موثر تفتیش کیلئے پولیس کی خودمختاری ضروری ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مقدمات کی تفتیش کو بہتر بنانے کے لیے پولیس کی خود مختاری کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوجداری نظام میں جھوٹی گواہی اور التوا کے حربے دو بڑے مسائل ہیں۔
کراچی میں پولیس ہیڈ آفس میں تقریب سےخطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ‘اگر کوئی ملزم بری ہوتا ہے یا اس کی ضمانت ہوتی تو ان مقدمات پر تحقیق کی ضرورت ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘عدالتیں تفتیشی ثبوت پر اعتبار کیوں نہیں کرتیں حالانکہ فیصلوں میں وجوہات بتادیے جاتے ہیں اور پولیس کو کیوں ان وجوہات کا علم نہیں ہوتا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے تجویز دی ہے کہ تفتشی کمیٹی میں کم ازکم ایک ریٹائرڈ سیشن جج کو شامل کیا جائے جو پولیس کے کام اور فوجداری مقدمات کے بارے میں علم رکھتا ہو، ان کمیٹیوں میں نوجوان وکلا کو شامل کریں جو ان مقدمات کی تفتیش میں دلچسپی رکھتے ہوں’۔
انہوں نے کہا کہ جس کے بعد ضلعی پولیس کی ذمہ داری ہے کہ اس رپورٹ اور وجوہات کو تمام پولیس افسران تک پہنچائے جو تفتیش کے لیے مختص ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ‘ہماری خواہش اور ہمارے خواب کی بتدریج تکمیل کے لیے ہمیں پولیس نظام کو بہتر کرنا ہوگا، پولیس فورس کو موثر اور قابل بھروسہ بنانا ہوگا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں پولیس کی خود مختاری کو یقینی بنانا ہوگی تاکہ وہ معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرے’۔
عدلیہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘عدلیہ میں ہمارے پاس دو بنیادی مسائل ہیں جن میں سے پہلا جھوٹی گواہی ہے اور دوسرا تاخیری حربے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جھوٹی گواہی پہلا مسئلہ ہے، ہر قتل کے مقدمے میں ہم نے دیکھا ہے کہ عینی شاہد مقتول کا باپ، بھائی، بیٹا، کزن یا چچا وغیر ہوتے ہیں، اس ملک میں یہ عجیب بات ہے کہ ہر قتل اس کے باپ، بھائی یا کزن اور چچا کے سامنے ہوتا ہے اس کے علاوہ نہیں ہوتا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘بعض اوقات واقعات ایسے جگہوں ہوتے ہیں جہاں پر قریب کوئی رہتا لیکن ایسی جگہوں پر کوئی بھائی یا کزن صبح کے 2 بجے اس کھیت سے گزر رہا ہوتا ہے جو صریح غلط ہے’۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ‘ہم اس مسئلے سے نمٹ لیں گے، اس میں وقت لگ سکتا ہے، اور اس کے آغاز میں ملزمان بری بھی ہوسکتے ہیں لیکن جھوٹی گواہی کو قبول نہیں کیا جائے گا، اپنے معاشرے کے فائدے کے لیے ہمیں واضح کرنا ہوگا کہ جھوٹی گواہی قبول نہیں کی جائے گی’۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ عدالت میں حلف لینے کے باوجود جھوٹی گواہی دیتے ہیں اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے اگر معاشرے کو بہتر کرنا ہے تو اس حوالے سے کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب کسی مقدمے میں کچھ بھی غلط ہوگا تو پورا مقدمہ ختم ہوگا۔
انہوں کہا کہ ‘ہم بحیثیت مسلم معاشرہ ہم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم سچ پر عمل پیرا ہوں اور سچ کے سوا کچھ نہ ہو’۔
عدلیہ کے دوسرے مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ‘فوجداری نظام کے حوالے سے ہم ججز نے بیٹھ کر فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں قوانین اور پروسیجر میں تبدیلی کی ضرورت نہیں، ہمیں نئی عدالتوں، نئے ججوں اور نئے وکلا کی ضرورت نہیں ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘نظام میں رہتے ہوئے ہم چیزوں کو درست کرسکتے ہیں اور ان سے نمٹ سکتے ہیں’۔
‘جج صاحب کو تھوڑی زیادہ عزت سے روانہ کروں’
چیف جسٹس نے تاخیری حربوں سے نمٹنے کے حوالے سے اپنے علاقے ڈیرہ غازی خان میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ ایک چرواہے نے پل پر پھنسے ٹرک کو وہاں سے گزارنے کے لیے انجینئرز کو مشورہ دیا کہ ٹائر کا ہوا نکال دیا جائے اور جب ایسا کیا گیا تو ٹرک 6 انچ نیچے آگیا اور یوں ریل کے آنے سے قبل ہی ٹرک کو وہاں سے گزار دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک تاخیری حربوں کا معاملہ ہے تو ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مقدمات میں کوئی التوا نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ‘مقدمات سننے کے لیے مقرر ہوتے ہیں، اور میری عدالت میں گزشتہ کئی برسوں سے کوئی التوا نہیں ہوتا کیونکہ میں نے واضح کردیا کہ التوا دو صورتوں میں ہوگا یا وکیل صاحب فوت ہوجائیں یا جج صاحب رحلت فرمائیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اس پر انہوں نے کہا یہاں آپ کے الفاظ مختلف ہیں تو میں نے کہا کہ جج صاحب کو تھوڑی سی زیادہ عزت سے روانہ کرنا ہے’۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وکیل کی مصروفیات ہیں تو انہیں اس کا انتظام کرنا ہوگا کیونکہ اب کوئی التوا نہیں ہوگا جو مقدمہ چل رہا ہے اس کا فیصلہ ہوگا۔
اس سے قبل چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پولیس اصلاحات سے متعلق اجلاس ہوا جہاں پولیس کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہوئے۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 4 مارچ 2019 کو جھوٹی گواہی سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ جھوٹے گواہوں نے نظام عدل کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، تمام گواہوں کو خبر ہو جائے کہ اگر بیان کا کچھ حصہ جھوٹ ہوا تو سارا بیان مسترد ہو گا۔