یوم آزادی ؛ یوم استقلال – 14 اگست 2011
www.altafgohar.com
آج پاکستان کا یوم آزادی – یوم استقلال Independence Day انتہائی جو ش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947 ءمیں برٹش حکمرانوں سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا۔ 14 اگست کا دن پاکستان میں سرکار ی سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام منایا جاتا ہے جبکہ بچے ، جوان اور بوڑھے سبھی اس روز اپنا قومی پرچم فضاءمیں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی ہیروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پورے ملک میں ہر طرف جشن چراغاں ہوتا ہے اور ایک میلہ کا سا سماں بندھ جاتا ہے۔ اسلام آباد جو کہ پاکستان کا دارلخلافہ ہے اسکو انتہائی شاندار طریقے سے سجایا جاتا ہے، جبکہ اسکے مناظر کسی جشن کا ساسماں پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔اور یہیں ایک قومی حیثیت کی حامل تقریب میں صدر پاکستان اور وزیرآعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کیطرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔ ان تقریبات کے علاوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز ہلالی پرچم پوری آب و تا ب سے بلندی کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ یوم اسقلال کے روز ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ پہ براہ راست صدر اور وزیرآعظم پاکستان کی تقاریر کو نشر کیا جاتا ہے اور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم سب نے مل کراس وطن عزیز کو ترقی، خوشحالی اور کامیابیوں کی بلند سطح پہ لیجانا ہے۔
سرکاری طور پر یوم آزادی انتہائی شاندار طریقے سے مناتے ہوئے اعلی عہدہ دار اپنی گورنمنٹ کی کامیابیوں اور بہترین حکمت عملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے عوام سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے تن من دھن کی بازی لگاکر بھی اس وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے اور ہمیشہ اپنے لیڈر قائداعظم محمد علی جناح کے قول ایمان، اتحاد اور تنظیم کی پاسداری کریں گے۔
14 اگست کو پاکستان میں سرکاری طور پر تعطیل ہوتی ہے، جبکہ سرکاری ونیم سرکاری عمارات میں چراغاں ہوتا ہے اور سبز ہلالی پرچم لہرایاجاتا ہے۔اسی طرح تمام صوبوں میں مرکزی مقامات پر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے او ر ساتھ ساتھ ثقافتی پروگرام کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔پاکستان کی تمام شہروں میں مئیر (ناظم) قومی پرچم بلند کرتے ہیں جبکہ کثیر تعداد میں پرائیوٹ اداروں کے سربراہان پرچم کشائی کی تقاریب میں پیش پیش ہوتے ہیں۔سکولوں اور کالجز میں بھی پرچم کشائی کی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رنگارنگ تقریبات، تقاریر اور سیمینارز کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ گھروں میں بچوں ، جوانوں اور بوڑھوں کا جوش و خروش توقابل دید ہوتا ہے جہاں مختلف تقریبات کے علاوہ دوپہر اور رات کے کھانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور بعد ازاں سیروتفریح سے بھی لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ رہائشی کالونیوں ، ثقافتی اداروں اور معاشرتی انجمنوں کے زےراہتمام تفریحی پروگرام تو انتہائی شاندار طریقے سے منائے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں مقبرہءقائداعظم پر سرکاری طور پر گارڈ کی تبدیلی کی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے۔ اسی طرح واہگہ باڈر پر بھی ثقافتی اور میزیکل تقریبات میں گارڈز کی تبدیلی کا عمل وقوع پزیر ہوتا ہے جبکہ غلطی سے واہگہ باڈر کراس کرنے والوں کو قیدیوں کی دوطرفہ واپسی کا عمل بھی وقوع پاتا ہے۔
بر صغیر پاک و ہند پرمسلمانوں نے ایک ہزار سال حکمرانی کی ،نہایت با حسن طریقے سے وسیع سلطنت کو فلاحی بنانے میں کامیاب ہوئے ،اس کامیابی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ حکمران ملک میں قرآن و سنت کے نظام پر عمل کرتے تھے۔ اکبر بادشاہ نے سب سے غلط راستہ کا ا نتخاب کیا انھوں نے ہندومت اور اسلام کے اصولوں کو یکجا کر کے دین الہی کا ڈھونگ رچایا جہاں لو گوں کے اخلاق پست ہو گئے یوں ایک مسلم معاشرے میں ہندوانہ رنگ نظر آنے لگا۔اس کے بعدمسلمانو ں کے ساتھ وہی کچھ ہوا جس کا اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے جب تک مسلمانوں نے اللہ کے رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا ملک و قو م پران کی حکمرانی تھی لیکن جہاں یہ لو گ دین اسلام سے منحرف ہو گئے اللہ تعالیٰ نے ان سے اقتدار چھین لیا اور عذاب کی صورت میں ان پر انگریز مسلط کر دیئے ،جنھوں نے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ تورے تعلیم مال اور اسباب سے محروم کر دیا ،ہندووں اور انگریزوں نے مسلمانوںکو زند گی کے ہر شعبے میں پست اور رسوا کیا۔تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے خود ملک و قوم سے غداری نہیں کی انھیں کوئی شکست سے دوچار نہیں کر سکتا۔
دو قومی نظریہ ہی تحریک پاکستان کا سبب بنا۔ پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی۔ لاکھوں مسلمانوں نے اسلام کے تحفظ اور کفار سے آزادی کے لئے ہی پاکستان کے نام پر بے مثال قربانیاں دیں۔ پاکستان کو دنیا کا پہلا نظریاتی ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ جس کی قوام کا نعرہ تھا۔پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ قائداعظم محمدعلی جناح،علامہ اقبال ،سرسید احمدخان اور ان جیسے دیگر رہنماوں نے سوئی ہو ئی مسلمان قو م کو جگایا۔علامہ اقبال ایک عظیم مفکر اور مدبر تھے وہ کسی صورت غلامی کو پسند نہیں کرتے تھے اس لئے انھوں نے اپنی شاعری ،تحریروں اور تقریروں کا سہارا لیکر پاک وہند کے مسلمانوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی۔ سرسید ا حمدخان نے مسلمانوں میں تعلیمی میدان میں انقلاب پر پا کیا۔قائد اعظم کی صورت میں مسلمانوں کو ایک عظیم راہنما ملا جنھوں نے مسلمان قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اورآزادی کی تحریکیں چلائی جس میں انھیں کامیابی نصیب ہو ئی بالاآخر14 اگست 1947ءکو مسلمانوں کو ایک آزادمملکت حاصل ہو ا۔
63سالوں پر محیط آزادی کے سفر پر نظرڈالیں تو معلوم ہو گا کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد کوئی ایسا حکمران نہیںآیا جس نے ملک و قوم کی بہتر انداز سے خدمت کی ہو سیاسی بحران اور دشمن کی چالوں سے ملک کو نقصان ہوتا رہا۔ 1958 ملک پاکستان بحران کی نظر ہوا جب سیاسی پرٹیوں نے اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کی اور 18اکتوبر 1958ئ میں صدرپاکستان ایوب خان نے ملک میں مارشل لاءکے نفاذکا اعلان کردیا۔1956 کا ائین معطل کر دیا وزیر بر طرف کردئیے گئے اسمبلیاں توڑ دی گئیں۔ ستمبر 1965ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان حق اور باطل کی جنگ ہو ئی اس سترہ روزہ جنگ میں پاکستانی عوام نے فوج کے ساتھ ملکر نہایت عیار اور اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کا مقابلہ کیااور فتح حاصل کی ،5مارچ 1969ئ کو صدرایوب خان نے بڑھتے ہوئے سیاسی بحران ا ور بگڑتی ہو ئی صورتحال کے پیش نظر صدرات سے استعفی دے دیا اور ملک کی سر براہی بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد یحیی خان کے سپر کردی ،انھوں ملک میں دوسری بار مار شل لاءنافذکر کے قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں اور وزارتیں اور آئین معطل کر کے چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور پھر صدر پاکستان کے اختیارات سنبھال لئے۔دشمن نے 1971ءمیں ایک اور چال چلی جس سے مشر قی پاکستان کی علیحد گی کا افسو ناک و اقعہ پیش آیا۔ 4اپریل 1979کو مسٹر بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دی گئی۔صدر پاکستان جنرل محمد ضیا ءالحق7اگست 1988ئکو مختصر دورے سے فو جی یونٹوں کا معائنہ کر نے کے بعد واپس آرہے تھے کہ ان کے طیارہ کو حادثہ پیش آگیا۔صدر پاکستان غلام اسحق خان نے بد عنوانی ،نااہلی اور ناکارکردگی کی بنیادوں پر وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کو 18اپریل 1993ءکو چلتا کیا اور نئے انتخابات کے لئے 14جولائی 1993ءکی تاریخ دےدی۔1993،بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم ہو ئی۔فروری 1997کے الیکشن میں اکثریتی ووٹ حاصل کر کے جناب نواز شریف نے ثابت کر دیا کہ وہ پاکستان کے نہایت ہر دل عز یز اور کامیاب سیاستدان ہیں ،1999ءمیں وزیراعظم اور فوج کے درمیان بد اعتمادی کی فضا پیدا ہو ئی جس کے نتیجے میں فو ج کو 12اکتوبر 1999ءکو وزیراعظم کو بر طرف کر کے ملکی انتظام سنبھالنا پڑا۔آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے چیف ایگز یکٹو کے نام پر ملک کاانتظام خود سنبھالیا۔یہی وہ نقطہ آغاز تھا جس سے آج ملک کے اس نہج پر پہنچ گیا جس کا نقصان کو ئی ادا نہیں کر سکتا۔پرویز مشرف کی 9سالاتاریک دور میں پاکستان اپنا بہت کچھ کھو بیٹھا۔1ستمبر 2001ءکے واقعہ کے بعد امریکی حکومت کی جنگ میں انسداد دہشت گردی میں شرکت اختیار کی۔اور اس جنگ میں شرکت کا آج ہر پاکستانی خمیازہ بھگت رہا ہے اسکے غلط فیصلہ سے آج پاکستان میدان جنگ بنا ہو اہے لاکھوں پاکستانی امریکہ کے حوالے کردئے جن کا آج تک کو ئی سراغ نہیں لگ سکا پورے سرحد میں نام نہاد جنگ کی آگ لگادی ملک میں خود کش بم دھماکوںکا آغاز ہو ا،پے درپے بم دھماکے شروع ہوئیں ،لال مسجد کا افسوسناک و اقعہ پیش آیا ،طاقت کے زرو پر وہ سب کچھ کیا جو پرویز مشرف کا دل چاہارہا تھا۔سرحد کی تباہ کن صورتحال، ملک میں دہشت گردی خودکش بم دھماکے، لال مسجد کا سانحہ،ایمرجنسی ،آئین کو توڑنا ،عدلیہ کا بحران ،ملک میں توانائی کا بحران ان جیسے کئی واقعات کا ذمہ دار پرویز مشرف ہے ملک کو جہاں تر قی کی ضرورت تھی وہاںان 9سالوں میں ملک ناقابل تلافی نقصا ن پہنچایا گیا۔
اگر مختلف شبعہءزندگی پے نظر ڈالی جائے ملک پاکستان میں کسی شبعہءزندگی میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ تعلیم اسی پسماندگی کا شکار ہے جہاں طبقاتی تقسیم کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ سیاست روائتی ڈگر سے ہٹ کر سہ رخی پالیسی کا شکار ہو چکی ہے جہاں کہ عوامی طور پر عدم دلچسپی کا اظہار نمایاں ہے۔ عدل و انصاف کے شعبہ میں عدالتی نظام بھی امریت کے شکنجے میں رہا ہے اور حال ہی میں وکلا ء اور سول سوسائٹی کی بھرپور تحرےک آخر رنگ لائی اور 16 مارچ 2009 ءمیں تمام جج بحال ہوئے اور ایک آزاد عدلیہ سامنے آئی جس سے عوام کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔پاکستانی عدلیہ کے بہت سے اقدام قابل ستائش ہیں۔
اقتصادی شعبہ میں کوئی نمایاں ترقی نہیں ہوئی حالانکہ پاکستان میں دنیا کا بہترین آبی نظام موجود ہے۔اور اسی طرح میعشت کے تمام شعبوں میں ذہین ترین لوگ موجود ہیں مگر غیر جامع پالیسیوں کے باعث کوئی افادہ حاصل نہ کر سکے بلکہ کشکول لیکر امداد کیلئے دنیا میں مارے مارے پھرتے ہیں اور آئی ایم ایف اور علمی بینک کے قرضوں تلے دبے جا رہے ہیں۔ معاشی بد حالی ، غربت ، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ زندگی سے تنگ آچکے ہیں ، جو تو کچھ حیثیت رکھتے ہیں وہ ملک چھوڑ کر بیر ون ممالک ہجرت کر رہے ہیں اور باقی بدحالی کا شکار دیوار سے لگے کھڑے ہیں۔
اگر ایک طرف انٹرنیشنل میڈیا ، وکی لیکس نے کرپشن کو سپاٹ لائٹ کیا ہے تو دوسری طرف پاکستانی میڈیا بھی کسی طور کم نہیں البتہ سیاست کو میڈیا پر پتلی تماشہ بنا کر پیش کرنا کسی بھی طور تضحیک آمیز ہے ، کیابین الا قوامی طور پر اس سے ہمارا قومی وقارمجروح نہیں ہو رہا ؟ تنقید برآئے تنقید و تضحیک سے کیا عوامی مسائل حل ہو سکتے ہیں؟
اس سے پہلے کہ حالات کا پنجہ ہمارے گریبان تک پہنچے ہمیں ان کو سلجھانا ہے۔کیا ہم سیل رواں کے بہتے دھارے پر رکھی ہوئی کائی کی طرح حالات کی موجووں کے تھپڑے کھاتے ہوئے کسی انجانے گرداب میں اپنا وجود کھوجائیں گے؟ نہیں!ہم تو طلاطم خیز موجووں کا سینہ چیرنے والے ایسے سفینے ہیں جو خیر وعافیت کے کنارے کی طرف گامزن ہیں۔ اس وطن عزیز کو کس کی نظر لگ گئی ہے اس کشتی کو منجھدار سے کون نکالے گا؟ ہاں ہمیں اب خواب خرگوش سے جاگنا ہے اور حالات کو سلجھانا ہے اور اپنا ذاتی کردار اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے اداکرناہے۔ اب مزید کنارہ کشی کے اہل نہیں ہیں، پہلے ہی اپنے کیے کی بھگت رہے ہیں، جہاں ہم سب اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں وہاں ہمیں اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ دنیا کے نقشہ پر ہم ایک ملک و قوم کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں اور ہمیں اس شناخت کو بھی برقرار رکھنا ہے۔ ہم ایک قوم ہیں مگر اپنی ثقافت روایات، تہذیب و تمدن ہے جو اغیار کی نظر میں کھٹک رہا ہے۔ اپنے وجود کی شناخت کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔بےرونی اندیشوں اور اندرونی خلفشاروں کا ایک ہی حل ہے کہ ہم ایک قوم کےطرح سوچیں، ہمیں بارش کا پہلا قطرہ بننا ہے جو اس سرزمین وطن کو سیراب کردے۔ ہم تو ایک سیسہ پلائی ہوئی مضبوط دیوار ہیں ہر اینٹ دوسری اینٹ کو جوڑے ہوئے ہے ایک وجود کا احساس پےدا کرنا باقی ہے۔ہمیں دوسری تہذیبوں کے بےچ میں اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہے۔ انٹرنیٹ اور میڈیا کے اس دور میں جہاں دنیا کے ایک کنارے پہ سرکنے والے پتھر کی بازگشت دنیا کے دوسرے کنارے پر سنائی دیتی ہے وہاں ہماری شناخت کہیں کھو تو نہیں رہی۔ ہمیں اپنی نئی نسل کےلئے سوچنا ہے جو حالات کے رحم و کرم پہ ہے۔ اس سے پہلے کہ ہمارا وجود کھو جائے ،ہمیں اپنی شناخت کو اجاگر کرنا، آج جس مشکل میں ہے اسے مضبوط فیصلوں سے ہی مضبوط بنایا جا سکتاہے۔ہم جس بھی رنگ میں رنگے جا رہے ہیں اس کا تو اب احساس بھی ختم ہوتا جا رہا ہے روزمرہ معاملات اب اس تربیت کے باعث ہمیں مختلف دکھائی دیتے ہیں ہمارے رسم و رواج کے اندر جو کچھ ملاوٹ ہو چکی ہے شاید اس کا خمیازہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اس نئے دور کی نئی تہذیب کے جو ثمرات ہمیں مل رہے ہیں اس کا credit اس ذہن کو دینا چاہیے جس نے کامیابی کے ساتھ اپنا رنگ ہمارے اوپر رنگ دیا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلنے دیا۔ امید یہ ہے کہ ہم ، جو کہ اس دلدل میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور بچنے کیلئے ہاتھ پا?ں مار رہے ہیں، اگلے مرحلے (Stage)پہ اپنا وجود کھو چکے ہوں گے۔
جہاں ہمارے پاس دوسروں کی برائیاں کرنے کیلئے بہت وقت ، ہے وہاں ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرات نہیں کرتے۔ اپنے آپ کواحساس (Realize) دلانے کا وقت بھی نہیں یہ سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا تو نامعلوم کتنی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا آج اگر ہم کم از کم اتنی ہمت کر لیں کہ اپنی آنکھوں کی پٹی اتار کر غیر جانبدار ہو کر اپنے ارد گرد بدلتے ہوئے زندگی کے رنگوں کو اپنی ”ذاتی“ آنکھوں سے دیکھ کر فیصلہ کریں کہ آیا ہم سب کچھ صحیح کر رہے ہیں یا کچھ غلط بھی ہو رہا ہے؟ آیا ہم اتنے لاپرواہ ہیں اور کیا ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں؟ ہم کب تک معاملات سے پہلوتہی کرتے رہیں گے اور کب اپنے مقام پہ رہتے ہوئے اپنا اپنا فرض دیانتداری سے ادا کریں گے؟
کچھ دیر رک جاوءتم ابر ہونے تک