہی فیصلہ کرے گی کہ مصر کو کیا چاہیے اور کسی بھی بیرونی قوت کو مصر کے داخلی معاملات میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔
التحریر سکوائر میں موجود مبارک مخالف افراد کا مطالبہ ہے کہ صدر حسنی مبارک فوری طور پر اقتدار سے علیحدہ ہوں جائیں۔
صدر حسنی مبارک نے مزید کہا کہ مظاہرین کے مطالبے جائز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی حکومت غلطی کر سکتی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ حکومت غلطی کا اعتراف کرے۔
’ہم ان غلطیوں کا ازالہ کریں گے۔ اور حکومت کو کوئی شرم نہیں ہے کہ مصری نوجوانوں کی آواز کو سنا جائے۔‘
اس سے قبل مصر کی حکمراں جماعت کے ایک سینیئر رکن نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھیں امید ہےکہ صدر حسنی مبارک اقتدار اپنے نائب عمر سلیمان کے حوالے کر رہے ہیں۔
تاہم خبررساں ادارے رائٹرز نے خبر دی تھی کہ مصر کے وزیرِ اطلاعات نے کہا ہے کہ صدر مبارک استعفیٰ نہیں دے رہے۔
مصر میں گزشتہ سولہ دن سے صدر مبارک کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور تحریر سکوائر پر قابض مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ تیس سال سے اقتدار پر قابض حسنی مبارک اقتدار چھوڑ دیں۔
مصر کی فوج نے کہا ہے کہ وہ عوام کے جائز مطالبات پر ردِ عمل کے لیے تیار ہے۔ ریاستی ٹی وی پر ایک بیان میں فوج نے کہا کہ لوگوں کی حفاظت اس کے نزدیک سب سے اہم ہے۔
اس سے قبل وزیرِ اعظم احمد شفیق نے بی بی سی عربی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر مبارک کے اقتدار چھوڑنے کے مسئلے پر بات چیت ہو رہی ہے۔
قاہرہ میں بی بی سی کی نامہ نگار لیز ڈیوسٹ کہتی ہیں کہ یہ بات کہ صدر مبارک کی اقتدار چھوڑنے پر بات چیت جاری ہے بحائے خود ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔
ریاستی ٹی وی پر فوج کی ہائی کونسل کے اجلاس کی تصویریں بھی دکھائی گئیں جس نے ایک بیان میں کہا کہ عوام کی حفاظت اور سلامتی اس کے لیے سب سے اہم ہے۔
اطلاعات کے مطابق قاہرہ کی تحریر سکوائر میں جو مظاہروں کا مرکز ہے، مصری فوج کے کمانڈر نے مظاہرین کو بتایا ہے کہ ان کی ہر خواہش پوری ہوگی۔
بشکریہ بی بی سی