عمران خان کی آمد سے تعلقات بحال ہونے کے دروازے کھل گئے، وائٹ ہاؤس
وزیر اعظم عمران خان کے 3 روزہ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچنے پر امریکی انتظامیہ کے سینیئر حکام کا کہنا ہے کہ اگر اسلام آباد اپنی پالیسیوں میں کچھ تبدیلیاں کرتا ہے تو پاکستان کو ملنے والی سیکیورٹی معاونت کی معطلی کے فیصلے پر امریکا نظر ثانی کرسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق عمران خان کے دورے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکام کا کہنا تھا کہ پاکستانی قیادت کو وائٹ ہاؤس کے دورے کی دعوی دینے کا مقصد امریکا کا اسلام آباد کو یہ پیغام دینا تھا کہ تعلقات کی بحالی اور شراکت داری قائم کرنے کے دروازے ابھی کھلے ہیں۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘فی الوقت سیکیورٹی معاونت معطل ہی ہے’۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتطامیہ نے پاکستان کو سیکیورٹی معاونت جنوری 2018 میں معطل کی تھی جس کے بعد سے پہلی مرتبہ امریکی حکام نے اس کی بحالی پر بات کی ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ ‘سیکیورٹی معاونت کی معطلی کے خاتمے کے چند شرائط ہوں گی جس میں پاکستان افغانستان اور لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی چند تنظیموں کے حوالے سے ہماری سیکیورٹی خدشات کو دور کرنا شامل ہے تاہم فی الوقت اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے’۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘واشنگٹن سے تعلقات کی بحالی کے لیے اسلام آباد کو دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسیوں میں کچھ تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم امریکا آمد کے بعد 22 جولائی کو وائٹ ہاؤس جائیں گے جہاں ان کی 3 نشستیں ہوں گی جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وہ ون آن ون ملاقات اور 2 نشستیں جبکہ صدر کی ٹیم کے ساتھ ظہرانہ بھی شامل ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ امریکی ٹیم میں سیکریٹری خزانہ اسٹیون منوچن، سیکریٹری کامرس ولبر روس، سیکریٹری توانائی رک پیری، نگراں سیکریٹری برائے دفاع رچرڈ اسپینسر اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ شامل ہیں۔
وزیر اعظم کی ٹیم میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر سول و عسکری قیادت شامل ہوگی۔
سینیئر ٹرمپ انتظامیہ کے حکام کا کہنا تھا کہ امریکی صدر افغان امن مرحلے میں پاکستان کو معاونت کرنے پر زور دیں گے اور انہیں امید ہے کہ ان دونوں کے درمیان ہونے والی بحث سود مند ثابت ہوگی۔
وائٹ ہاؤس بھی اس دورے کو پاکستان کا اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے طالبان کو افغان امن مرحلے پر زور دینے کا موقع سمجھتا ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ اس دورے سے پاکستان اپنا وہی راستہ اختیار کرے گا جو اس نے شروع کیا تھا، انہوں نے طالبان کی معاونت کی ہے اور افغان امن مرحلے کے حوالے سے ہماری چند درخواستوں پر عمل کیا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم انتہائی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور ہمیں پاکستان کے مزید تعاون کی ضرورت ہے، انہیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے ہم اس دورے کو انہیں ایسا کرنے پر زور دینے کا موقع سمجھ رہے ہیں’۔
افغانستان امریکی ایجنڈے میں پہلے نمبر پر رہے گا اور واشنگٹن نے واضح کردیا ہے کہ انہیں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔
حکام کا کہنا تھا ‘ہم پاکستان سے امن مرحلے کو آگے بڑھانے میں معاونت کرنے کا کہہ رہے ہیں، امریکا پاکستان کی جانب سے اس کی سہولت کاری کے لیے اٹھائے گئے ابتدائی اقدامات کو سراہتا ہے تاہم اس نازک صورتحال میں ہمیں مزید تعاون کی ضرورت ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم پاکستان سے طالبان کو مکمل جنگ بندی کرنے اور انٹرا افغان مذاکرات، جس میں افغان حکومت بھی شامل ہوگی، میں شرکت کرنے پر زور دینے کا کہہ رہے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ امریکا پاکستان سے دہشت گردی اور مسلح تنطیموں کے خلاف اقدامات کرنے کا بھی کہے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے وزیر اعظم کے استقبال کے لیے انتظامات کئے ہیں جو 4 سال میں امریکی صدر سے ملاقات کرنے والے پہلے پاکستانی رہنما ہوں گے۔
پاکستان سے بحث کے دوران تجارت، توانائی میں تعاون پر بھی بحث کی جائے اور وائٹ ہاؤس پاکستان کو خطے میں معاشی ترقی بڑھانے کے لیے مواقع پیدا کرنے پر بھی زور دے گا۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ‘ہم پاکستان کو افغانستان اور بھارت کے درمیان تجارت میں رکاوٹوں کو کم کرنے کا بھی کہے گا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں لگتا ہے کہ یہ انتہائی مثبت قدم ہے اور اس سے پاکستان کا امن اور جنوبی ایشیا کو مستحکم بنانے کا عزم ظاہر ہوگا’۔