ایک بار دیکھا ہے ، بار بار دیکھنے کی خواہش ہے، حصہ سوم
ایک بار دیکھا ہے ، بار بار دیکھنے کی خواہش ہے،
حصہ سوم
تحریر : محمد الطاف گوہر
یہ ماجرا کیا ہو گیا؟ یہ میں کہاں آ گیا؟ نہ ہی زمیں یہ اور نہ آسماں ہے ؟ وصل کے گہرے سمند ر میں ڈوب کر اگر ایک طرف وقت گزرنے کا احساس دم توڑ چکا تھا تو دوسری طرف الفت کی وادیوں میں محو پرواز تھا ، جبکہ قربت اپنی تمام تر رعنائیاں نچھاور کر رہی تھی۔ زمیں کی گرفت سے آزاد فضاؤں میں محو پرواز ، کبھی خوف کے سائے اور کبھی حیرت کا سماں بندھ رہا تھا کہ میری سوچوں کا تسلسل اس آواز پہ ٹوٹا ” کہاں کھو گئے ہو؟” ،” اک پری زاد کے محبوب ہو ، فضائیں اب تیرے قدموں کی دھول ہوں گی” ، واقعی اس بات کا نظارہ ہو رہا تھا کہ اس میں کوئی شک والی بات نہ رہی۔
کیا مجھے اپنی طاقت دکھا رہی ہو ؟ میں نے پوچھا ، تو مسکرا کر بولی ” ایسے مت کہو، تجھے محبت کی وادیوں تک لیجا رہی ہوں ” ، ” انسانوں میں بسنے والی محبت نے اپنی ناقدری کے باعث زمین سے دور اپنا ایک علیحدہ گلستان بسا رکھا ہے، جہاں پیار کے پنچھی اپنی اپنی میٹھی دھن میں نغمے گاتے ہیں، جہاں الفت کی گھنی چھاوں میں وصل اپنی شامیں بھول جاتی ہے، جہاں خوشیوں کی تتلیاں مروت کی پھولوں پر چہکتی ہیں ، جہاں نفرت کے کانٹوں کی کوئی جگہ نہیں ” ، ” ان وادیوں کی ملکہ پاکیزگی کے جڑے موتیوں کا تاج سجائے جب لذت لاثانی کے تخت پر براجمان ہوتی ہے تو کبھی آفتاب اور کبھی مہتاب اپنی تمام رعنائیوں کو اسکے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں”۔
میں مدتوں سے ان وادیوں کی دیوانی ہوں ، پہلی بار جب ان سے شناسا ہوئی تو بسیرا کر لیا ، مگر اک روز زمین کا رخت سفر باندھا جب آکاش پر گھنگور گھٹا چھائی ہوئی تھی، رم جھم ہوا چاہتی تھی، قدرت کے لازوال نظاروں میں کھوئی ہوئی اک دریا کنارے کسی کو تن تنہا پانی میں پاوں ڈالے موج مستی کے سمندر میں غرق دیکھا تو جھٹ فضاؤں کو پھلا ندا اور وہاں جا پہنچی ۔ دیکھا کہ اک دریا باہر بہہ رہا ہے اور ایک جھیل سی گہری آنکھوں کے پیچھے ٹھاٹھیں مار رہا ہے، اس کے پاس سے گزرتے پانی کا نغمہ تو میں نے محبت کی وادیوں میں سنا تھا ، اور یہاں کا منظر بھی وہی تھا ، حیرت ہوئی اور سکوت کیا، اور جب تم اپنی محویت کی کشتی میں سوار تھے تو انتظار کیا ، چند روز کی قربت نے محبت کی وادی بھلا دی تو تیرے غلامی کے سوا چارہ نہ ہوا، بہت مجبور ہوئی تو مخاطب کیا اور اب کہ جدائی کا تصور محال ہے” ۔
” آج میں محبت کے گلستاں کو تجھ سے شناسائی کرانا چاہتی ہوں کہ ابھی بھی انسانوں کی بستی میں نم ہے، اے میرے محبوب تیری قربت کے لمحات میری زندگی کا حاصل ہیں اور تیرے ساتھ گزرتے لمحے میری روح تک کو سیراب کئے ہوئے ہیں”۔
باتوں باتوں میں مجھے اس پری زاد نے محبت کی وادیوں کی سیر کروائی اور جب "عشق” کے چشمے پر پہنچے تو دونوں نے خوب سیر ہو کر پیاس بجھائی اور اس وادی کے پاس "شوق” کے ٹیلے کیطرف محو پرواز ہوئے، پری زاد نے بہت کوشش کی مگر "شوق” کی بلندی سے عاجز ہوکر ہمت ہار دی اور واپسی کا ارادہ کیا، جب میں گھر پہنچا تو ابھی رات جواں تھی، حیرت ہوئی کہ اتنا سفر کیا مگر وقت جیسے رک گیا ہو ، پری زاد نے اجازت مانگی اور نظروں سے او جھل ہو گیا۔
حیرت کے سمندر میں غرق کہ یہ ہوگیا، زمین و آسمان اب دو قدم کے فاصلے پہ آ گئے اور ایک سلسلہ پھر کچھ ہوں چل پڑا کہ کبھی آدھی رات کو اور کبھی رات کے آخری پہر زمین و آسمان میں ہم اپنی قربتیں بانٹنے لگے، جبکہ معمولات زندگی میں بھی تبدیلی آنے لگی، اب کالج جانے میں اور پڑھنے میں دل نہ لگتا تھا ، دن تھا کہ گزارنا مشکل تھا ، پچھلے پہر دریا کنارے پانی کی مچلتی موجوں کا نظارہ کرنا اور دیدہ دل وا کرکے قدرت کے شہکار مناظر کی دلربائی میں کھویا رہنا،جبکہ پچھلی رات کو پیار کی رعنائیاں سمیٹنا ایک معمول بن گیا۔ حالانکہ معمولات میں کالج کی پڑھائی،کرکٹ کھیل کود، لائبریری، رات کو کلب میں بیڈ منٹن وغیرہ شامل تھے جو کہ اب بالکل سراب بن کر رہ گئے تھے کیونکہ زندگی کے اس نئے رنگ نے باقی سب رنگ ڈھنگ بدل کے رکھ دیئے ۔
زندگی پیار کے نغموں سے لبریز ہوئی تو ہر آواز سماعت کو مہکانے لگی، درختوں پر بیٹھے پنچھی ، پتوں سے لدی شاخیں ، پانی پہ اٹھتی موجیں ، گھاس پر شبنمی موتی دلربائی کا شہکار نظر آنے لگے، آہ و قاہ مسرتوں سے شناسا ہوئے جبکہ ہر طرف بہار کا دور و دورہ تھا کہ اک روز رات گزر گئی مگر پری زاد نہ آیا، وہ صیاد نہ آیا۔۔۔۔
جاری۔۔