جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل کا تفصیلی فیصلہ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے نوازشریف کیخلاف فیصلہ سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو سکینڈل کا تفصیلی فیصلہ ویب سائٹ پر جاری کر دیا ہے جس میں جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا مسترد کر دی گئی ہے اور کہا گیا کہ ایک اپیل ہائیکورٹ میں زیر التوا ءہے تو اس مرھلے پر ہمارا مداخلت کرنا مناسب نہیں ہے،ہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کا ماضی مشکوک رہا،جج ارشد ملک اپنے ماضی کی وجہ سے بلیک میل ہو تا رہا ،ارشد ملک کے کردارسے اعلیٰ عدلیہ کا سر شرم سے جھک گیا۔
سپریم کورٹ ن جج ارشد ملک ویڈیو کیس کا تفصیلی فیصلہ ویب سائٹ پر جاری کر دیاہے جو کہ 25 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا ہے ، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایک اپیل ہائیکورٹ میں زیر التوا ءہے تو اس مرھلے پر ہمارا مداخلت کرنا مناسب نہیں ہے ۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایف آئی اس معاملے کی پہلے ہی تحقیقات کر رہی ہے ، ویڈیو کے مستند اور مضمرات سے متعلق ابھی فیصلہ جاری کرنا بہتر نہیں ، سپریم کورٹ ویڈیو اور اس کے اثرات کے حوالے سے متعلقہ فورم نہیں ہے ۔سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو درست ثابت ہونے پر ہائیکورٹ خود معاملے کا جائزہ لے سکتی ہے ، ہائیکورٹ ویڈیو کا معاملہ ٹرائل کو رٹ کو بھی بھجوا سکتا ہے ۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کا ماضی مشکوک رہا، ارشد ملک نے پریس ریلیز اور بیان حلفی میں اعتراف کیا ، جج ارشد ملک اپنے ماضی کی وجہ سے بلیک میل ہو تا رہا ، ارشد ملک مجرمان اور ان کے اہل خانہ سے ملاقاتیں کرتا رہا ، ارشد ملک کے کردارسے اعلیٰ عدلیہ کا سر شرم سے جھک گیا، ارشد ملک کی خدمات واپس نہ کرنے سے محکمانہ کارروائی نہ ہو سکی ، اٹارنی جنرل نے ارشد ملک کو لاہور ہائیکورٹ واپس بھجوانے کا یقین دلایا، توقع ہے لاہور ہائیکورٹ میں ارشد ملک کیخلاف انضباطی کارروائی ہوگی۔آصف زرداری کیس میں بھی جج کی آڈیو ٹیپ سامنے آئی تھی، آڈیو ٹیپ باضابطہ پیش نہ کرنے پر عدالت نے مسترد کر دی تھی۔
جج ویڈیو سکینڈل کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا مسترد کر دی ہے اور کہاہے کہ جوڈیشل کمیشن رپورٹ کی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، کمیشن کی رائے کا ہائیکورٹ میں زیر التوا اپیل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کوئی عدالت کمیشن کی رائے تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہوگی،ارشد ملک کا بیان حلفی ہی ان کے خلاف چارج شیٹ ہے، ارشد ملک نے خود تسلیم کیا ان کا ماضی مشکوک رہا ہے،ارشد ملک نے نوازشریف اور ان کے بیٹے سے ملاقات کو تسلیم کیا، نوازشریف کی سزا کیخلاف اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہے، سزا ختم ، برقراریا تبدیل ریکارڈ پرلائے گئے ثبوتوں کی بنیاد پر ہوتی ہے، ویڈیو پرکوئی بھی کمیشن یا تحقیقات معاملے پر صرف رائے کی حیثیت رکھے گی، فیصلہ قانون کے مطابق نواز شریف کی زیرسماعت اپیلوں پر اس رائے کا اثر نہیں ہوگا، ویڈیو کا اپیل پراثر تب ہوگا جب یہ ہائیکورٹ میں پیش اوراصل ثابت ہو۔
فیصلے میں آصف زرداری کی آڈیوکیسٹ کی بنیاد پردرخواست کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں آصف زرداری کی اپیلوں کے دوران آڈیوکیسٹ پیش کی گئیں،وکلا نے ہائیکورٹ کے جج کی جانبداری ثابت کرنے کیلئے آڈیو کیسٹ پرانحصار کیا، آڈیو کیسٹ اور اس کا متن قانون کے مطابق مصدقہ نہیں تھا، مصدقہ نہ ہونے پرآڈیو کیسٹ کو اپیل کے ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا، سپریم کورٹ نے بھی فیصلے میں اس مواد پر انحصار نہیں کیا،نوازشریف فیصلے کامعاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ دیکھے گی، کیا جج کے کنڈیکٹ سے ٹرائل پر اعتراض یا ٹرائل متاثر ہو سکتا ہے؟ نوازشریف کے دوبارہ ٹرائل یاشواہد کے جائزے کافیصلہ ہائیکورٹ خود کرے، اس موقع پر مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتے ،یہ معاملہ ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہے، ہائی کورٹ حقائق کا جائزہ لے کر خود نتیجے پر پہنچے۔
یا درہے کہ جولائی کے آغاز میں مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرف سے احتساب عدالت کے جج کی ویڈیو سامنے لائی گئی تھی ۔اس سے قبل عدالت عظمیٰ کی جانب سے مختصر فیصلہ سنایا گیا ، عدالت نے اپنے مختصر فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ ہمارے سامنے 5 نکات تھے جن کا ہم نے جائزہ لینا تھا۔ عدالت نےاپنے مختصر فیصلے میں قراردیا ہے کہ ویڈیو کو اصل کیسے مانا جائے ؟ اگر ویڈیو اصل ہے تو عدالت میں ثابت کیسے ہوگا؟ویڈیو اصل ثابت ہونے پر نواز شریف کی سزا پر کیا اثر ہوسکتا ہے ؟نواز شریف کی سزا کیلئے کونسی عدالت یا فورم متعلقہ ہوسکتی ہے؟ آخری ایشو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے مس کنڈکٹ کا تھا؟۔چیف جسٹس نے قراردیا ہے کہ تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیاجائے گا،سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے 20اگست کو کیس کی سماعت کے بعد محفوظ کیا گیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ واپس بھیجنے کے احکامات جاری کیے تھے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق ارشد ملک کے خلاف تادیبی کارروائی لاہور ہائی کورٹ کرے گا، جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی اور پریس ریلیز میں اعتراف جرم کیا ہے ۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کی ہدایات پر قائم مقام رجسٹرار نے نوٹیفکیشن جاری کیا، نوٹیفکیشن کے مطابق جج ارشد ملک بادی النظر میں مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔