URDUSKY || NETWORK

سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض سے بچاوٴ کیلئے اقدامات کی ہدایت

69

صحت کا شعبہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے:وزیر اعظم

اسلام آباد . . .پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں سے اپیل کی ہے کہ و ہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صحت کے مسائل سے دوچار لاکھوں افراد کی مدد کے لئے پاکستان کو امداد فراہم کریں۔
منگل کے روز وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں سیلا ب زدہ علاقوں میں وبائی امراض کو پھیلنے سے روکنے اور متاثرین کو صحت کی بہتر سہولیات مہیا کرنے کے لئے اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ایجنسیوں کے علاوہ حکومت پاکستان کے متعلقہ اداروں کا ایک اعلی سطحی اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اس وقت سیلاب سے متا ثرہ پینتیس لاکھ بچوں کو پانی سے پھیلنے والی ہلاکت خیز بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں سانس کی تکالیف ،جلدی امراض اور غذائی قلت بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ سیلابوں نے پاکستان میں صحت کے شعبے کے ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔انہوں نے کہ سیلابوں کے نتیجے میں صحت کے دو سو مراکزتباہ ہونے کے علاوہ ساڑھے تین ہزار لیڈی ہیلتھ وزیٹربے گھر ہو گئی ہیں اور مزید یہ کہ متاثرہ علاقوں میں ڈاکٹر ،نرسیں اور دیگر طبی عملہ بھی موجود نہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کے سبب لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاقی وزارت صحت کو ہدایت کی گئی ہے کہ وبائی امراض کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ممکنہ اقدامات کئے جائیں۔ متاثرین سیلاب کو اب تک پہنچائی جانے والی طبی امداد کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مختلف متاثرہ علاقوں میں اب تک بائیس لاکھ افراد میں دو سو ٹن سے زائد ادویات تقسیم کی جا چکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اگلے چھ ماہ کے دوران پانچ لاکھ حاملہ مائیں بچوں کو جنم دیں گی اور اس صورتحال میں بہتر طبی امداد پہنچانے کے لئے اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ایجنسیاں حکومت پاکستان کی مدد کریں۔
وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال کے تنا ظر میں تحصیل،ضلع اور صوبائی سطح پر بیماریوں کے پھیلنے سے قبل از وقت آگاہ کرنے کا نظام وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ دریں اثناء اجلاس میں متاثرین سیلاب کو صحت کی سہو لیات مہیا کرنے کے لئے ایک منظم اور مربوط طریقہ کار وضع کرنے پر بھی غور کیا گیا۔
بشکریہ DW