لذتِ آشنائی
لذتِ آشنائی
تحریر: محمد الطاف گوہر
آنکھوں میں چھپا ہوا انتظار اور یاسیت کا عالم، لگتا ہے زندگی یہاں سے سسکتی ہوئی گزر رہی ہے۔مکمل سکوت اور ہو کا عالم ہے، جیسے پت جھڑ کے موسم میں کچھ باقی ماندہ پتے ہلکی سی ہوا چلے تو اپنا دامن شاخوں میں چھپا لیتے ہیں کہ شاید پھر بہار آئے اور پھر سے ہرے بھرے ہو جائیں ، مگر یہ سرد و خشک ہوا پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتی اور اپنی لپیٹ میں سب کچھ اڑا لیجاتی ہے۔
ان نیم واوں آنکھوں میں کو نسا انتظار چھپا ہے؟ زندگی کتنے رنگ و زاویے بدلتی ہے، کبھی مثلث بناتی ہے تو کبھی دائرہ مگر انجام سے بے خبر نہیں اور اپنی انتہا کو ضرور چھوتی ہے، جبکہ ہر اک ابتدا کا ایک انجام مقدر ہے جو ٹل نہیں سکتا ۔ اگر یہ زندگی مثلث میں سفر کرتی ہے تو اک اٹھان سے شناسا ہوتی ہے اور عروج کا مقام دیکھتی ہے مگر اچانک اسے ڈھلان کا احساس ہوتا ہے اور آخر زوال سے ناطہ جوڑ لیتی ہے۔ اور جب کبھی دائرہ میں سفر کرتی ہے تو پھر ہر لحظہ کروٹیں بدلتی ہے اور وہی سفر دوہراتی ہے اور آخر زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ہر بہار پت جھڑ کو چھوتی ہے اور اپنا انجام خزاں میں دیکھتی ہے یہ صرف اور صرف قدرت کا نظام ہے جو ازل سے رواں دواں اور فنا و بقا کا تسلسل ہے۔
شجر پہ آخر ی لٹکتا پتہ بھی اس امید میں ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بہار آجائے اور وہ پھر سے ہرا بھرا ہو جاؤں ، مگر فنا اسے اپنی اٹل حقیقت سے روشناس کرواتی ہے جو کہ اسکی اصل منزل اور انجام ہے۔ کیا فنا اتنی ظالم ہے کہ اسکا ہر درس تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں؟ ایسا نہیں ہے! بلکہ حقیقت شناس زاویہ تو ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ ہر فنا اک نئی بقا کا نقطہ آغاز ہے ۔ ایک ایسا لاثانی آغاز کہ جیسے ہر نئے روزکا چڑھتا ہوا سورج اک نئے دن کی نوید سناتا ہے اور گزشتہ رات کی فنا کا شاندار نظارہ پیش کرتا ہے۔ مگر اکثر ہم اس گزشتہ رات کے دامن میں لپٹی ہوئی نئی صبح کی صدا سننے سے قاصر رہتے ہیں اور رات کی گمنامی میں گم ہو جاتے ہیں۔
زندگی اپنا سفر کبھی نہیں روکتی ، کبھی سسکتے صحراؤں سے گزرتی ہے تو خزاں کا نظارہ پیش کرتی ہے اور کبھی سرسبزوشاداب وادیوں سے گزرتی ہے تو لطف و کرم کا منظر پیش کرتی ہے اور بہار کا سما ں بندہ جاتا ہے یہ سماں بھی کتنا دلربا ہے کہ لمحات مسرتوں سے لبریز ہوجاتے ہیں اور لذت کا چشمہ قلب سے جاری ہو جاتا ہے جسکا ادراک صرف اور صرف اس تجربہ سے گزرنے والوں کو ہو سکتا ہے ۔ہر آواز موسیقی کی طرح پرد ہ سماعت پر وارد ہوتی ہے،زندگی اٹھکھیلیاں کرتی نظر آتی ہے ،خوشبو کی طرح فضاؤں میں بکھر جانے کو جی چاہتا ہے ۔ ممکنات کے دروازے کھلے نظر آتے ہیں جبکہ قاہ او ر آہ بھی لذت سے معمور ہوتے ہیں ۔
اور کبھی زندگی کا گزر سنگلاخ چٹانوں سے ہو تو نئی امنگوں اور توانائیوں کو جنم دیتی ہے اور کبھی ریتلے اور تپتے صحراؤں سے ہو تو ہر طرف ہو کا عالم چھا جاتا ہے اور کبھی اسکا گزر گاتی ہوئی آبشاروں سے ہو تو لطف و کرم کے جام انڈیلتی ہے اور کبھی برفیلے پہاڑوں کا سفر درپیش ہو تو سست روی اور تکان کا منظر دکھائی دیتا ہے اور ہر حال میں اپنا سفر جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔
مگر ایک بار تو اسے تپتی دھوپ میں اک سایہ دار درخت کے نیچے روکا دیکھا !!!! کہیں آنکھوں کا دھوکا تو نہیں !!!! وقت بھی رک چکا تھا !!!! یہاں زندگی کو وصل و قربت کی لاثانی لذتوں سے سرشار ہوتے اور الفتوں کے جام انڈیلتے دیکھا۔لمحوں کو اس لذت آشنائی کے صدف میں گوہر ہوتے دیکھا۔ صدیوں بعد وقت کو سستانے کا موقع حاصل ہوتے دیکھا۔اجنبی راہوں نے مدت بعد اک شناسا چہرہ دیکھا جبکہ ہر طرف بہار ہی بہار تھی ۔ لمحے اپنی موج میں غرق تھے کہ اچانک زندگی نے جست بھری اور رخت سفر باندھ لیا ، پھر کبھی نفرتوں کی شاموں میں اور کبھی خوشیوں کے ہنگاموں میں اپنا سفر جاری رکھا۔
وہ لمحے جو زندگی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے چلتے ہیں ، وہ بھی کب تک ؟ آخر کہیں تو انکا سفر ختم ہونا ہے۔کبھی تو یہ لمحے مسرتوں سے لبریز ہوتے ہیں اور کبھی دکھوں اور اذیت کا مزہ چکھتے ہیں، تو کبھی لطف و کرم کا!!! کیا یہ لمحے پانی کی سطح پہ تیرتے بلبلے کیطرح اپنا وجود ختم کر دیں گے؟ نہیں !! یہ تو جلتی شمیں ہیں جو دیئے سے دیا جلائے رکھتی ہیں ، یہ تو بدلتی رتیں ہیں جو بہاروں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ۔
توڑ دو ذہن کی ان حدوں کو جو فنا میں لپٹی بقا کا تصور کرنے سے قاصر ہیں !!!
توڑ دوں ان خود ساختہ حد بندیوں کو جو اس آشنائی کے دور میں بھی شناسا ہونے سے روکتی ہیں !!!
اس موڑ سے آگے منزل ہے ، مایوس نا ہو درتا جا
ایک نوید سحر ، اک نئی کونپل آخر کس طرح ممکن ہے؟ اگر زندگی اپنا سفر جاری نہ رکھے تو کچھ بھی ممکن نہیں۔اگر اک نئی صبح کی آمد آمد ہے تو اک رات بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی۔ ہر رات اک نئی صبح دیکھتی ہے اور ہر اندھیرا روشنی کا منہ چومتا ہے ۔ ہر لمحہ اک نئی کروٹ بدلتا ہے کیونکہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور ہم ہر لمحہ اک نئی جگہ پہ دریافت ہوتے ہیں۔ہر ماضی اک نئے حال سے روشناس ہوتا اور ہر حال ایک مستقبل کا ادراک کرتا ہے ، ہر بقا اپنی فنا دیکھتی ہے اور ہر فنا کے دامن سے اک بقا کا نمو ہوتا ہے ، یہی قانون قدرت ہے اور یہی درس کائنات کے ذرے ذرے کو معلوم ہے ۔
لذت آشنائی- ایک تعارف
لذت آشنائی کا یہ سلسلہ تو میرے بچپن کا ساتھی ہے، جہاں میں نے زندگی کے خوبصورت لمحوں کو قید کیا ہوا ہے مگر اسکو لکھنے کا باقاعدہ سلسلہ گذشتہ برس 2008 ماہ رمضان المبارک میں پہلے پہل صرف پرسنل ڈائری کی شکل میں شروع کیا ،اس سوچ کے مد نظر کہ اگر کوئی پھل درخت پہ لگا پک جائے تو اسے اتار لینا چاہئے ورنہ گل سڑ جاتا ہے ، لہذا اسے باقاعدہ ایک تحریر کی شکل دینی شروع کر دی، قلم تھا کہ خود بخود چلتا جاتا تھا اور روانی تھی کہ ہاتھ رکنے کا نام نہیں لیتا تھا ۔ جب اس تحریر کا نام تجویز کرنا چاہا تو جو کیفیت لکھتے ہوئے مجھے محسوس ہوتی تھی اس کو آشکار کرنے کو دل چاہا جس لذت میں میں ڈوبا ہوا رہتا ہوں اسی کو نام دے دیا، ” لذت آشنائی” جس کے سامنے مجھے دنیا کی ہر لذت ہیچ لگتی ہے۔
مصروفیات روزگار اور ذمہ داریوں کے باعث لکھنے کا سلسلہ صرف ماہ رمضان 2008 تک محدود رہا مگر اچانک ایک دن ان تحاریر کو جو ابھی تک فقط ذاتی ڈائری تک محدود تھیں ، پبلش کروانے کی سوجھی اور اپنی ڈائری کے چند صفحات کو اقساط بنا کر اردو پوئنٹ ڈاٹ کام کو بجھوا دیا جس کے توسط سے مجھے پوری دنیا میں متعارف ہونے کا موقع ملا اور بہت زیادہ پزیرائی بھی ہوئی ؛ جسکے باعث میں اردو پوائنٹ ڈاٹ کام کا بہت زیادہ مشکور ہوں۔اسکے ساتھ ساتھ ہماری ویب ڈاٹ کام کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے اس سلسلہ کو ” پر اسرار بندے ” کے نام سے اپنی ویب سائٹ پہ پبلش کیا اور چند اقساط کی اک لڑی باندھ دی ؛ اسکے علاو روزنامہ ” نوائے وقت-لاہور” کا مشکور ہوں جنہوں نے 2008 اکتوبر میں ” ملی ایڈیشن ” میں تسلسل کے ساتھ شائع کر کے مجھے ایک رائٹر کے طور پہ متعارف کروا دیا۔ جبکہ اسکا تسلسل ،گاہے بگاہے ، ابھی تک قائم ہے ؛
آج اگر دوبارہ ” لذت آشنائی ” کا سلسلہ شروع کیا ہے تو صرف ماہ رمضان کی برکت کے سبب سے اور ان تشنہ لبوں کو سیراب کرنے کیلئے کہ جو گزشتہ ہر تحریر پڑھنے کے بعد آنے والی قسط کا شدت سے انتظار کرتے تھے ، امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا ، ساتھ ساتھ آپکی آرا کا شدت سے انتظار رہے گا۔