حکومت کا گندم کی برآمدات پر پابندی لگانے کا فیصلہ
اسلام آباد: ملک میں گندم کی پیداوار میں کمی اور روٹی سمیت آٹے سے بننے والی دیگر غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے پیشِ نظر وفاقی حکومت نے گندم کی برآمدات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا۔
وزیر اعظم کے مشیر خزانہ و مالیات ڈاکٹر حفیظ شیخ کی سربراہی میں ہونےو الے کابینہ کی اقتصادی تعاون کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت تحفظ خوراک نے رواں سال گندم کی پیداوار کے متعین کردہ ہدف 2 کروڑ 55 لاکھ ٹن کے مقابلے 2 کروڑ 41 لاکھ 20 ہزار ٹن پیداوار ریکارڈ کی، علاوہ ازیں رواں برس حاصل شدہ مقدار بھی گزشتہ برس کے مقابلے 33 فیصد کم رہی۔
چنانچہ مقامی مارکیٹس میں روٹی اور گندم سے بنی دیگر اشیا کی قیمت قابو میں رکھنے کے لیے ای سی سی نے صوبائی حکومتوں کے تعاون سے قیمتوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی (این پی ایم سی) کے اجلاس کی تجویز دی۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم کا مناسب ذخیرہ موجود ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گندم کی ضرورت مجموعی طور پر 2 کروڑ 58 لاکھ 40 ہزار ٹن ہے جبکہ 2 کروڑ 80 لاکھ ٹن کا ذخیرہ موجود ہے۔
اس کے علاہ ای سی سی نے نیشنل فرٹیلائزر مارکیٹنگ لمیٹڈ (این ایف ایم ایل) کے ڈیلرز کو درآمد شدہ 50 کلو یوریا کھاد کے تھیلے کی ڈیلر ٹرانسفر قیمت 1800 روپے مقرر کرنے کی اجازت دے دی جو سونا یوریا کی اوسط قیمت سے 166 روپے کم ہے۔
اقتصادی تعاون کمیٹی نے مالی سال 20-2019 کے لیے تمباکو کی کم از کم اشاریاتی قیمت (ایم آئی پی) کے نوٹیفکیشن کی بھی منظوری دے دی۔
چنانچہ تمباکو کی مختلف اقسام کے ایم آئی پی کے مطابق ایف سی وی ٹی(سادے) تمباکو کی قیمت 190 روپے 63 پیسے فی کلو گرام، ایف سی وی ٹی (پہاڑی) تمباکو کی قیمت 218 روپے 77 پیسے، ڈبلیو پی تمباکو کی قیمت 82 روپے 85 پیسے، برلے تمباکو کی قیمت 150 روپے 54 پیسے، اور ڈی اے سی تمباکو کی قیمت 94 روپے 76 پیسےفی کلو رہے گی۔
ای سی سی اجلاس میں مطلوبہ شرائط پر پورا اترنے کے بعد دھاتی میل، خام دھات اور راکھ، آرسینک اور دیگر مرکبات(جس میں زیادہ تر المونیم شامل ہو) کی درآمدات کی اجازت بھی دے دی۔
شرائط کے مطابق درآمدات کی یہ اجازت صرف ان صنعتی صارفین کے لیے ہے جن کے پاس ری سائیکل(دوبارہ قابلِ استعمال بنانے) کی سہولت میسر ہے جس کے لیے وزارت ماحولیات سے تصدیق نامہ عدم اعتراض (این او سی) اور صوبائی محکمہ برائے تحفظ ماحولیات سے سرٹیفکیٹ لینا ضروری ہے۔