URDUSKY || NETWORK

اگر بھارت جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائے تو پاکستان بھی ایسا کردے گا

70

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں، بھارت جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائے تو پاکستان بھی ایٹمی ہتھیار ترک کردے گا۔

انہوں نے امریکی ٹی وی چینل ’فوکس نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ‘پاکستان نہیں چاہتا کہ ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی بڑھے، امریکا اور ایران کشیدگی سے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور خطے کا امن اور معیشت متاثر ہونے کا خطرہ ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم خطے میں امن کے خواہاں ہیں اور اس کے لیے امریکا اور ایران کے درمیان مصالحت کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں’۔

پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہشمند ہیں، ایک ارب سے زائد آبادی والا یہ خطہ جنگوں سے پہلے ہی متاثر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘خطے میں مکمل امن اور خوشحالی چاہتے ہیں، ایٹمی ہتھیار کسی مسئلے کا حل نہیں’۔

عمران خان نے کہا کہ ‘پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر ہے، امریکا واحد ملک ہے جو پاکستان اور بھارت میں ثالثی کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 72 سال سے حل طلب مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں، مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو پاکستان اور بھارت مہذب ہمسائے کی طرح رہ سکتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ تنازعات کے حل کے لیے ایٹمی جنگ کوئی آپشن نہیں، بھارت جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائے تو پاکستان بھی ایسا کردے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی مسلح افواج پیشہ ور اور ہر طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے، پاکستان کا انتہائی جامع اور موثر جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم موجود ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ امریکا شکیل آفریدی کی بات کرتا ہے تو امریکا سے ڈاکٹر شکیل آفریدی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تبادلے پر بات چیت ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی جاسوس کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

جب اینکر کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ اکیلے فیصلہ نہیں لے سکتے جس پر عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ہے، یہاں اپوزیشن موجود ہے، وزیر اعظم کے لیے اکیلے فیصلہ لینا مشکل ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا سے قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں بات چیت ہوسکتی ہے۔

خطے میں دہشت گردی کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ امریکا اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قریبی اتحادی رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔

القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ امریکا اور پاکستان ایک دوسرے کے اتحادی تھے، امریکا کو اسامہ بن لادن سے متعلق پاکستان کو معلومات فراہم کرنی چاہیئں تھی جس کے بعد پاکستانی اداروں کو انہیں پکڑنا چاہیے تھا تاہم امریکا نے پاکستان پر بھروسہ نہیں کیا اور ہماری حدود کے اندر داخل ہوکر ‘ایک شخص’ کو قتل کیا۔

عمران خان نے مزید کہا کہ پاکستان پر حملہ نہیں ہوا لیکن پھر بھی اس نے دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں حصہ لیا جس میں 70 ہزار پاکستانی مارے گئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں، افغانستان کے امن اور استحکام میں پاکستان کو سب سے زیادہ دلچسپی ہے کیونکہ ہمسایہ ملک میں بدامنی سے براہ راست پاکستان پر اثرپڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ 1500 کلو میٹر طویل سرحد ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے امن لانے کی کوششوں پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کوششوں سے افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر پیش رفت ہوئی، طالبان کے ساتھ حالیہ امن مذاکرات اب تک کے کامیاب ترین مذاکرات رہے ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ طالبان کو حکومت کا حصہ بن کر عوام کی نمائندگی ملنی چاہیے، افغان طالبان افغانستان کے باہر کارروائیاں نہیں کرتے۔

وزیراعظم نے کہا کہ امریکا نے چار دہائیوں تک افغانستان میں جنگ لڑی، مگر افغانستان میں امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا، گزشتہ 19 برس کے دوران امریکا نے افغانستان میں امن کے لیے کردار ادا کیا ہے مگر ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ داعش پاکستان، امریکا اور افغانستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔

وزیراعظم نے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے حوالے سے کہا کہ صدر ٹرمپ صاف گو انسان لگے جو لفظوں کی ہیرا پھیری نہیں کرتے، میرا پورا وفد بھی میٹنگ سے بہت خوش ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا مثبت کردار بھی ادا کرنا چاہتے ہیں۔