URDUSKY || NETWORK

واپس پہنچ کر افغان طالبان سے ملاقات کروں گا، وزیراعظم

92

وزیراعظم عمران خان نے وطن واپس پہنچ کر افغان طالبان سے ملاقات کرنے کا عندیہ دے دیا۔

واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک سے خطاب کے بعد ایک سوال کے جواب می عمران خان نے کہا کہ میری طالبان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اب امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد طالبان سے ملاقات کرکے انہیں مذاکرات کے لیے آمادہ کروں گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ چند ماہ قبل طالبان نے مجھ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن اس وقت افغان صدر اشرف غنی نہیں چاہتے تھے کہ میں ملاقات کروں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے آمادہ کریں گے اور طالبان کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہیے۔

وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کا تعلق جہموریت کے استحکام سے وابستہ ہے۔

عمران خان نے کہا اس وقت پاکستان میں سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہیں اور امریکا بھی اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل سیاسی ہے۔

’اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے‘

پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت ایک مذہبی گروپ کے دباؤ کی وجہ سے توہین مذہب کی ملزمہ آسیہ بی بی کا مقدمہ چلانے پر آمادہ نہیں ہوئی، حکومت مذکورہ گروپ کے ہاتھوں یرغمال ہو چکی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آسیہ بی بی کے حق میں آیا تو اسی مذہبی گروہ نے ریاست کو 2 دن تک یرغمال بنائے رکھا لیکن حکومت نے عدالتی فیصلے کا احترام اور اقلیتی خاتون کا استحقاق مجروع نہیں ہونے دیا اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ آپ دیکھیں گے یہ حکومت اپنی اقلیتوں کو شہریوں جیسے حقوق دے گی، ہمارے مذہب اور آئین میں اقلیتوں کو دیگر شہریوں کی طرح یکساں حقوق حاصل ہیں۔

’پاکستانی میڈیا برطانوی میڈیا سے زیادہ آزاد ہے‘

وزیراعظم عمران خان نے میڈیا کی آزادی سے متعلق سوال پر کہا کہ میں برطانوی میڈیا کے ماحول سے اچھی طرح واقف ہیں اور پورے یقین سے کہتا ہوں کہ پاکستانی میڈیا برطانوی میڈیا سے زیادہ آزاد ہے‘۔

انہوں نے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے لیکن ساتھ ہی قابو سے باہر بھی ہوجاتا ہے۔

ان کا کہا تھا کہ امریکا میں بھی میڈیا کو اتنی چھوٹ نہیں کہ وہ برسراقتدار حکومت کے وزیراعظم کی ذاتی زندگی کے بارے میں منفی رائے قائم کرے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے دور میں صحافی غائب ہو جایا کرتے تھے، مسلم لیگ (ن) کے دور میں صحافیوں کے ساتھ مار پیٹ کی گئی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کو میڈیا کنٹرول نہیں کرنا چاہیے لیکن ایک ریگولیٹری اتھارٹی میڈیا کے معیارات کا جائزہ لے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ملک ایک طرف مالی خسارے سے دوچار ہے اور اس پر میڈیا آئی ایم ایف کا حوالہ دے کر روپے کی قدر میں کمی سے متعلق غلط خبریں چلارہا ہے، ایسا کہاں ہوتا ہے؟‘

عمران خان نے کہا کہ یہ سینسر شپ نہیں ہے لیکن ہم نگراں اداروں کو مضبوط بنائیں گے۔

’پاکستان نے 60 کی دہائی کی میں تیزی سے ترقی کی‘

عمران خان نے کہا کہ ہمارےوالدین نو آبادیاتی نظام کے دورمیں پیدا ہوئے تھے، میں آزاد پاکستان میں پیدا ہونے والی نسل سے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میرے والدین نے ہمیشہ یاد دہانی کروائی کی کہ نوآبادیاتی نظام میں رہنا کتنا مشکل تھا جہاں آپ ایک آزاد ملک میں نہیں رہتے تھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ بہت فخر کی بات تھی جب پاکستان نے 60 کی دہائی کی میں تیزی سے ترقی کی، اس وقت پاکستان کی معیشت خطے میں تیز ترین تھی۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان کی ترقی سے ہمیں امید ملی کہ اس ملک کی ایک منزل ہے لیکن 70 کی دہائی کے بعد پاکستان کے حالات خراب ہونا شروع ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے 2 دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی جسے 90 کی دہائی کے آغاز میں خیر باد کہا اس کے بعد میرا مقصد فلاحی کام تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ کرکٹ سےریٹائرمنٹ کےبعدکینسر اسپتال بنایا، کینسر کے باعث میری والدہ انتقال کرگئی تھیں، میں نے محسوس کیا کہ ملک میں کینسر کا کوئی ہسپتال نہیں ،ہسپتال بنایا تاکہ غریبوں کو علاج کی سہولت حاصل ہوسکے۔

عمران خان نے کہا کہ میں نے 6 سے 7 سال ہسپتال چلانے میں گزارے،اس دوران مجھے احساس ہوا کہ ایک بڑے ملک میں سوشل ورک سے تبدیلی نہیں آسکتی یہ صرف سیاست سے آسکتی۔

وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں تبدلی کے لیے مجھے سیاست میں آنا پڑا، میں نے سیاسی جدوجہد کے 15 برس کرپشن کے بارے میں بات کی لیکن لوگوں کو سمجھ نہیں آیا، پھر بتدریج انہیں میری باتوں کی سمجھ آئی اور 2013 کے انتخابات کے بعد کامیابی کے امکانات روشن ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 15 برس میں محض چند نوجوان میری پارٹی میں شریک ہوئے اور آہستہ آہستہ لوگوں کو میری پارٹی کا منشور سمجھنے میں آنے لگا۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آئی تب ایک بڑا چینلج یہ تھا کہ تمام مالیاتی ادارے خسارے سے دوچار تھے۔

انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں اور اشرافیہ طبقے نے منی لانڈرنگ کے ذریعے آف شور اکاؤٹنس اور مغربی ممالک میں سرمایہ کاری کی۔

’دہشت گردی کے مقابلے میں کرپشن سے زیادہ لوگ مرے‘

عمران خان نے کہا کہ کرپشن کی وجہ سے دہشت گردی کے مقابلے میں زیادہ اموات ہو رہی ہین کیونکہ منی لانڈرنگ کی وجہ سے بھوک افلاس کا گراف بڑھ رہا ہے اور لوگ مر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کرپٹ سیاستدان ریاستی اداروں کو تباہ کرتے ہیں، اگر مذکورہ ادارے مضبوط ہوں گے تو منی لانڈرنگ کے امکانات نہیں ہوں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ لوٹی ہوئی دولت تو واپس لی جاسکتی ہے لیکن تباہ شدہ اداروں کو دوبارہ کھڑا کرنا انتہائی مشکل ہے ۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں لڑرہا بلکہ ایک مافیا کے ساتھ لڑ رہا ہوں۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اقتدار میں آنے کے لیے 23 سال جدوجہد کی، سپریم کورٹ کی فتح اس وقت ہوئی جب وزیراعظم کو نااہل قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں مافیا اس لیے کہتا ہوں کیونکہ 2 جماعتوں نے 30 سال تک حکومت کی ہم اس لیے جیتے کہ ہم نے نوجوانوں کو متحرک کیا۔

’بھارت سے تعلقات میں بہتری کےخواہاں ہیں‘

عمران خان نے کہا کہ پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات ہماری ترجیح ہے کیونکہ اقتصادی ترقی کے لیے ہمیں امن کی ضرورت ہے جس کے لیے پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات ہونا ضروری ہیں۔

پڑوسی ممالک کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے، مسئلہ کشمیر کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات مشکل ترین مرحلے میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے بھارت سے تعلقات میں بہتری کےخواہاں ہیں، بھارت سے تعلقات کی راہ میں مسئلہ کشمیر رکاوٹ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ جب بھی کوشش کی گئی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جب دونوں ممالک دوبارہ ایک دوسرے کے سامنےکھڑے ہوتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ حکومت میں آتے ہی بھارت کی طرف ہاتھ بڑھایا، میں نے بھارتی وزیراعظم کو تعاون کی پیشکش کی تھی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین تجارت کے آغاز سے غربت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح ایران کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات تھے ایران تنازع کےفریق ممالک کومعاملےکی سنگینی کاادراک ہوناچاہیے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلق کافی مشکلات کا شکار تھے، میں نے افغان صدر اشرف غنی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ ہم تعلقات میں آگے بڑھ رہے ہیں، اب امریکا اور پاکستان اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان کا مسئلے کا حل عسکری نہیں اس لیے ہم امن عمل کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔

’چاہیں یا نہ چاہیں امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے پڑتے ہیں‘

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امریکا سُپر پاور ہے آپ چاہیں یا نہ چاہیں امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے پڑتے ہیں، جب صدر ٹرمپ نے مجھے ملاقات کی دعوت دی تھی تو میں تھوڑا پریشان تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر نے ہمارے دل جیت لیے، ڈونلڈ ٹرمپ نےجس طرح سےخیرمقدم کیاوہ ہمارے لیے انتہائی خوشگوار تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہمارے درمیان قریبی تعلقات ہوں گے اور کس طرح ہم روابط کے خلا میں کمی کو یقینی بنائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ 2003 یا 2004 سے لے کر 2015 تک پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا بدترین دور تھا۔

’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دیں‘

ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے حملوں میں کوئی بھی پاکستانی ملوث نہیں تھا لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دیں۔

عمران خان نے کہا کہ ہم نے 70 ہزار جانوں کی قربانیاں دیں، ہماری معیشت کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوا لیکن اس کے باوجود بداعتمادی کی فضا قائم تھی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان سمجھتا تھا کہ ہر ممکن کوشش کررہا تھا، پاکستان اس جنگ سے علیحدہ ہوسکتا تھا لیکن افغان جنگ میں کردار ادا کیا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ ہم سوچنے لگے کیا ہم بچ جائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ آئے دن خودکش بم دھماکے ہوتے تھے، سرمایہ کار تو کیا کوئی اسپورٹس ٹیم پاکستان نہیں آتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران امریکا نے کہا ہم زیادہ کردار ادا نہیں کررہے ہم ڈبل گیم کھیل رہے ہیں میرے خیال میں وہ پاک – امریکا تعلقات کا بدترین وقت تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میری طالبان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اب امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد طالبان سے ملاقات کرکے انہیں مذاکرات کے لیے آمادہ کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں امریکا کو پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان کے خدوخال کے بارے میں ناقص معلومات تھیں، میں نے ڈیموکریٹس کے اراکین سے ملاقات میں انہیں بتایا تھا کہ عسکری کارروائی کے ذریعے کابل سمیت دیگر شہروں میں امن نہیں لایا جاسکتا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم مشترکہ طور پر کام کریں تو افغان امن عمل کے مثبت نتائج سامنےآئیں گے۔

قبل ازیں امریکی اسٹیٹ سیکریٹری مائیک پومپیو نے پاکستان ہاؤس میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی۔

ملاقات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سیکریٹری خارجہ سہیل محمود اور امریکا میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید میں شریک تھے۔