سانحہ سیالکوٹ کے بعد اعلیٰ پولیس افسروں کی اکھاڑپچھاڑ، اہم ملزم تلہ گنگ سے گرفتار
سانحہ سیالکوٹ کا اہم ملزم تلہ گنگ سے گرفتار
سانحہ سیالکوٹ کے بعد اعلیٰ پولیس افسروں کی اکھاڑپچھاڑ
سیالکوٹ، تلہ گنگ(بیورورپورٹ اوصاف نامہ نگار) سیالکوٹ میں تشدد سے دو بھائیوں کے قتل کے واقعہ میں ملوث اہم ملزم سمیت چالیس افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ دیگر مفرور ملزمان اور پولیس اہلکاروں کی گرفتاری کیلئے پولیس کی ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں۔ تحصیل تلہ گنگ میں سانحہ سیالکوٹ کے بھاگے ہوئے ملزمان ذوالفقار احمد عرف زلفی اور اس کے دو چچا زاد بھائیوں بنیامین اور محمد نثار کو گرفتار کیا گیا۔ ادھر سانحہ میں پولیس نے جائے وقوعہ پر موجود پولیس افسران اور اہلکاروں سمیت سینکڑوں کی تعداد میں موقعہ پر موجود افراد کوبھی شریک جرم بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پولیس ذرائع کے مطابق کسی بھی جرم کو روکنے کی بجائے جرم کا سرعام مشاہدہ کرنا بھی شریک جرم ہونے کے مترادف ہے اوراسی وجہ سے دونوں سگے بھائیوں کی وحشیانہ تشدد سے ہلاکت کے واقعہ کے موقعہ پر موجود تماشائی کا کردار ادا کرنے والے معطل ایس ایچ او انسپکٹر رانا محمد الیاس سمیت تیرہ پولیس اہلکار ، ریسکیو1122کا عملہ اور سینکڑوں کی تعداد میں موجود شہری بھی شریک جرم ہیں۔ممتاز قانون دان وصدر پروفیشنل لائزرفورم شاہد میر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ119کے تحت کسی بھی سرکاری افسر یا اہلکا رکی موجودگی ہونیو الے جرم کو نہ روکنے پر موقعہ پرموجود سرکاری افسر یا ملازم کو وہی سزا ملے گی جو جرم کرنے والے کیلئے تجویز ہے جبکہ اسی جرم کی صورت میں عام شہری کیلئے بھی یہی سزا مقرر ہے تاہم تعزیرات پاکستان کی دفعہ 117اور114کا اطلاق ہوگا ۔ذرائع کے مطابق اگر موقعہ پر موجود پولیس افسران اور اہلکاروں سمیت ریسکیو عملہ اوردیگر سینکڑوں افراد کوشش کرتے تو دونوں نوجوان بھائیوں کی جان بچائی جاسکتی تھی ۔دریں اثناء سیالکوٹ میں 15اگست کی علی الصبح پیش آنے والے اس سانحہ کے سلسلہ میں گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور رات گئے تک مختلف مقامات پر مارے جانے والے چھاپوں میںمزید سات افراد کوگرفتار کرلیا گیا ہے جس کے بعد ا س مقدمہ میں سترہ نامزد ملزمان میں سے چودہ ملزمان کی گرفتاریوں اور سات پولیس اہلکاروںکے علاوہ دیگر پچاسی افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے جن سے سیالکوٹ کے مختلف تھانوں میں پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے ۔ ادھر ڈی ایس پی صدر کے دفتر سے گرفتاری کے بعد فرار ہوجانے والے سابق ایس ایچ ا وتھانہ صدر انسپکٹر رانا الیاس کی دو بہنیں اور دیگر رشتہ دار بھی نامعلوم مقام پر غائب ہوگئے ہیںتاہم پولیس نے رانا الیاس انسپکٹر کے والد اور ایک بھائی کو حراست میں لے لیاہے۔
سیالکوٹ . . .(جنگ نیوز ) سانحہ سیالکوٹ کے بعد اعلیٰ پولیس افسروں کی اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے ۔ماضی میں بھی کوتاہی یاسنگین غلطی پر پولیس افسران ہٹائے جاتے رہے ہیں ۔ پولیس حلقوں کے مطابق معطلی، محکمانہ انکوائری ان افسران کا کچھ بگاڑ سکی نہ مقدمات کا کوئی اثر پڑا اور وہ انہی عہدوں پر براجمان نظرآئے ۔ سیالکوٹ میں دو سگے بھائیوں کی تشدد سے ہلاکت کے بعد سی ایس پی پولیس افسران کو معطل اور عہدے سے ہٹادیا گیا ہے۔ اسی طرح کی کئی مثالیں ماضی میں بھی سامنے آتی رہی ہیں ۔ سی ایس پی پولیس افسران کو نااہلی اور غلطیوں پر سزائیں بھی ملیں لیکن اس سے زیادہ کچھ نہ ہوا۔1994 میں ایس ایس پی جاوید نور کو اس لئے ہٹایا گیا کہ ٹھوکر نیاز بیگ میں کالعدم تنطیم کیخلاف آپریشن کے دوران دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔اس کے بعد انہی جاوید نور کو ترقی دے کر پہلے ڈی آئی جی لاہور اورپھر آئی جی آزاد کشمیر لگادیا گیا اورآجکل وہ انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل ہی اسی طرح 1997میں ایک مذہبی تنظیم کی طرف سے لاہور میں ضلع کچہری کو نذرآتش کرنے پر ایس ایس پی ذوالفقار چیمہ کوہٹا دیا گیا تھا ۔ اس سے پہلے 1991 میں بھی انہیں اسلام پورہ میں 13افراد کے قتل کے واقعہ پر ایس پی سٹی کے عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا ۔1998 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمدکے موقع پر مظاہرے کے دوران غیر ملکی سفیروں سے بد سلوکی کا واقعہ پیش آیا جس پر ایس ایس پی ملک احمد رضا طاہر کو عہدے سے ہٹا کر فیصل آباد لگادیا گیا لیکن گوجرہ میں عیسائی بستیاں جلنے کے بعد بھی انہیں پھر ہٹادیا گیا لیکن دوبارہ لاہور تعینات کردیا گیا۔ 1999 ایس ایس پی لاہورسعود عزیز اور ڈی آئی جی ملک اقبال کو اس لئے ہٹایا گیا کہ 100بچوں کے مبینہ قاتل جاوید اقبال کے ساتھی اسحاق بلا نے تھانے میں خود کشی کرلی تھی۔ اسکے بعد سعود عزیز کو پہلے ملتان اور بعد میں راولپنڈی لگا دیا گیا جبکہ ملک اقبال کو سیالکوٹ میں 7 ججوں کے قتل کا مقدمہ درج ہونے کے باوجودمعطل کردیا گیا۔اب وہی ملک اقبال آئی جی بلوچستان ہیں۔ اسی طرح 2001 میں ایک مذہبی تنظیم کے مظاہرے کے موقع پر پولیس نے لاہور میں داتا دربار میں شیلنگ کی اور جوتوں سمیت دربار میں گھس گئی جس پر ایس ایس پی لاہور قلب عباس کو ہٹا دیا گیا ۔ وہی قلب عباس کئی پرکشش آسامیوں پر تعینات رہنے کے بعد اب ایڈشنل آئی جی ایلیٹ فورس ہیں۔3 مارچ 2009کولاہورمیں سری لنکن ٹیم کی حفاظت میں کوتاہی پر 3 پولیس افسران کے خلاف محکمانہ انکوئری کی گئی جو بدستور کام کر رہے ہیں ۔اب سیالکوٹ میں دو بھائیوں کی ہلاکت کے واقعے پر ڈی پی او سیالکوٹ وقار چوہان معطل جبکہ آر پی او گوجرانوالہ ذوالفقار چیمہ کو ہٹا کر ڈی آئی جی ویلفیئر تعینات کر دیا گیا ہے۔ دیکھیے وقار چوہان کب نئے عہدے پر فائز ہوتے ہیں ذوالفقار چیمہ کو کب ترقی ملتی ہے ۔ پولیس کی کارکردگی شفاف بنانے کے لیے 2002 میں پولیس افسران کو سزا دینے کیلئے ایک آرڈیننس متعارف کرایا گیا جس کے تحت اب تک کوئی پولیس افسر ملازمت سے فارغ ہوا نہ کسی کو سزا ملی ہے۔